Null
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Seerat ul Anbiya | سیرتُ الانبیاء

book_icon
سیرتُ الانبیاء
            

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا اوراس کی قبولیت:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام یہ سن کر مجلس سے اٹھ گئے اور مصری عورتیں ملامت کرنے کے بہانے سے باہر آئیں اور ایک ایک نے آپ سے اپنی تمنّاؤں اور مرادوں کا اظہار کیا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کی گفتگو بہت ناگوار ہوئی تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی۔(1) رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِۚ-وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَیْهِنَّ وَ اَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِیْنَ(۳۳) (2) ترجمہ : اے میرے رب! مجھے اس کام کی بجائے قید خانہ پسند ہے جس کی طرف یہ مجھے بلارہی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کا مکر وفریب نہ پھیرے گاتو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہوجاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور عورتوں کا مکر و فریب ان سے پھیر دیا،جس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سے امید پوری ہونے کی کوئی شکل نہ دیکھ کر مصری عورتوں نے زلیخا سے کہا:اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو تین روز یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو قید خانہ میں رکھا جائے تاکہ وہاں کی محنت و مشقت دیکھ کر انہیں نعمت و راحت کی قدر ہو اور وہ تیری درخواست قبول کرلیں۔ قرآن مجید میں ہے: فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَیْدَهُنَّؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۳۴) ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰیٰتِ لَیَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰى حِیْنٍ۠(۳۵) (3) ترجمہ : تو اس کے رب نے اس کی سن لی اور اس سے عورتوں کا مکروفریب پھیردیا، بیشک وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔ پھر سب نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی انہیں یہی سمجھ آئی کہ وہ ضرور ایک مدت تک کیلئے اسے قیدخانہ میں ڈال دیں۔ چنانچہ زلیخا نے یہ رائے مان کر عزیز ِمصر سے کہا کہ میں اس عبرانی غلام کی وجہ سے بدنام ہوگئی ہوں اور میری طبیعت اس سے نفرت کرنے لگی ہے ،مناسب یہ ہے کہ اسے قید کیا جائے تاکہ لو گ سمجھیں کہ یوسف عَلَیْہِ السَّلَام قصووار ہیں اور میں ملامت سے بری ہوں۔ یہ بات عزیز کو بھی سمجھ آئی اور اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو قید خانے میں بھیج دیا۔(4)

دو قیدی اور ان کا خواب:

جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام قیدخانے میں گئے تو ان کے ساتھ دو نوجوان بھی قید میں ڈالے گئے۔ان میں سے ایک تو مصر کے شاہِ اعظم ولید بن نزدان عملیقی کے باورچی خانے کا انچارج تھا اور دوسرا اس کاساقی(یعنی شراب پلانے والا)۔ ان دونوں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینا چاہا اور اس جرم میں دونوں قید کئے گئے۔قید خانے میں حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے علم کا اظہار شروع کردیا اور فرمایا کہ میں خوابوں کی تعبیر کا علم رکھتا ہوں۔ ایک دن بادشاہ کے ساقی نے کہا: میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں ایک باغ میں ہوں اور وہاں ایک انگور کی بیل میں تین خوشے لگے ہوئے ہیں ، بادشاہ کا کاسہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں نے ان انگوروں کا رس نچوڑ کر بادشاہ کو پلایا تو اس نے پی لیا۔ کچن کا انچارج بولا:میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں بادشاہ کے کچن میں اپنے سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں جن میں سے پرند ے کھا رہے ہیں۔ اے یوسف! عَلَیْہِ السَّلَام ، آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے۔ بیشک ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھ رہے ہیں کہ آپ دن میں روزہ دار رہتے اور ساری رات نماز میں گزارتے ہیں ۔ جب کوئی جیل میں بیمار ہوتا ہے تو اس کی عیادت کرتے اورخبر گیری رکھتے ہیں ۔ جب کسی پر تنگی ہوتی ہے تو اس کے لئے وسعت کی راہ نکالتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: وَ دَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیٰنِؕ-قَالَ اَحَدُهُمَاۤ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَعْصِرُ خَمْرًاۚ-وَ قَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْهُؕ-نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِهٖۚ-اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۶) (5) ترجمہ : اور یوسف کے ساتھ قیدخانے میں دو جوان بھی داخل ہوئے ۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کررہا ہوں اور دوسرے نے کہا: میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں جن میں سے پرندے کھا رہے ہیں۔ (اے یوسف!) آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے۔ بیشک ہم آپ کو نیک آدمی دیکھتے ہیں۔

معجزے کا اظہار اور تبلیغ و نصیحت:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں تعبیر بتانے سے پہلے بڑے موثر اور مدلل انداز میں توحید کی دعوت دی، چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: لَا یَاْتِیْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖۤ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِیْلِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَكُمَاؕ-ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْؕ-اِنِّیْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ(۳۷) وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نُّشْرِكَ بِاللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَیْنَا وَ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ(۳۸) یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُؕ(۳۹) مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۴۰) (6) ترجمہ : تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے وہ تمہارے پاس نہیں آئے گا مگر یہ کہ اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتادوں گا۔ یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے۔ بیشک میں نے ان لوگوں کے دین کونہ مانا جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں۔ اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے دین ہی کی پیروی کی۔ ہمارے لئے ہرگز جائز نہیں کہ ہم کسی چیز کو اللہ کا شریک ٹھہرائیں ، یہ ہم پر اور لوگوں پر اللہ کا ایک فضل ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ اے میرے قیدخانے کے دونوں ساتھیو! کیا جدا جدا رب اچھے ہیں یا ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ تم اس کے سوا صرف ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہوجو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے تراش لیے ہیں ، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حکم تو صرف اللہ کا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو،یہ سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ سُبْحَانَ اللہ ! حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی تبلیغ ِ دین، دعوتِ ایمان اور نیک پیغام پہنچانے کا جذبہ قابلِ اتباع ہے کہ جیل کی تنگ وتکلیف دِہ زندگی میں بھی عبادت میں مشغول رہے اورنیکی کی دعوت دیتے رہے ،کاش کہ ہم عافیت کی زندگی میں ہی نیک اور نیکی کی دعوت دینے والے بن جائیں۔

قیدیوں کے خواب کی تعبیر اور انہیں تنبیہ:

توحیدو ایمان کی دعوت دینے کے بعد آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اے قید خانے کے دونوں ساتھیو! تم میں ایک یعنی بادشاہ کوشراب پلانے والا تو اپنے عہدے پر بحال کیا جائے گا اور پہلے کی طرح بادشاہ کو شراب پلائے گا اور تین خوشے جو خواب میں بیان کئے گئے ہیں اس سے مراد تین دن ہیں ، وہ اتنے ہی دن قید خانے میں رہے گا پھر بادشاہ اسے بلالے گا اور جہاں تک دوسرے یعنی شاہی باورچی کا تعلق ہے تو اسے سولی دی جائے گی پھر پرندے اس کا سر کھالیں گے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: تعبیر سن کر ان دونوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سے کہا کہ خواب تو ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہم تو ہنسی مذاق کررہے تھے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا : اس کام کا فیصلہ ہوچکا ہے جس کے بارے میں تم نے پوچھا تھا اور جو میں نے کہہ دیا یہ ضرور واقع ہوگا؛ تم نے خواب دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو اب یہ حکم ٹل نہیں سکتا۔(7) قرآن پاک میں ہے: یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّهٗ خَمْرًاۚ-وَ اَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِهٖؕ-قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِؕ(۴۱) (8) ترجمہ : اے قید خانے کے دونوں ساتھیو! تم میں ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلائے گا اور جہاں تک دوسرے کا تعلق ہے تو اسے سولی دی جائے گی پھر پرندے اس کا سر کھالیں گے ۔ اس کام کا فیصلہ ہوچکا ہے جس کے بارے میں تم نے پوچھا تھا۔

ساقی کوتاکید:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے علم سے ساقی کے بارے میں جان لیا تھا کہ وہ بچ جائے گا، چنانچہ اس سے فرمایا:اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کرنا اور میرا حال بیان کرنا کہ قید خانے میں ایک مظلوم بے گناہ قید ہے اور اس کی قید کو ایک زمانہ گزر چکا ہے لیکن باہر جاکر وہ شخص بھول گیا، جس کی وجہ سے یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کئی برس مزید جیل میں رہے۔ قرآن پاک میں ہے: وَ قَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّكَ٘-فَاَنْسٰىهُ الشَّیْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَؕ۠(۴۲) (9) ترجمہ : اور یوسف نے جس کے بارے میں گمان کیا کہ ان دونوں میں سے وہ بچ جائے گا اسے فرمایا: اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کرنا تو شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے سامنے یوسف کا ذکر کرنا بھلادیا تو یوسف کئی برس اور جیل میں رہے۔ اکثر مفسرین اس طرف ہیں کہ اس واقعہ کے بعد حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سات برس مزید قید میں رہے اور پانچ برس پہلے رہ چکے تھے۔

بادشاہ کا خواب اوردرباریوں کا جواب:

کچھ مدت گزرنے کے بعد جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو قید سے نکالنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو اس کی صورت یہ بنی کہ مصر کے شاہ ِاعظم ، ریان بن ولید نے ایک عجیب خواب دیکھا جس سے اس کو بہت پریشانی ہوئی اور اس نے ملک کے جادوگروں، کاہنوں اور تعبیر دینے والوں کو جمع کرکے ان سے اپنا خواب بیان کیا اور ا س کی تعبیر پوچھی۔انہوں نے جواب دیا : یہ جھوٹا خواب ہے اور ہمیں اس کی تعبیر معلوم نہیں ۔(10) قرآنِ پاک میں ہے: وَ قَالَ الْمَلِكُ اِنِّیْۤ اَرٰى سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍؕ-یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُءْیَایَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْیَا تَعْبُرُوْنَ(۴۳) قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۚ-وَ مَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِیْنَ(۴۴) (11) ترجمہ : اور بادشاہ نے کہا: میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سرسبز بالیاں اور دوسری خشک بالیاں دیکھیں۔ اے درباریو! اگر تم خوابوں کی تعبیر جانتے ہو تو میرے خواب کے بارے میں مجھے جواب دو۔ انہوں نے کہا: یہ جھوٹے خواب ہیں اور ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔

شاہی ساقی کی درباریوں کو پیشکش:

شاہی ساقی جس نےقید سے نجات پائی تھی، اسے اب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا پیغام یاد آیا کہ ’’اپنے آقا کے سامنے میرا ذکر کرنا‘‘ چنانچہ ساقی نے کہا:میں تمہیں اس کی تعبیر بتادوں گا بس تم مجھے قید خانے میں بھیج دو کیونکہ وہاں خوابوں کی تعبیر جاننے والے ایک شخص ہیں ۔(12) قرآن کریم میں ہے: وَ قَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْهُمَا وَ ادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِیْلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ(۴۵) (13) ترجمہ : اور دو قیدیوں میں سے بچ جانے والے نے کہا اور اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا: میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا، تم مجھے (یوسف کے پاس) بھیج دو۔

شاہی ساقی کی یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سے درخواست:

ساقی کی پیشکش سن کر بادشاہ نے اسے بھیج دیا اوراس نے قید خانہ میں پہنچ کر حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی خدمت میں عرض کی: یُوْسُفُ اَیُّهَا الصِّدِّیْقُ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍۙ-لَّعَلِّیْۤ اَرْجِعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُوْنَ(۴۶) (14) ترجمہ : اے یوسف! اے صدیق! ہمیں ان سات موٹی گایوں کے بارے میں تعبیر بتائیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی تھیں اور سات سرسبز بالیوں اور دوسری خشک بالیوں کے بارے میں تاکہ میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں تاکہ وہ جان لیں۔

بادشاہ کے خواب کی تعبیر:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے اسے خواب کی تعبیر بتادی اور فرمایا: تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًاۚ-فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِیْ سُنْۢبُلِهٖۤ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ(۴۷) ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ(۴۸) ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِیْهِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیْهِ یَعْصِرُوْنَ۠(۴۹) (15) ترجمہ : تم سات سال تک لگاتار کھیتی باڑی کرو گے تو تم جو کاٹ لو اسے اس کی بالی کے اندر ہی رہنے دو سوائے اس تھوڑے سے غلے کے جو تم کھالو۔ پھر اس کے بعد سات برس سخت آئیں گے جو اس غلے کو کھا جائیں گے جو تم نے ان سالوں کے لیے پہلے جمع کر رکھا ہوگا مگر تھوڑا سا (بچ جائے گا) جو تم بچالو گے۔ پھر ان سات سالوں کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو بارش دی جائے گی اور اس میں رس نچوڑیں گے۔

بادشاہ کی یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو دعوت اور آپ کا جواب:

ساقی جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سے یہ تعبیرسن کر واپس ہوا اور بادشاہ کی خدمت میں جا کر تعبیر بیان کی، بادشاہ کو یہ تعبیر بہت پسند آئی اور اسے یقین ہوا کہ جیسا حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا ہے ضرور ویسا ہی ہوگا۔ بادشاہ کو شوق پیدا ہوا کہ اس خواب کی تعبیر خود حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی زبان مبارک سے سنے ،چنانچہ اس نے حکم دیا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں انہیں دیکھوں کیونکہ انہوں نے خواب کی بہت اچھی تعبیر بیان کی ہے۔ جب قاصد حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آیا اور بادشاہ کا پیام عرض کیا تو آپ نے فرمایا:اپنے بادشاہ کی طرف لوٹ جاؤ اور اس سے درخواست کرو کہ پہلے اُن عورتوں کے معاملےکی تفتیش کرو جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے،بیشک میرا رب عَزَّ وَجَلَّ ان کے مکر جانتا ہے۔ یہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس لئے فرمایا تاکہ بادشاہ کے سامنے آپ کی براءت اور بے گناہی ظاہر ہوجائے اور اسے یہ معلوم ہو کہ یہ لمبی قید بلا وجہ ہوئی تاکہ آئندہ حاسدوں کو الزام لگانے کا موقع نہ ملے۔(16) قرآن کریم میں ہے: وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۚ-فَلَمَّا جَآءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰى رَبِّكَ فَسْــٴَـلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِكَیْدِهِنَّ عَلِیْمٌ(۵۰) (17) ترجمہ : اور بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں میرے پاس لے آؤ تو جب ان کے پاس قاصد آیا تو یوسف نے فرمایا: اپنے بادشاہ کی طرف لوٹ جاؤ پھر اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے۔ بیشک میرا رب ان کے مکر کو جانتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تہمت دور کرنے میں کوشش کرنی چاہیے اور خصوصا ایسے شخص کےلئے تو بہت ضروری ہے جس کے منصب سے لوگوں کو دعوت و تبلیغ وابستہ ہےاور اس پر تہمت لوگوں کے دینی نقصان کا سبب بن سکتی ہو۔

عورتوں سے واقعے کی تحقیق اور ان کا اعترافِ حق:

جب قاصد حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کاپیغام لے کر بادشاہ کی خدمت میں پہنچا تو بادشاہ نے پیغام سن کر ہاتھ کاٹ لینے والی عورتیں جمع کیں اور عزیز ِ مصرکی بیوی بھی بلائی، پھر ان سے کہا: قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوْٓءٍؕ-قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ الْــٴٰـنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ٘-اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۵۱) (18) ترجمہ : اے عورتو! تمہارا کیا حال تھا جب تم نے یوسف کا دل لبھانا چاہا۔ انہوں نے کہا: سُبْحَانَ اللہ ! ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیز کی عورت نے کہا: اب اصل بات کھل گئی۔ میں نے ہی ان کا دل لبھانا چاہا تھا اور بیشک وہ سچے ہیں۔ حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اوریہ ان کی توبہ تھی ۔لہٰذا اب حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو برے لفظوں سے یاد کرنا حرام ہے کیونکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی صحابیہ تھیں اور بعدمیں ان کی بیوی بنیں۔ توبہ کرنے والا گنہگار بالکل بے گناہ کی طرح ہوتا ہے۔

عورتوں سے تحقیق کا مطالبہ کرنے کا مقصد:

بادشاہ سے تحقیق کروانے کا مقصد حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے یوں بیان فرمایا: ذٰلِكَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ كَیْدَ الْخَآىٕنِیْنَ(۵۲) (19) ترجمہ : یوسف نے فرمایا: یہ میں نے اس لیے کیا تاکہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدمِ موجودگی میں کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کرنے والوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دروغ(جھوٹ) کو فروغ نہیں اور سانچ کو آنچ نہیں ، مکار کا انجام خراب ہوتا ہے۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی عاجزی و انکساری:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے بے گناہ ہونے کو بیان کیا اور خود پسندی سے بچتے ہوئے اس کمال کو اللہ تعالیٰ کی مہربانی قرار دیا ،چنانچہ عرض کی: اے میرے اللہ ! عَزَّ وَجَلَّ ، میں اپنے نفس کو بے قصور بتاتا ہوں نہ مجھے اپنی بے گناہی پر ناز ہے اور نہ میں گناہ سے بچنے کو اپنے نفس کی خوبی قرار دیتا ہوں ،نفس کی جنس کا تویہ حال ہے کہ وہ برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے، لیکن میرا رب عَزَّ وَجَلَّ اپنے جس مخصوص بندے کو اپنے فضل وکرم سے معصوم کردے تو اس کا برائیوں سے بچنا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے اور معصوم کرنا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا کرم ہے،بیشک میرا رب عَزَّ وَجَلَّ اپنے بندوں کے گناہوں کوبخشنے والا اور ان پر مہربان ہے۔(20) قرآن مجید میں ہے: وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ-اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵۳) (21) ترجمہ : اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔ اس میں ہماری لئے یہ درس ہے کہ کوئی بندہ اپنے نیک اعمال پر نازاں نہ ہو بلکہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر اداکرے کہ اُس نے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کی ہے۔

بادشاہ کی طرف سے یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی تعظیم:

جب بادشاہ کو حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے علم ودیانت کا حال معلوم ہوا اوراسے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے حسن ِصبر،حسن ِادب ،قید خانے والوں کے ساتھ احسان ،مشقتوں اور تکلیفوں پر ثابت قدمی کا پتا چلا تواس کے دل میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی بہت عظمت پیدا ہوئی اوراس نےکہا: حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں انہیں اپنے لیے منتخب کر لوں۔چنانچہ بادشاہ نے معززین کی ایک جماعت بہترین سواریاں ،شاہانہ سازو سامان اورنفیس لباس دے کر قید خانے میں بھیجی تاکہ وہ یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو انتہائی تعظیم وتکریم کے ساتھ ایوان شاہی میں لائیں ۔ان لوگوں نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی خدمت میں حاضر ہو کر بادشاہ کا پیغام سنایا تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے پیشکش قبول فرمالی اور قید خانہ سے نکلتے وقت قیدیوں کے لئے دعا فرمائی۔ جب قید خانے سے باہر تشریف لائے تو اس کے دروازے پر لکھا:یہ بلا کا گھر، زندوں کی قبر ، دشمنوں کی بدگوئی اور سچوں کے امتحان کی جگہ ہے۔ پھر غسل فرمایا اور پوشاک پہن کر ایوانِ شاہی کی طرف روانہ ہوئے ،جب قلعہ کے دروازے پر پہنچے تو فرمایا:میرا رب عَزَّ وَجَلَّ مجھے کافی ہے، اس کی پناہ بڑی اور اس کی ثنا برتر ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ پھر قلعہ میں داخل ہوئے اورجب بادشاہ کے سامنے پہنچے تو یہ دعا کی: یارب! عَزَّ وَجَلَّ ، میں تیرے فضل سے بادشاہ کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور اس کی اور دوسروں کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ قرآن پاک میں ہے: وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۤ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِیْۚ-فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَكِیْنٌ اَمِیْنٌ(۵۴)(22) ترجمہ : اور بادشاہ نے کہا: انہیں میرے پاس لے آؤ تاکہ میں انہیں اپنے لیے منتخب کرلوں پھر جب بادشاہ نے یوسف سے بات کی تو کہا۔ بیشک آج آپ ہمارے یہاں معزز،امانتدارہیں۔

بادشاہ کے سامنے خواب کی تعبیر:

بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سے درخواست کی کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام اس کے خواب کی تعبیر اپنی زبانِ مبارک سے سنائیں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے اس خواب کی پوری تفصیل بھی سنادی کہ اس اس طرح سے اس نے خواب دیکھا تھا حالانکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سے یہ خواب اس سے پہلے اس تفصیل سے بیان نہ کیا گیا تھا۔اس پر بادشاہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ کہنے لگا : آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے تو میرا خواب جیسے میں نے دیکھا تھا ویسے ہی بیان فرمادیا ،خواب کا عجیب ہونا تو اپنی جگہ لیکن آپ کا اس طرح بیان فرمادینا اس سے بھی زیادہ عجیب تر ہے،اب اس خواب کی تعبیر بھی ارشاد فرما دیں ۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس کے سامنے بھی وہی تعبیر بیان کر دی جو پہلے کر چکے تھے۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی بادشاہ کو تجویز:

تعبیر بیان کرنے کے بعدآپ عَلَیْہِ السَّلَام نےارشاد فرمایا: اب یہ کیا جائے کہ غلّے جمع کئے جائیں اور فراخی کے سالوں میں کثرت سے کاشت کرائی جائے اورغلّے بالیوں کے ساتھ محفوظ رکھے جائیں اور رعایا کی پیداوار میں سے خمس لیا جائے، اس سے جو جمع ہوگا وہ مصر اور اس کے اطراف کے باشندوں کے لئے کافی ہوگا ۔بادشاہ نے کہا، یہ انتظام کون کرے گا؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا: اپنی سلطنت کے تمام خزانے میرے سپرد کردو، بیشک میں خزانے کی حفاظت کرنے والا اور ان کے مصارف جاننے والا ہوں۔ بادشاہ نے کہا، آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے زیادہ اس کا مستحق اور کون ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا یہ مطالبہ منظور کرلیا۔(23) قرآن کریم میں ہے: قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(۵۵) (24) ترجمہ : یوسف نے فرمایا: مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو ، بیشک میں حفاظت والا، علم والا ہوں۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی بادشاہت:

امارت یعنی حکومت طلب کرنے کے ایک سال بعد بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کرآپ عَلَیْہِ السَّلَام کی تاج پوشی کی، تلوار اور مُہر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے سامنے پیش کی ، آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو جواہرات لگے ہوئے سونے کے تخت پر تخت نشین کیا ، اپنا ملک آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے سپرد کیا، قطفیر یعنی عزیز مصر کو معزول کرکے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو اس کی جگہ والی بنایا اور تمام خزانے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے حوالے کردئیے، سلطنت کے تمام امورآپ عَلَیْہِ السَّلَام کے ہاتھ میں دے دیئے اور خود اس طرح فرمانبردار ہوگیا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی رائے میں دخل نہ دیتا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کاہر حکم مانتا۔(25)

زلیخا سے نکاح اور اولاد:

اسی زمانہ میں عزیز مصر کا انتقال ہو گیا توبادشاہ نے زلیخاکا نکاح حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ کردیا۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام زلیخا کے پاس پہنچے تو اس سے فرمایا:کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے جو تو چاہتی تھی؟ زلیخا نے عرض کی: اے صدیق! مجھے ملامت نہ کیجئے، میں خوبرو ،جوا ن تھی لیکن عزیزِ مصر (یعنی سابقہ شوہر) عورتوں سے کوئی سروکار ہی نہ رکھتا تھااور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے یہ حسن و جمال عطاکیا ہے، بس میرا دل اختیار سے باہر ہوگیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو معصوم کیا ،اس لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام محفوظ رہے۔مروی ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے زلیخا کو کنواری پایا اور اس سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے دو فرزند پیدا ہوئے،ایک کا نام اِفراثیم اور دوسرے کا مِیشا تھا ۔(26)

امورِسلطنت کا انتہائی شانداراہتمام:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے مصر میں عدل قائم فرمایاجس سے ہر مرد و عورت کے دِل میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی محبت پیدا ہوئی ۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے قحط سالی کے دنوں کے لئے غلوں کے ذخیرے جمع کرنے کی تدبیر فرمائی ،اس کے لئے بہت وسیع اور عالی شان گودام تعمیر فرمائے اور بہت کثیر ذخائر جمع کئے ۔جب فراخی کے سال گزر گئے اور قحط کا زمانہ آیا تو پہلے سال لوگوں کے پاس جو ذخیرے تھے سب ختم ہوگئے اوربازار خالی رہ گئے۔ اہل مصر حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سے اپنے درہم و دینار کے بدلے میں غلے خریدنے لگے ، یوں اُن کے تمام درہم ودینار حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آگئے ۔دوسرے سال مصریوں نے زیور اور جواہرات کے بدلے میں غلوں کی خریداری کی، یوں ان کے تمام زیورات اور جواہرات حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آگئے ۔جب لوگوں کے پاس زیور اورجواہرات میں سے کوئی چیز نہ رہی تو انہوں نے تیسرے سال چوپائے اور جانور دے کرغلہ خریدا اور یوں پورے ملک میں کوئی شخص کسی جانور کا مالک نہ رہا۔ چوتھے سال انہوں نے غلے کے لئے اپنے تمام غلام اور باندیاں بیچ ڈالیں۔ پانچویں سال اپنی تمام اراضی ، عملہ اورجاگیریں فروخت کرکے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سے غلہ خریدا ،اس طرح یہ تمام چیزیں حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس پہنچ گئیں ۔چھٹے سال جب ان کے پاس کوئی چیز باقی نہ رہی تو انہوں نے اپنی اولادیں بیچ دیں اور اس طرح غلے خرید کر اپناوقت گزارا۔ ساتویں سال وہ لوگ خود بک گئے اور غلام بن گئے ا س طرح مصر میں کوئی آزاد مرد باقی رہا نہ عورت ،جو مرد تھا وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا غلام تھا اورجو عورت تھی وہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی کنیز تھی ۔ اس وقت لوگوں کی زبان پر یہ تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی سی عظمت و جلالت کبھی کسی بادشاہ کو میسر نہ آئی۔حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا: تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر کیسا کرم ہے اوراُس نے مجھ پر کیسا عظیم احسان فرمایا ہے؟ اب اِن لوگوں کے بارے میں تیری کیا رائے ہے؟ بادشاہ نے عرض کی: جو آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی رائے ہو وہ ہمیں منظور ہے ، ہم سب آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے تابع ہیں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:میں اللہ تعالیٰ کو گواہ کرتا ہوں اور تجھے گواہ کرتا ہوں کہ میں نے تمام اہلِ مصرکو آزاد کردیا اور اُن کے تمام املاک اورکُل جاگیریں واپس کر دیں۔(27)

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے اخلاق کریمہ کی ایک جھلک:

اس زمانہ میں حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے کبھی شکم سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا۔ ایک مرتبہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی گئی کہ اتنے عظیم خزانوں کے مالک ہو کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام بھوکے رہتے ہیں۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:میں اس اندیشے سے بھوکا رہتا ہوں کہ سیر ہو کر کہیں بھوکوں کو بھول نہ جاؤں۔(28) سُبْحَانَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! کیا پاکیزہ اخلاق ہیں اور کیسا احساسِ ذمہ داری ہے۔غریبوں کے حالات سدھارنے کےلئےیہ بنیادی سوچ ہی کافی ہے۔

مصری مردوں اور عورتوں کو غلام و کنیزِ یوسف بنانے کی حکمت:

مفسرین فرماتے ہیں کہ مصر کے تمام مرد و عورت کو حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے خریدے ہوئے غلام اور کنیزیں بنانے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام غلام کی شان میں آئے تھے اور مصر کے ایک شخص کے خریدے ہوئے ہیں بلکہ سب مصری اُن کے خریدے اور آزاد کئے ہوئے غلام ہوں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے جو اس حالت میں صبر کیا تھا اس کی یہ جزا دی گئی۔(29)

بردرانِ یوسف کی مصر آمد:

جب قحط کی شدت ہوئی اور بلائے عظیم عام ہوگئی، تمام شہر قحط کی سخت تر مصیبت میں مبتلا ہوگئے اور ہر جانب سے لوگ غلہ خریدنے کے لئے مصر پہنچنے لگے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کسی کو ایک اونٹ کے بوجھ سے زیادہ غلہ نہیں دیتے تھے تاکہ مساوات رہے اور سب کی مصیبت دورہو۔ قحط کی مصیبت جس طرح مصر اور دیگر ملکوں میں آئی، اسی طرح کنعان میں بھی آئی، اُس وقت حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے بنیامین کے سوا اپنے دسوں بیٹوں کو غلہ خریدنے مصر بھیجا۔جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائی مصر میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا لیکن وہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو نہ پہچان سکے کیونکہ یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو کنوئیں میں ڈالنے سے اب تک چالیس سال کا طویل زمانہ گزر چکا تھا اور ان کا خیال یہ تھا کہ یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا انتقال ہوچکا ہوگاجبکہ یہاں آپ عَلَیْہِ السَّلَام تخت ِسلطنت پر ،شاہانہ لباس میں شوکت و شان کے ساتھ جلوہ فرما تھے اس لئے انہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو نہ پہچانا ۔(30) قرآن پاک میں ہے: وَ جَآءَ اِخْوَةُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَ هُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ(۵۸) (31) ترجمہ : اور یوسف کے بھائی آئے تو ان کے پاس حاضر ہوئے پس یوسف نے توانہیں پہچان لیا اور وہ بھائی ان سے انجان رہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مصر پہنچنے،عزت و آسائش اور رہائش ملنے،پھر مُلکِ مصر کی حکومت ملنے کے بعدبھی آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے کوئی ایسی صورت کیوں نہیں نکالی جس کے ذریعے اپنےوالد کو اپنی سلامتی کی خبر دے کر مطمئن کردیتے اور بھائیوں کو بھی اپنی خبردیدیتے؟اس کا جواب یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو بذریعہ وحی اس سے منع کر دیا گیا تھا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے فرمایا: مصر پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو وحی کے ذریعے اس بات سے منع کردیا تھا کہ وہ اپنے حال کی خبر اپنے گھر بھیجیں۔(32)اس طرز میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں وہی جانتا ہے ۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی بھائیوں سے گفتگو:

بھائیوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سے عبرانی زبان میں گفتگوکی توآپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بھی اسی زبان میں جواب دیا ،پھر فرمایا:تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے عرض کی:ہم شام کے رہنے والے ہیں، جس مصیبت میں دنیا مبتلا ہے اسی میں ہم بھی ہیں اورآپ عَلَیْہِ السَّلَام سے غلہ خریدنے آئے ہیں ۔حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا :کہیں تم جاسوس تو نہیں ہو؟ انہوں نے کہا: ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم جاسوس نہیں ہیں ،ہم سب بھائی ہیں، ایک باپ کی اولاد ہیں، ہمارے والد بہت بزرگ ،زیادہ عمر والے اورصدیق ہیں ، ان کا نام نامی حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: تم کتنے بھائی ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہم بارہ بھائی تھے لیکن ایک بھائی ہمارے ساتھ جنگل گیا تو وہ ہلاک ہوگیا تھا، وہ والدصاحب کو ہم سب سے زیادہ پیارا تھا۔حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:اب تم کتنے ہو؟ عرض کی: دس۔ پھر فرمایا: گیارہواں کہاں ہے؟ جواب دیا:وہ والد صاحب کے پاس ہے کیونکہ ہمارا جو بھائی ہلاک ہوگیا تھاوہ اسی کا حقیقی بھائی ہے، اب والد صاحب کی اسی سے کچھ تسلی ہوتی ہے۔(33)

بھائیوں کو غلہ دینااور بنیامین سے متعلق ہدایت:

حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں:حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے اُن بھائیوں کی بہت عزت کی اور بڑی خاطر مدارات سے اُن کی میزبانی فرمائی،ان میں سے ہر ایک کا اونٹ غلے سے بھر دیا اور سفر کے دوران جس چیز کی ضرورت درپیش ہو سکتی تھی وہ بھی عطا کر دی۔(34) جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے ان کا سامان انہیں مہیا کر دیا تو ان سے فرمایا: اِئْتُوْنِیْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِیْكُمْۚ-اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْۤ اُوْفِی الْكَیْلَ وَ اَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ(۵۹) فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ بِهٖ فَلَا كَیْلَ لَكُمْ عِنْدِیْ وَ لَا تَقْرَبُوْنِ(۶۰) قَالُوْا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ اَبَاهُ وَ اِنَّا لَفٰعِلُوْنَ(۶۱) (35) ترجمہ : اپنا سوتیلا بھائی میرے پاس لے آؤ ،کیا تم یہ بات نہیں دیکھتے کہ میں ناپ مکمل کرتا ہوں اور میں سب سے بہتر مہمان نواز ہوں۔ تواگر تم اس بھائی کو میرے پاس نہیں لاؤ گے تو تمہارے لیے میرے پاس کوئی ماپ نہیں اور نہ تم میرے قریب پھٹکنا۔ انہوں نے کہا: ہم اس کے باپ سے اس کے متعلق ضرور مطالبہ کریں گے اور بیشک ہم ضرور یہ کریں گے۔

بھائیوں پر کرم و احسان:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے غلاموں سے فرمایا کہ ان لوگوں نے غلے کی جو قیمت دی ہے ، غلے کے ساتھ ساتھ وہ رقم بھی ان کی بوریوں میں واپس رکھ دو تاکہ جب وہ اپنا سامان کھولیں تو اپنی جمع شدہ رقم انہیں مل جائے اور قحط کے زمانے میں کام آئے ،نیز یہ رقم پوشیدہ طور پر اُن کے پاس پہنچے تاکہ اُنہیں لینے میں شرم بھی نہ آئے اور یہ کرم و احسان دوبارہ آنے کے لئے اُن کی رغبت کا باعث بھی ہو۔(36) قرآن پاک میں ہے: وَ قَالَ لِفِتْیٰنِهِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَهُمْ فِیْ رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُوْنَهَاۤ اِذَا انْقَلَبُوْۤا اِلٰۤى اَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۶۲) (37) ترجمہ : اور یوسف نے اپنے غلاموں سے فرمایا: ان کی رقم (بھی)ان کی بوریوں میں واپس رکھ دوتاکہ جب یہ اپنے گھر واپس لوٹ کر جائیں تو اسے پہچان لیں تاکہ یہ واپس آئیں۔ معلوم ہوا کہ حاجت کے وقت رشتہ داروں کی مدد کرنی چاہئےاور رشتہ دار کی مدد کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اِس انداز میں اُس تک رقم یا کوئی اور چیز پہنچائیں کہ اسے لیتے ہوئے شرم بھی محسوس نہ ہو اور اس کی غیرت و خودداری پربھی کوئی حرف نہ آئے۔

بیٹوں کی یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام سے گزارش اور ا ن کا جواب:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائی اپنے والد محترم حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس لوٹے اور بادشاہ کے حسن سلوک اور احسان کاذکر کرتے ہوئے کہا : اُس نے ہماری وہ عزت و تکریم کی کہ اگر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے کوئی ہوتا تو وہ بھی ایسا نہ کرسکتا ۔حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: اب اگر تم بادشاہِ مصر کے پاس جاؤ تو میری طرف سے سلام پہنچانا اور کہنا کہ ہمارے والد تیرے حق میں تیرے اس سلوک کی وجہ سے دعا کرتے ہیں۔(38)انہوں نے عرض کی: یٰۤاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَیْلُ فَاَرْسِلْ مَعَنَاۤ اَخَانَا نَكْتَلْ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۶۳) قَالَ هَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَیْهِ اِلَّا كَمَاۤ اَمِنْتُكُمْ عَلٰۤى اَخِیْهِ مِنْ قَبْلُؕ-فَاللّٰهُ خَیْرٌ حٰفِظًا۪-وَّ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۶۴) (39) ترجمہ : اے ہمارے باپ! ہم سے غلہ روک دیا گیا ہے لہٰذا ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ لاسکیں اور ہم ضرور اس کی حفاظت کریں گے۔ یعقوب نے فرمایا: کیا اس کے بارے میں تم پر ویسا ہی اعتبار کرلوں جیسا پہلے اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھا تو اللہ سب سے بہتر حفاظت فرمانے والا ہے اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان ہے۔

غلے میں رقم دیکھ کر بیٹوں کا باپ سے مکالمہ:

جب انہوں نے اپنا مصر سے لایا ہوا سامان کھولا تو اس میں اپنی رقم بھی موجود پائی جو انہیں واپس کر دی گئی تھی، رقم دیکھ انہوں نے کہا : یٰۤاَبَانَا مَا نَبْغِیْؕ-هٰذِهٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَیْنَاۚ-وَ نَمِیْرُ اَهْلَنَا وَ نَحْفَظُ اَخَانَا وَ نَزْدَادُ كَیْلَ بَعِیْرٍؕ-ذٰلِكَ كَیْلٌ یَّسِیْرٌ(۶۵) (40) ترجمہ : اے ہمارے باپ! اب ہمیں اور کیا چاہیے۔ یہ ہماری رقم ہے جوہمیں واپس کردی گئی ہے اورہم اپنے گھر کے لیے غلہ لائیں اورہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ پائیں، یہ بہت آسان بوجھ ہے۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے فرمایا: لَنْ اُرْسِلَهٗ مَعَكُمْ حَتّٰى تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ لَتَاْتُنَّنِیْ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یُّحَاطَ بِكُمْۚ-فَلَمَّاۤ اٰتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ(۶۶) (41) ترجمہ : میں ہرگز اسے تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک تم مجھے اللہ کا یہ عہد نہ دیدو کہ تم ضرور اسے (واپس)لے کر آ ؤ گے سوائے اس کے کہ تم (کسی بڑی مصیبت میں)گھر جاؤ پھر انہوں نے یعقوب کو عہد دیدیا تو یعقوب نے فرمایا: جو ہم کہہ رہے ہیں اس پر اللہ نگہبان ہے۔

روانگی کے وقت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کی نصیحت:

جب بیٹے مصر جانے کے ارادے سے نکلے توحضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے سب کو بری نظر سے بچانے کےلئے مصر میں الگ الگ دروازے سے داخل ہونے کا فرمایاکہ یہ بھی نظر ِ بد سے بچنے کے اسباب میں سے ہے۔قرآن پاک میں ہے: وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍؕ-وَ مَاۤ اُغْنِیْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُۚ-وَ عَلَیْهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ(۶۷) (42) ترجمہ : اورفرمایا: اے میرے بیٹو! ایک دروازے سے نہ داخل ہونا اور جدا جدا دروا زوں سے جانا ،میں تمہیں اللہ سے بچا نہیں سکتا ،حکم تو اللہ ہی کا چلتا ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرناچاہیے۔ پہلی مرتبہ جب یہ لوگ مصر گئے تھے تو کوئی نہ جانتا تھا کہ یہ سب بھائی ہیں لیکن اب چونکہ جان چکے تھے اس لئے بری نظر لگ جانے کا احتمال تھا اس وجہ سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے سب کوعلیحدہ علیحدہ دروازوں سے داخل ہونے کا فرمایا۔(43) معلوم ہوا کہ اسباب اختیار کرکے اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے۔ بیٹوں نے باپ کے حکم پر عمل کیالیکن اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ تدبیر اختیار کرنا تو جائز ہے لیکن اصل قدرت و اختیار بہرحال اللہ ہی کے پاس ہے۔ قرآن پاک میں ہے: وَ لَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَهُمْ اَبُوْهُمْؕ-مَا كَانَ یُغْنِیْ عَنْهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا حَاجَةً فِیْ نَفْسِ یَعْقُوْبَ قَضٰىهَاؕ-وَ اِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۶۸) (44) ترجمہ : اور جب وہ وہیں سے داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے حکم دیا تھا،وہ انہیں اللہ سے کچھ بچا نہ سکتے تھے البتہ یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جو اس نے پوری کرلی اور بیشک وہ صاحب علم تھا کیونکہ ہم نے اسے تعلیم دی تھی مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا بھائی بنیامین پر افشائے راز:

جب سارے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس گئے اور اُنہوں نے کہا کہ ہم آپ کے پاس اپنے بھائی بنیامین کو لے آئے ہیں توآپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: تم نے بہت اچھا کیا ،پھر انہیں عزت کے ساتھ مہمان بنایا اور جا بجا دستر خوان لگائے گئے اور ہر دستر خوان پر دو دو بھائیوں کو بٹھایا گیا ۔بنیامین اکیلے رہ گئے تو وہ رو پڑے اور کہنے لگے :اگر میرے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام زندہ ہوتے تو وہ مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے ۔حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: تمہاراایک بھائی اکیلا رہ گیا ہے،یہ فرما کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بنیامین کو اپنے دستر خوان پر بٹھالیا اوراس سے فرمایا: تمہارے فوت شدہ بھائی کی جگہ میں تمہارا بھائی ہوجاؤں تو کیا تم پسند کرو گے؟ بنیامین نے کہا: آپ جیسا بھائی کسے میسر آئے گا؟ لیکن حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کا فرزند اور(حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ)راحیل کا نورِنظر ہونا آپ کو کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟ یہ سن کر یوسف عَلَیْہِ السَّلَام رو پڑے اور بنیامین کو گلے سے لگایا اور فرمایا: بیشک میں تیرا حقیقی بھائی یوسف عَلَیْہِ السَّلَام ہوں،تم اس پر غمگین نہ ہونا جو یہ کررہے ہیں،بیشک اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں بھلائی کے ساتھ جمع فرمادیا اور ابھی اس راز کی اپنے بھائیوں کو اطلاع نہ دینا۔یہ سن کر بنیامین فرط ِمسرت سے بے خود ہوگئے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سے کہنے لگے: اب میں آپ سے جدا نہیں ہوں گا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: والد صاحب کو میری جدائی کا بہت غم پہنچ چکا ہے، اگر میں نے تمہیں بھی روک لیا تو انہیں اور زیادہ غم ہوگا اور آپ کو روکنے کی ا س کے علاوہ اور کوئی صورت بھی نہیں کہ آپ کی طرف کوئی غیر پسندیدہ بات منسوب کر دی جائے۔ بنیامین نے کہا :اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔(45) قرآن کریم میں ہے: وَ لَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَخَاهُ قَالَ اِنِّیْۤ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۶۹) (46) ترجمہ : اور جب وہ سب بھائی یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے اپنے سگے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی (اور) فرمایا: بیشک میں تیرا حقیقی بھائی ہوں تو اس پر غمگین نہ ہونا جو یہ کررہے ہیں۔

تعلیمِ الٰہی سے یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی اپنے بھائی بنیامین کو روکنے کی تدبیر:

واپسی پر جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں ان کا سامان مہیا کر دیا اور ان میں سے ہر ایک کو ایک اونٹ کا بوجھ غلہ دےدیا اور ایک اونٹ کا بوجھ بنیامین کے لئے خاص کر دیا تو اپنے بھائی بنیامین کی بوری میں بادشاہ کا وہ پیالہ رکھ دیا جس میں وہ پانی پیتا تھا،وہ پیالہ جواہرات سے مزین تھا اورسونے کا تھا اور اس سے غلہ ناپنے کا کام لیا جاتا تھا ۔ بھائیوں کاقافلہ کنعان سےروانہ ہوگیا ۔جب قافلہ شہر سے باہر جاچکا تو انبار خانہ کے کارکنوں کومعلوم ہوا کہ پیالہ نہیں ہے، اُن کے خیال میں یہی آیا کہ یہ پیالہ قافلے والے لے گئے ہیں،چنانچہ اُنہوں نے اس کی جستجو کے لئے آدمی بھیجے،ان میں سے ایک منادی نے ندا کی۔ قرآنِ کریم میں یہ حصہ یوں بیان کیا گیاہے: فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْهِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُهَا الْعِیْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ(۷۰) قَالُوْا وَ اَقْبَلُوْا عَلَیْهِمْ مَّا ذَا تَفْقِدُوْنَ(۷۱) قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَ لِمَنْ جَآءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِیْرٍ وَّ اَنَا بِهٖ زَعِیْمٌ(۷۲) قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ وَ مَا كُنَّا سٰرِقِیْنَ(۷۳) قَالُوْا فَمَا جَزَآؤُهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ كٰذِبِیْنَ(۷۴) قَالُوْا جَزَآؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِیْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَآؤُهٗؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ(۷۵) فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْهِؕ-كَذٰلِكَ كِدْنَا لِیُوْسُفَؕ-مَا كَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاهُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِكِ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُؕ-نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُؕ-وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ(۷۶) (47) ترجمہ : پھر جب انہیں ان کا سامان مہیا کردیاتو اپنے بھائی کی بوری میں پیالہ رکھ دیا پھر ایک منادی نے ندا کی: اے قافلے والو!بیشک تم چور ہو۔ انہوں نے پکارنے والوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا: کیاچیز تمہیں نہیں مل رہی؟ نداکرنے والوں نے کہا: ہمیں بادشاہ کا پیمانہ نہیں مل رہا اور جو اُسے لائے گا اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ (انعام)ہے اور میں اس کا ضامن ہوں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم!تمہیں خوب معلوم ہے کہ ہم زمین میں فساد کرنے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں۔اعلان کرنے والوں نے کہا: اگر تم جھوٹے ہوئے تو اس کی سزا کیا ہوگی؟ انہوں نے کہا: اِس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں (وہ پیالہ )ملے وہی خود اس کا بدلہ ہوگا۔ ہمارے یہاں ظالموں کی یہی سزا ہے۔ تو حضرت یوسف نے اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی لینے سے پہلے دوسروں کی تلاشی لینا شروع کی پھر اس پیالے کو اپنے بھائی کے سامان سے نکال لیا ۔ہم نے یوسف کو یہی تدبیر بتائی تھی ۔بادشاہی قانون میں اس کیلئے درست نہیں تھا کہ اپنے بھائی کو لے لے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ ہم جسے چاہتے ہیں درجوں بلند کردیتے ہیں اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔ معلوم ہوا کہ شرعی شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے حیلہ کرنا درست ہیں۔ تنبیہ:خیال رہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے اس حیلہ میں نہ تو جھوٹ بولا کیونکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے خادم نے کہا تھا کہ تم چور ہو اور خادم بے خبر تھا، نہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے بھائی پر چوری کا بہتان لگایا، بلکہ جو کچھ کیا گیا خود بنیامین کے مشورہ سے کیا گیا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی تعریف فرمائی اور فرمایا’’ كَذٰلِكَ كِدْنَا لِیُوْسُفَ‘‘یہ تدبیر یوسف کو ہم نے سکھائی۔

بھائیوں کی یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف چوری کی نسبت اور آپ کا طرز عمل:

جب پیالہ بنیامین کے سامان سے نکلا تو بھائی شرمندہ ہوئے اوراُنہوں نے سرجھکاکر کہا: سامان میں پیالہ نکلنے سے سامان والے کا چوری کرنا تو یقینی نہیں لیکن اگر یہ فعل اس کا ہو تو بیشک اس سے پہلے اس کے بھائی یوسف نے بھی چوری کی تھی۔(یہ بھی ان کا حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام پر بہتان تھا۔ )بھائیوں کا اس کے ذکر سے یہ مقصدتھا کہ ہم لو گ بنیامین کے سوتیلے بھائی ہیں اور یہ فعل ہو تو شاید بنیامین کا ہو ،نہ ہماری اس میں شرکت نہ ہمیں اس کی اطلاع۔(48) حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے بھائیوں کی طرف سے اپنے بارے میں کہی گئی بات پر کوئی کلام نہ کیا لیکن اپنے دل میں کچھ کہا: قرآن پاک میں ہے: قَالُوْۤا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُۚ-فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ وَ لَمْ یُبْدِهَا لَهُمْۚ-قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًاۚ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ(۷۷) (49) ترجمہ : بھائیوں نے کہا: اگراس نے چوری کی ہے تو بیشک اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی تو یوسف نے یہ بات اپنے دل میں چھپارکھی اور ان پر ظاہر نہ کی (اور دل میں)کہا تم انتہائی گھٹیا درجے کے آدمی ہو اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم باتیں کررہے ہو۔

بھائیوں کی بارگاہِ یوسف میں گزارش اور آپ کا جواب:

حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کی شریعت میں اگرچہ چور کی سزا یہ تھی کہ اسے غلام بنا لیا جائے لیکن فدیہ لے کر معاف کر دینا بھی جائز تھا،اس لئے بھائیوں نے کہا:اے عزیز! اس کے والد عمر میں بہت بڑے ہیں ، وہ اس سے محبت رکھتے ہیں اور اسی سے ان کے دل کی تسلی ہوتی ہے۔آپ ہم میں سے کسی ایک کو غلام بنا کر یا فدیہ ادا کرنے تک رہن کے طور پر رکھ لیں بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والا دیکھ رہے ہیں کہ آپ نے ہمیں عزت دی، کثیر مال ہمیں عطا کیا،ہمارا مطلوب اچھی طرح پورا ہوا اور ہمارے غلے کی قیمت بھی ہمیں لوٹا دی۔حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کہ جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے اس کے علاوہ کسی اور کو پکڑ یں کیونکہ تمہارے فیصلہ کے مطابق ہم اسی کو لینے کے مستحق ہیں جس کے کجاوے میں ہمارا مال ملا ہے، اگر ہم اس کی بجائے دوسرے کو لیں تو یہ تمہارے دین میں ظلم ہے ، لہذا تم اس چیز کا تقاضا کیوں کرتے ہو جس کے بارے میں جانتے ہو کہ وہ ظلم ہے ۔(50) قرآنِ مجید میں ہے: قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الْعَزِیْزُ اِنَّ لَهٗۤ اَبًا شَیْخًا كَبِیْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَهٗۚ-اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۷۸) قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ۠(۷۹) (51) ترجمہ : انہوں نے کہا: اے عزیز! بیشک اس کے بہت بوڑھے والد ہیں تو آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو لے لیں، بیشک ہم آپ کواحسان کرنے والا دیکھ رہے ہیں۔ یوسف نے فرمایا: اللہ کی پناہ کہ جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے اس کے علاوہ کسی اور کو پکڑیں۔ (ایسا کریں) جب تو ہم ظالم ہوں گے۔

ناامید ہونے پر بھائیوں کا باہمی مشورہ:

جب وہ بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف سے مایوس ہو گئے اور انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ بنیامین واپس نہیں ملیں گے توسب بھائی لوگوں سے ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے اور آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب اپنے والد صاحب کے پاس کیا منہ لے کر جائیں گے اور اپنے بھائی بنیامین کے بارے میں کیا کہیں گے۔ان میں سے علم و عقل یا عمر میں جو بھائی بڑا تھا وہ کہنے لگا:کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے تم سے اللہ تعالیٰ کا عہد لیا تھا کہ تم ضرور اپنے بھائی کو واپس لے کر جاؤ گے اور اس سے پہلے تم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے معاملے میں کوتاہی کی اور اپنے والد سے کئے ہوئے عہد کی پاسداری بھی نہ کی۔ میں تو مصر کی سرزمین سے ہر گز نہ نکلوں گا اور نہ ہی اس صورت حال میں مصر چھوڑوں گا یہاں تک میرے والد مجھے مصر کی سرزمین چھوڑنے کی اجازت دے دیں اور مجھے اپنے پاس بلا لیں یا اللہ تعالیٰ میرے بھائی کو خلاصی دے کر یا اسے چھوڑ کر تمہارے ساتھ چلنے کامجھے کوئی حکم فرمادے ۔تم جاکر والد محترم کو ساری صورت ِ حال کی خبر دیدو۔ قرآن پاک میں ہے: فَلَمَّا اسْتَیْــٴَـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِیًّاؕ-قَالَ كَبِیْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَیْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ وَ مِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِیْ یُوْسُفَۚ-فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى یَاْذَنَ لِیْۤ اَبِیْۤ اَوْ یَحْكُمَ اللّٰهُ لِیْۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ(۸۰) اِرْجِعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْكُمْ فَقُوْلُوْا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّ ابْنَكَ سَرَقَۚ-وَ مَا شَهِدْنَاۤ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَ مَا كُنَّا لِلْغَیْبِ حٰفِظِیْنَ(۸۱) وَ سْــٴَـلِ الْقَرْیَةَ الَّتِیْ كُنَّا فِیْهَا وَ الْعِیْرَ الَّتِیْۤ اَقْبَلْنَا فِیْهَاؕ-وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(۸۲) (52) ترجمہ : پھر جب وہ بھائی اس سے مایوس ہوگئے تو ایک طرف جاکر سرگوشی میں مشورہ کرنے لگے۔ان میں بڑا بھائی کہنے لگا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لیا تھا اور اس سے پہلے تم یوسف کے حق میں کوتاہی کرچکے ہو تو میں تویہاں سے ہرگز نہ ہٹوں گا جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیدیں یا اللہ مجھے کوئی حکم فرمادے اور وہ سب سے بہتر حکم دینے والا ہے۔ تم اپنے باپ کے پاس لوٹ کر جاؤ پھر عرض کرو: اے ہمارے باپ! بیشک آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہم اتنی ہی بات کے گواہ ہیں جتنی ہمیں معلوم ہے اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے۔ اور اس شہر والوں سے پوچھ لیجیے جس میں ہم تھے اور اس قافلہ سے (معلوم کرلیں) جس میں ہم واپس آئے ہیں اور بیشک ہم سچے ہیں ۔

بنیامین کا سن کر یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کی کیفیت:

پھر یہ لوگ اپنے والد کے پاس واپس آئے اور سفر میں جو کچھ پیش آیا تھا اس کی خبر دی اور بڑے بھائی نے جو کچھ بتادیا تھا وہ سب والد صاحب سے عرض کر دیا۔قرآن پاک میں ہے: قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًاؕ-فَصَبْرٌ جَمِیْلٌؕ-عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَنِیْ بِهِمْ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۸۳) وَ تَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰۤاَسَفٰى عَلٰى یُوْسُفَ وَ ابْیَضَّتْ عَیْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِیْمٌ(۸۴) (53) ترجمہ : یعقوب نے فرمایا: بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لئے کچھ حیلہ بنادیاہے تو عمدہ صبر ہے۔ عنقریب اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے گا بیشک وہی علم والا، حکمت والا ہے۔ اور یعقوب نے ان سے منہ پھیرااور کہا: ہائے افسوس!یوسف کی جدائی پر اور یعقوب کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں تو وہ (اپنا)غم برداشت کرتے رہے۔ یاد رہے کہ عزیزوں کے غم میں رونا اگر تکلف سےاور نمائش کے لئے نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت و بے صبری کا مظاہرہ نہ ہو تو یہ جائز ہے ۔غم کے دنوں میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کی زبانِ مبارک پر کبھی کوئی بے صبری کاکلمہ نہ آیا تھا۔

بیٹوں کا حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام سے کیفیت ِ غم سے متعلق مکالمہ :

قرآن پاک میں ہے: قَالُوْا تَاللّٰهِ تَفْتَؤُا تَذْكُرُ یُوْسُفَ حَتّٰى تَكُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَكُوْنَ مِنَ الْهٰلِكِیْنَ(۸۵) قَالَ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸۶) (54) ترجمہ : بھائیوں نے کہا: اللہ کی قسم!آپ ہمیشہ یوسف کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ مرنے کے قریب ہوجائیں گے یا فوت ہی ہوجائیں گے۔ یعقوب نے کہا: میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کے ا س فرمان’’ میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں‘‘ سے معلوم ہوا کہ غم اور پریشانی میں اللہ تعالیٰ سے فریادکرنا صبر کے خلاف نہیں ، ہاں بے صبر ی کے کلمات کہنا یا لوگوں سے شکوے کرنا بے صبری ہے۔نیز آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے اس فرمان ’’اور میں اللہ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام جانتے تھے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام زندہ ہیں اور ان سے ملنے کی توقع ہے اور یہ بھی جانتے تھے کہ اُن کا خواب حق ہے اورضرور واقع ہوگا۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی زندگی کا یقین:

ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام سے دریافت کیا کہ تم نے میرے بیٹے یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی روح قبض کی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا :نہیں۔(55) اس سے بھی آپ کو اُن کی زندگانی کا اِطمینان ہوا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے فرزندوں سے فرمایا :اے میرے بیٹو! تم مصر کی طرف جاؤ اورحضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے بھائی بنیامین کو تلاش کرو۔بیٹوں نے کہا:ہم بنیامین کے معاملے میں کوشش کرنا تو نہیں چھوڑیں گے البتہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام چونکہ اب زندہ نہیں ا س لئے ہم انہیں تلاش نہیں کریں گے۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کو نہیں جانتے اور مومن چونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کو جانتا ہے ا س لئے وہ تنگی آسانی، غمی خوشی کسی بھی حال میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔(56) قرآن پاک میں ہے: یٰبَنِیَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَ اَخِیْهِ وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ(۸۷) (57) ترجمہ : اے بیٹو! تم جا ؤ اوریوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ زندگی میں پے در پے آنے والی مصیبتوں،مشکلوں اور دشواریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ حقیقی طور پر دنیا و آخرت کی تمام مشکلات کو دور کرنے والا اور تنگی کے بعد آسانیاں عطا کرنے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں۔

بارگاہِ یوسف میں بھائیوں کی دوبارہ حاضری:

حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کا حکم سن کر حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائی پھر مصر کی طرف روانہ ہوئے، جب وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس پہنچے تو کہنے لگے :اے عزیز! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو خوراک کے حوالے سے مصیبت پہنچی ہوئی ہے ،ہم حقیر ساسرمایہ لے کر آئے ہیں۔ وہ سرمایا چند کھوٹے درہم اورگھر کی اشیاء میں سے چند پرانی بوسیدہ چیزیں تھیں، آپ ہمیں پورا ناپ دیدیجئے جیسا کھرے داموں سے دیتے تھے اور یہ ناقص پونجی قبول کرکے ہم پر کچھ خیرات کیجئے بیشک اللہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو صلہ دیتا ہے۔(58) قرآنِ کریم میں ہے: فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْهِ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَ اَهْلَنَا الضُّرُّ وَ جِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجٰىةٍ فَاَوْفِ لَنَا الْكَیْلَ وَ تَصَدَّقْ عَلَیْنَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ(۸۸) (59) ترجمہ : پھر جب وہ یوسف کے پاس پہنچے تو کہنے لگے :اے عزیز! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو مصیبت پہنچی ہوئی ہے اور ہم حقیر سا سرمایہ لے کر آئے ہیں تو آپ ہمیں پورا ناپ دیدیجئے اور ہم پر کچھ خیرات بھی کیجئے، بیشک اللہ خیرات دینے والوں کو صلہ دیتا ہے۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا افشائے راز:

بھائیوں کا یہ حال سن کر حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام پر گریہ طاری ہوگیا اور مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا: کیا حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو مارنا ،کنوئیں میں گرانا، بیچنا، والد صاحب سے جدا کرنا اور اُن کے بعد اُن کے بھائی کو تنگ رکھنا، پریشان کرنا تمہیں یاد ہے اور یہ فرماتے ہوئے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو تبسم آگیا اور اُنہوں نے آپ کے گوہر دندان کا حسن دیکھ کر پہچانا کہ یہ تو جمال یوسفی کی شان ہے۔(60) بھائیوں نے کہا:کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:ہاں ، میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ،بیشک اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ، ہمیں جدائی کے بعد سلامتی کے ساتھ ملایا اور دین و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔بیشک جو گناہوں سے بچے اور صبر اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کی جزا ضائع نہیں کرتا۔(61) قرآنِ پاک میں ہے: قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَ اَخِیْهِ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ(۸۹) قَالُوْۤا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ یُوْسُفُؕ-قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَ هٰذَاۤ اَخِیْ٘-قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَاؕ-اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(۹۰) (62) ترجمہ : یوسف نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے جو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا تھاجب تم نادان تھے۔انہوں نے کہا: کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں؟ فرمایا: میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ بیشک اللہ نے ہم پر احسان کیا۔بیشک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

بھائیوں کا اعتراف حق:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائیوں نے اپنی خطاؤں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:خدا کی قسم!بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو منتخب فرمایا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو ہم پر علم ، عقل ، صبر،حلم اور بادشاہت میں فضیلت دی، بے شک ہم خطاکار تھے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوعزت دی، بادشاہ بنایا اور ہمیں مسکین بنا کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے سامنے لایا۔(63) قرآن کریم میں ہے: قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـٕیْنَ(۹۱) (64) ترجمہ : انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! بیشک اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی اور بیشک ہم خطاکار تھے۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا عفو و کرم:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: آج اگرچہ ملامت کرنے کا دن ہے ،لیکن میری جانب سے تم پر آج اور آئندہ کوئی ملامت نہ ہوگی،پھر بھائیوں سے جو خطائیں سرزد ہوئی تھیں ان کی بخشش کے لئے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔(65) قرآن مجید میں ہے: قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲) (66) ترجمہ : فرمایا: آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی مقدس قمیص کی برکت:

جب تعارف ہو گیا تو حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے بھائیوں سے اپنے والد ماجد کا حال دریافت کیا ۔ اُنہوں نے کہا:آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی جدائی کے غم میں روتے روتے اُن کی بینائی بحال نہیں رہی۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:میرا یہ کُرتا لے جاؤ اوراسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دینا، ان کی آنکھوں کی روشنی لوٹ آئے گی اور سب گھر والے میرے پاس لے آ ؤ ۔(67) قرآنِ پاک میں ہے: اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًاۚ-وَ اْتُوْنِیْ بِاَهْلِكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠(۹۳) (68) ترجمہ : میرا یہ کرتا لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دیناوہ دیکھنے والے ہوجائیں گے اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آ ؤ۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ بزرگانِ دین کے تبرکات سے مصیبتیں دور ہوتیں اور امراض سے شفائیں ملتی ہیں۔

خوشبوئے یوسف کی خبر اور حاضرین کا جواب:

جب قافلہ مصر کی سرزمین سے نکلا اور کنعان کی طرف روانہ ہوا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے بیٹوں اور پوتوں یا پوتوں اور پاس والوں سے فرمادیا:میں یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی خوشبومحسوس کر رہاہوں۔قرآنِ پاک میں ہے: وَ لَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(۹۴) قَالُوْا تَاللّٰهِ اِنَّكَ لَفِیْ ضَلٰلِكَ الْقَدِیْمِ(۹۵) (69) ترجمہ : اورجب قافلہ وہاں سے جدا ہواتو ان کے باپ نے فرمادیا: بیشک میں یوسف کی خوشبو پا رہاہوں۔ اگرتم مجھے کم سمجھ نہ کہو ۔ حاضرین نے کہا: اللہ کی قسم! آپ اپنی اسی پرانی محبت میں گم ہیں۔

قمیص کی برکت سے یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کی بینائی کی واپسی:

جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ خوشخبری سنانے والے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائی یہودا تھے۔یہودانے کہا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس خون آلودہ قمیص بھی میں ہی لے کر گیا تھا، میں نے ہی کہا تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو بھیڑیا کھا گیا، میں نے ہی اُنہیں غمگین کیا تھا ا س لئے آج کرتا بھی میں ہی لے کر جاؤں گا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی زندگانی کی فرحت انگیز خبر بھی میں ہی سناؤں گا ۔چنانچہ یہود ا فرط ِشوق سے نہایت تیزی سے تمام فاصلہ طے کر کے پہنچے اورجب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی قمیص حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کے چہرے پر ڈالی تو اسی وقت ان کی آنکھیں درست ہوگئیں اور کمزوری کے بعد قوت اور غم کے بعد خوشی لوٹ آئی،پھر حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں آپس میں ملا دے گا۔(70) قرآنِ پاک میں ہے: فَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰى وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًاۚ-قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ ﳐ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۹۶) (71) ترجمہ : پھر جب خوشخبری سنانے والا آیاتواس نے وہ کرتا یعقوب کے منہ پر ڈال دیا، اسی وقت وہ دیکھنے والے ہوگئے۔ یعقوب نے فرمایا: میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

بیٹوں کی یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام سے استغفار کی درخواست اور آپ کا جواب:

جب حق بات ظاہراورواضح ہو گئی تو بیٹوں نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کے سامنے اپنی خطاؤں کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کی : یٰۤاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَاۤ اِنَّا كُنَّا خٰطِـٕیْنَ(۹۷) (72) ترجمہ : اے ہمارے باپ! ہمارے گناہوں کی معافی مانگئے ،بیشک ہم خطاکار ہیں۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا: سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۹۸) (73) ترجمہ : عنقریب میں تمہارے لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا، بیشک وہی بخشنے والا، مہربان ہے۔

بیٹوں کے لیے دعا اور اس کی قبولیت:

مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے بیٹوں کے لئے دعا اور استغفار کو سحری کے وقت تک مؤخر فرمایا کیونکہ یہ وقت دعا کے لئے سب سے بہترین ہے اور یہی وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ ہے کوئی دعا مانگنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں‘‘، چنانچہ جب سحری کا وقت ہوا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے نماز پڑھنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنے صاحبزادوں کے لئے دعا کی،دعا قبول ہوئی اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کو وحی فرمائی گئی کہ صاحبزادوں کی خطا بخش دی گئی۔

حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کی مصر آمد اور ان کا اعزاز و اکرام:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے والد ماجد اور اُن کے اہل واولادبلانے کے لئے اپنے بھائیوں کے ساتھ 200سواریاں اور کثیر سامان بھیجا تھا ،حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے مصر کا ارادہ فرمایا اور اپنے اہل خانہ جمع کئے جو 72 یا73 افراد تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن میں یہ برکت فرمائی کہ ان کی نسل اتنی بڑھی کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے جبکہ حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام کا زمانہ ان سے صرف 400 سال بعد کا ہے، الحاصل جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام مصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے مصر کے بادشاہ اعظم کو اپنے والد ماجد کی تشریف آوری کی اطلاع دی اور چار ہزار لشکر ی اور بہت سے مصری سواروں کو ہمراہ لے کر آپ اپنے والد صاحب کے استقبال کے لئے صد ہا ریشمی پھریرے اُڑاتے اور قطاریں باندھے روانہ ہوئے۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام اپنے فرزند یہودا کے ہاتھ پر ٹیک لگائے تشریف لارہے تھے ،جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی نظر لشکرپر پڑی اورآپ عَلَیْہِ السَّلَام نے دیکھا کہ صحرا زرق برق سواروں سے پُر ہورہا ہے تو فرمایا: اے یہودا !کیا یہ فرعونِ مصر ہے جس کا لشکر اس شان وشوکت سے آرہا ہے ؟یہودا نے عرض کی: نہیں ،یہ حضور کے فرزند حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام ہیں۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کو متعجب دیکھ کر عرض کیا:ہوا کی طرف نظر فرمایئے، آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی خوشی میں شرکت کے لئے فرشتے حاضر ہوئے ہیں ۔فرشتوں کی تسبیح ، گھوڑوں کے ہنہنانے اور طبل و بگل کی آوازوں نے عجیب کیفیت پیدا کردی تھی ۔یہ محرم کی دسویں تاریخ تھی ،جب دونوں حضرات یعنی حضرت یعقوب اور حضرت یوسف عَلَیْہِمَا السَّلَام قریب ہوئے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے سلام عرض کرنے کا ارادہ ظاہرکیا۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا : آپ توقف کیجئے اور والد صاحب کو پہلے سلام کا موقع دیجئے۔چنانچہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا ’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامُذْھِبَ الْاَحْزَانِ ‘‘ یعنی اے غم و اندو ہ کے دور کرنے والے! تم پرسلام ۔اور دونوں صاحبوں نے اُتر کر معانقہ کیا اور مل کر خوب روئے، پھر اس مزین رہائش گاہ میں داخل ہوئے جو پہلے سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے استقبال کے لئے نفیس خیمے وغیرہ نصب کرکے آراستہ کی گئی تھی۔(74) یہ داخل ہونا حدودِ مصر میں تھا اس کے بعد دوسری بار داخل ہونا خاص شہر میں ہے یعنی شہر مصر میں داخل ہو جاؤ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہاتوہر ناپسندیدہ چیز سے امن وامان کے ساتھ داخل ہوجاؤگے۔(75) قرآنِ پاک میں ہے: فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَبَوَیْهِ وَ قَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَؕ(۹۹) (76) ترجمہ : پھر جب وہ سب یوسف کے پاس پہنچے تواس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا: تم مصر میں داخل ہوجاؤ،اگر اللہ نے چاہا(تو)امن وامان کے ساتھ۔ ماں سے مراد خالہ ہے،(77) اور اس کے علاوہ بھی مفسرین کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں۔

خواب یوسف کی عملی تعبیر:

جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ مصر میں داخل ہوئے اور دربار شاہی میں اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے والدین کو بھی اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا، اس کے بعد والدین اور سب بھائیوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو سجدہ کیا ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے جب انہیں سجدہ کرتے دیکھا تو فرمایا : اے میرے باپ! یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہےجو میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔بیشک وہ خواب میرے رب عَزَّ وَجَلَّ نے سچا کردیا اور بیشک اس نے قید سے نکال کر مجھ پر احسان کیا ۔ اس موقع پر حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے کنوئیں کا ذکر نہ کیا تاکہ بھائیوں کو شرمندگی نہ ہو ۔ قرآن کریم میں ہے: وَ رَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَ خَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًاۚ-وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ٘-قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّاؕ-وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۱۰۰) (78) ترجمہ : اوراس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب اس کے لیے سجدے میں گرگئے اور یوسف نے کہا: اے میرے باپ! یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے، بیشک اسے میرے رب نے سچا کردیا اور بیشک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالااور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کروادی تھی۔ بیشک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے، بیشک وہی علم والا، حکمت والا ہے۔ یہ سجدہ تعظیم اور عاجزی کے طور تھا اور اُن کی شریعت میں جائز تھا جیسے ہماری شریعت میں کسی عظمت والے کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا، مصافحہ کرنا اور دست بوسی کرناجائز ہے۔ (79) یاد رہے کہ سجدۂ عبادت اللہ تعالیٰ کے سوا اورکسی کے لئے کبھی جائز نہیں ہوا اورنہ ہوسکتا ہے کیونکہ یہ شرک ہے جبکہ سجدۂ تعظیمی پہلی شریعتوں میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں جائز نہیں۔ سجدہ تعظیمی کی حرمت سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے فتاوی رضویہ کی 22ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کا رسالہ ’’ اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ ‘‘ مطالعہ کیجئے۔

حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات:

تاریخ بیان کرنے والے علما فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام اپنے فرزند حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس مصر میں چوبیس سال بہترین عیش و آرام میں اورخوش حالی کے ساتھ رہے، جب وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کووصیت کی کہ آپ کا جنازہ ملک شام میں لے جا کر ارضِ مقدسہ میں آپ کے والد حضرت اسحق عَلَیْہِ السَّلَام کی قبر شریف کے پاس دفن کیا جائے ۔اس وصیت کی تعمیل کی گئی اور وفات کے بعد ساج کی لکڑی کے تابوت میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا جسد اطہر شام میں لایا گیا ،اسی وقت آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائی عیص کی وفات ہوئی ،آپ دونوں بھائیوں کی ولادت بھی ساتھ ہوئی تھی اور دفن بھی ساتھ ساتھ کئے گئے اور دونوں صاحبوں کی عمر147 سال تھی۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام اپنے والد اور چچا کو دفن کرکے مصر کی طرف واپس روانہ ہوئے تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ دعا کی ۔(80) رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِۚ-فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ- اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ(۱۰۱) (81) ترجمہ : اے میرے رب! بیشک تو نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھادیا۔ اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے! تو دنیا اور آخرت میں میرا مددگار ہے، مجھے اسلام کی حالت میں موت عطا فرما اور مجھے اپنے قرب کے لائق بندوں کے ساتھ شامل فرما۔ اس آیت میں حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے جو اسلام کی حالت میں موت عطا ہونے کی دعا مانگی،ان کی یہ دعادراصل امت کی تعلیم کے لئے ہے کہ وہ حسن خاتمہ کی دعا مانگتے رہیں۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات اور تدفین:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام اپنے والد ماجد کے بعد23 سال زندہ رہے، اس کے بعد آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات ہوئی، آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے مقام دفن کے بارے میں اہل مصر کے اندر سخت اختلاف واقع ہوا، ہر محلہ والے حصول ِبرکت کے لئے اپنے ہی محلہ میں دفن کرنے پر مُصر تھے، آخر یہ رائے طے پائی کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو دریائے نیل میں دفن کیا جائے تاکہ پانی آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی قبر سے چھوتا ہوا گزرے اور اس کی برکت سے تمام اہل مصر فیض یاب ہوں چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو سنگ رِخام یا سنگ مرمر کے صندوق میں دریائے نیل کے اندر دفن کیا گیا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام وہیں رہے یہاں تک کہ 400 برس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا تابوت شریف نکالا اور آپ کو آپ کے آبائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے پاس ملک شام میں دفن کیا۔(82) متعلقات یہاں اس باب سے متعلق دو اہم باتیں ملاحظہ فرمائیں

پاک دامن رہنے اور قدرت کے باوجود گناہ سے بچنے کے فضائل:

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا ذکر ِ مبارک ہوتے ساتھ ہی تقوی، پارسائی اور پاکدامنی کا تصور ذہن میں آجاتا ہے۔ اسی مناسبت سے احادیث میں پاک دامن رہنے اور قدرت کے باوجود بدکاری سے بچنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ، ترغیب کے لئے4 اَحادیث اور ایک حکایت درج ذیل ہے۔ (1) نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا’’جو مجھے اپنے دونوں جبڑوں اور اپنی ٹانگوں کے درمیان والی چیز (یعنی زبان اور شرمگاہ) کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔(83) (2)نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا’’اے قریش کے جوانو! اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اور زِنا نہ کرو، سن لو! جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اس کے لئے جنت ہے۔(84) (3) رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے اور اپنے ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے ۔(85) (4)حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے (عرش کے) سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں ایک) وہ شخص ہے جسے کسی منصب وجمال والی عورت نے (اپنے ساتھ برائی کرنے کے لئے) طلب کیا تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔(86)

حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے بھائیوں کے بارے میں ناشائستہ کلمات کہنے کا حکم:

آج کل لوگ باہمی دھوکہ دہی میں مثال کےلئے برادرانِ یوسف کا لفظ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ برادران ِ یوسف کا ادب و احترام کرنے کا حکم ہے اور ان کی توہین سخت ممنوع و ناجائز ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان فرماتے ہیں: ان کی نسبت کلمات ناشائستہ لانا بہر حال حرام ہے، ایک قول ان کی نبوت کا ہے۔۔۔اور ظاہر قرآن عظیم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے: قَالَ تَعَالیٰ ’’ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ٘-وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(۱۳۶( ‘‘ (87) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’تم کہو: ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے اور اس پر جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو باقی انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا۔ ہم ایمان لانے میں ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہوئے ہیں۔(ت) اسباط یہی ابنائے یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام ہیں، اس تقدیر پر تو ان کی توہین کفر ہوگی ورنہ اس قدر میں شک نہیں کہ وہ اولیائے کرام سے ہیں اور جو کچھ ان سے واقع ہو ا اپنے باپ کے ساتھ محبت شدیدہ کی غیرت سے تھا پھر وہ بھی رب العزت نے معاف کردیا۔ اور یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے خود عفو فرمایا:’’ قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲) ‘‘فرمایا: آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔(ت) اور یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:’’ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ‘‘عنقریب میں تمہارے لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا ، بیشک وہی بخشنے والا، مہربان ہے۔(ت) بہر حال ان کی توہین سخت حرام ہے اور باعث غضب ذوالجلال والاکرام ہے، رب عَزَّ وَجَلَّ نے کوئی کلمہ ان کی مذمت کا نہ فرمایا دوسرے کو کیا حق ہے، مناسب ہے کہ توہین کرنے والا تجدید اسلام وتجدید نکاح کرے کہ جب اِن کی نبوت میں اختلاف ہے اُس کے کفر میں اختلاف ہوگا اورکفر اختلافی کا یہی حکم ہے۔(88)

درس و نصیحت

خواب کس سے بیان کرناچاہئے: حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو بھائیوں سے خواب بیان کرنے سے منع کیا،اس سے معلوم ہوا کہ صرف اس کے سامنے خواب بیان کیا جائے جو اس کی صحیح تعبیر بتا سکتا ہو یا وہ اس سے محبت رکھتا ہو یا وہ قریبی دوست ہو۔ جن سے نقصان کا اندیشہ ہو یا جنہیں خوابوں کی تعبیر کا علم نہ ہو، ان کے سامنے خواب بیان کرنے سے بچنا چاہئے۔ صحیح بخاری میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا’’اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اگر ایسا خواب دیکھے کہ جو اسے پسندنہ ہو تو خواب اور شیطان کے شر سے اسے پناہ مانگنی چاہئے اور (اپنی بائیں طرف )تین مرتبہ تھتکاردے اور اس خواب کو کسی سے بیان نہ کرے تو وہ کوئی نقصان نہ دے گا ۔(89) نیزاپنی طرف سے خواب بنا کر بیان نہ کیا جائے کہ اس پر حدیث پاک میں سخت وعید بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا’’جو شخص ایسی خواب گھڑے جو اس نے دیکھی نہ ہو تو اسے اس چیز کا پابند کیا جائے گا کہ وہ جَوکے دو دانوں میں گرہ لگائے اوروہ ہر گزایسا نہ کرسکے گا۔(90) اَخلاقی دیانت و خیانت: زلیخا کی طرف سے تمام تر رغبت و اہتمام کے باوجود حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے پاکیزہ کردار اور اخلاقی دیانت کا مظاہرہ فرمایا ۔معلوم ہوا باکردار ہونا بہت عظیم وصف ہے جبکہ اَخلاقی خیانت انتہائی مذموم جرم ہے۔ تبلیغ میں الفاظ نرم اور دلائل مضبوط:حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے قید خانے میں نرم الفاظ اور مضبوط دلائل کے ساتھ دوافراد کو اسلام قبول کرنے کی طرف مائل کیا۔ تبلیغ میں نرم الفاظ اور مضبوط دلائل بہت موثر ثابت ہوتےہیں۔ علم کا اظہار :حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے قیدیوں کے سامنے اپنے علمی مقام کا اظہار فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر عالم اپنی علمی منزلت کا اس لئے اظہار کرے کہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں تو یہ جائز ہے۔(91) عہدہ اور امارت کا مطالبہ کرنا: احادیث میں مذکور مسائل میں جو امارت یعنی حکومت یا عہدہ طلب کرنے کی ممانعت آئی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ جب اہلیت رکھنے والے دیگر افراد موجود ہوں اور اللہ تعالیٰ کے احکام نافذ کرناکسی ایک شخص کے ساتھ خاص نہ ہو تو اس وقت عہدے کی طلب کرنا مکروہ ہے لیکن جب ایک ہی شخص اہلیت رکھتا ہو تو اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام نافذ کرنے لئے امارت طلب کرنا جائز بلکہ اسے تاکید ہے ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا یہی حال تھا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام رسول تھے، اُمت کی ضروریات سے واقف تھے ،یہ جانتے تھے کہ شدید قحط ہونے والا ہے جس میں مخلوق کو راحت اور آسائش پہنچانے کی یہی صورت ہے کہ عنانِ حکومت کو آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنے ہاتھ میں لیں اس لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے امارت طلب فرمائی ۔ خوبیوں کے اظہار کی جائز صورت:فخر اور تکبر کے لئے اپنی خوبیوں کو بیان کرنا ناجائز ہے لیکن دوسروں کو نفع پہنچانے یا مخلوق کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لئے اگر اپنی خوبیوں کے اظہار کی ضرورت پیش آئے تو ممنوع نہیں اسی لئے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا کہ میں حفاظت و علم والا ہوں۔(92) انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی شان:حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے کاشت کاری کا ایسا قاعدہ بیان فرمایا جو کامل کاشت کا ر کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ بالی یا بھوسے میں گندم کی حفاظت ہے اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کا علم صرف شرعی مسائل تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں علوم ِ کثیرہ سے نوازتا ہے جیسے یہاں حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا بادشاہِ مصر سے فرمانا کہ خزانے سپرد کردو ، اور پھر تمام دنیا میں غلہ کی تقسیم کا بہترین انتظام فرمانا ۔ویسے یہ بات ہے کہ اُمورِ سلطنت چلانا بھی دین میں داخل ہیں۔ حفاظتی تدابیر کے طور پر کچھ بچا کر رکھنا تو کل کے خلاف نہیں : حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام نے حفاظتی تدابیر کے طور پر غلے کو اسٹور کرنے کا اہتمام کیا ،اس سے معلوم ہوا کہ حفاظتی تدابیر کے طور پر آئندہ کے لئے کچھ بچا کر رکھنا تو کل کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ اناج اور دیگر ضروریات کے حوالے سے ملکی ذخائرکا جائزہ لیتے رہیں اور اس کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دیں بلکہ زرِ مبادلہ کے جو ذخائر جمع کر کے رکھے جاتے ہیں ان کی اصل بھی اس آیت سے نکالی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کسی شخص کا ان لوگوں کے لئے کچھ بچا کر رکھنا جن کا نان نفقہ اس کے ذمے ہے ،یہ بھی توکل کے خلاف نہیں بلکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی ازواجِ مطہرات کےلئے یوں کیا کرتے تھے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حفاظت سب سے بہتر ہے: اپنی جان ،مال،اولاد اور دین و ایمان وغیرہ کی حفاظت سے متعلق حقیقی اعتماد اور بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہی کرنا چاہیےاگرچہ جان و مال کی حفاظت کے ظاہری اسباب اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسہ کرنے کے خلاف نہیں کیونکہ توکل نام ہی اسی چیز کا ہے کہ اسباب اختیار کر کے نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے، لہٰذا جن لوگوں نے اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے سیکیورٹی گارڈز رکھے یا دیگر اسباب اختیار کئے تو ان کے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسہ نہیں۔ مصیبتوں سے بچنے کی تدبیریں اختیار کرنا انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا طریقہ ہے: حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام نے بیٹوں کو نظر سے بچنے کی تدبیر اختیار کرنے کی تاکید کی ،اس سے معلوم ہوا کہ آفتوں اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرنے کی تدبیر کرنا اور مناسب احتیاطیں اختیار کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کا طریقہ ہے،سید المرسلین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آفتوں اور مصیبتوں سے بچنے کے لئے خود بھی مناسب تدبیریں فرمایا کرتے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ تدبیر نہ تو تقدیر کے خلاف ہے اور نہ ہی توکل کے بلکہ تدبیر اختیار کرنے کا حکم ہے۔ باب: 4

احادیث میں حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کا تذکرہ

کثیر احادیث میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا ذکر خیر کیا گیا ہے ،یہاں ان میں سے 3احادیث ملاحظہ ہوں

لوگوں میں انتہائی معزز ہستی:

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں کون زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا: جو تم میں بڑا پرہیزگار ہے ۔عرض کی :ہم اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہے۔ ارشاد فرمایا:تولوگوں میں بڑے معزز یوسف عَلَیْہِ السَّلَام ہیں کہ (خود) اللہ کے نبی ہیں اورنبی (یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام )کے بیٹے، وہ نبی(اسحاق عَلَیْہِ السَّلَام ) کے بیٹے اور وہ خلیل اللہ کے بیٹے ہیں۔عرض کی: ہم اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہے،ارشاد فرمایا: تو کیا تم مجھ سے اہل عرب کے آباؤ اجداد کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟عرض کی:جی ہاں،ارشاد فرمایا:ان میں سے جو جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں جب کہ عالم ہوجائیں۔(93)

حسنِ یوسف کا تذکرہ:

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کو خوبصورتی کا ایک حصہ دیا گیا ہے۔(94)

شبِ معراج یوسف عَلَیْہِ السَّلَام سےملاقات:

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: پھر مجھے تیسرے آسمان پر لے جایا گیا، جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے دروازہ کھلوانا چاہاتو پوچھا گیا: کون؟کہا: جبریل۔پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟کہا: محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔پوچھا گیا: ان کو بھیجا گیا ہے؟جواب دیا: ہاں، بھیجا گیا ہے۔تو ہمارے لیے دروازہ کھلا، وہاں حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام موجود تھے، انہیں خوبصورتی کا ایک حصہ دیا گیا ہے، آپ نے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر کی دعا بھی کی۔(95)
1…خازن،یوسف،تحت الاٰية:۳۲، ۳/۱۸، مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۳۲، ص۵۲۹،ملتقطاً. 2…پ۱۲،یوسف:۳۳. 3… پ۱۲،یوسف:۳۴، ۳۵. 4… تفسیر کبیر،یوسف،تحت الاٰية:۳۵، ۶/۴۵۲، ملخصاً. 5…پ۱۲،یوسف:۳۶. 6…پ۱۲،یوسف:۳۷-۴۰. 7… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۴۱، ۳/۲۱. 8…پ۱۲،یوسف:۴۱. 9…پ۱۲،یوسف:۴۲. 10… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۴۲، ۳/۲۲-۲۳. 11… پ۱۲،یوسف:۴۳، ۴۴. 12… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۴۵، ۳/۲۳،ملخصاً. 13…پ۱۲،یوسف: ۴۵. 14…پ۱۲،یوسف:۴۶. 15…پ۱۲،یوسف:۴۷-۴۹. 16… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۰، ۳/۲۴، مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۵۰، ص۵۳۳،ملتقطاً. 17…پ۱۲،یوسف:۵۰. 18… پ۱۲،یوسف:۵۱. 19…پ۱۲،یوسف:۵۲. 20… مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۵۳، ص۵۳۴، خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۳، ۳/۲۵-۲۶، ملتقطاً. 21…پ۱۳،یوسف:۵۳. 22…پ۱۳،یوسف:۵۴. 23… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۴، ۳/۲۷، ملتقطاً. 24…پ۱۳،یوسف:۵۵. 25…خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۶، ۳/۲۸. 26… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۶، ۳/۲۸. 27…خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۶، ۳/۲۸. 28… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۶، ۳/۲۸. 29… روح البیان،یوسف،تحت الاٰية:۵۶، ۴/۲۸۳-۲۸۴. 30…خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۸، ۳/۲۹، ملتقطاً. 31… پ۱۳،یوسف:۵۸. 32… قرطبی، یوسف،تحت الاٰية:۱۵، ۵/۱۰۰، ملخصاً. 33…خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۸، ۳/۲۹. 34… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۹،۳/۲۹. 35…پ۱۳،یوسف:۵۹-۶۱. 36…خازن،یوسف،تحت الاٰية:۶۲، ۳/۳۰، ملخصاً. 37…پ۱۳،یوسف:۶۲. 38… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۶۳، ۳/۳۰. 39… پ۱۳،یوسف:۶۳، ۶۴. 40…پ۱۳،یوسف:۶۵. 41… پ۱۳،یوسف: ۶۶. 42…پ۱۳،یوسف:۶۷. 43… صاوی،یوسف،تحت الاٰية:۶۷، ۳/۹۶۸-۹۶۹، ملخصاً. 44… پ۱۳،یوسف:۶۸. 45… مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۶۹، ص۵۳۸-۵۳۹. 46…پ۱۳،یوسف:۶۹. 47…پ۱۳،یوسف:۷۰-۷۶. 48… روح البیان،یوسف،تحت الاٰية:۷۷، ۴/۳۰۱، خازن،یوسف،تحت الاٰية:۷۷، ۳/۳۶، ملتقطاً. 49…پ۱۳،یوسف:۷۷. 50… تفسیر کبیر،یوسف،تحت الاٰية:۷۸، ۶/۴۹۱، مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۷۹، ص۵۴۰ ملتقطاً. 51…پ۱۳،یوسف:۷۸، ۷۹. 52…پ۱۳،یوسف:۸۰-۸۲. 53…پ۱۳،یوسف:۸۳، ۸۴. 54… پ۱۳،یوسف:۸۵، ۸۶. 55… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۸۶، ۳/۴۰-۴۱، ملخصاً. 56… روح البیان،یوسف،تحت الاٰية:۸۷، ۴/۳۰۹، ملخصاً. 57…پ۱۳،یوسف:۸۷. 58…خازن،یوسف،تحت الاٰية:۸۸، ۳/۴۱، ملتقطاً. 59… پ۱۳،یوسف:۸۸. 60…خازن،یوسف،تحت الاٰية:۸۹-۹۰، ۳/۴۲، ملتقطاً. 61… تفسیر طبری،یوسف،تحت الاٰية:۹۰، ۷/۲۹۰، ملخصاً. 62…پ۱۳،یوسف:۸۹، ۹۰. 63…خازن،یوسف،تحت الاٰية:۹۱، ۳/۴۳، مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۹۱، ص۵۴۳، ملتقطاً. 64… پ۱۳،یوسف:۹۱. 65… مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۹۲، ص۵۴۳، ملخصاً. 66…پ۱۳،یوسف:۹۲. 67… مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۹۳، ص۵۴۴، ملخصاً. 68…پ۱۳،یوسف:۹۳. 69…پ۱۳،یوسف:۹۴، ۹۵. 70… تفسیر کبیر،یوسف،تحت الاٰية:۹۶، ۶/۵۰۸، جمل مع جلالین،یوسف،تحت الاٰية:۹۶، ۴/۸۰، ملتقطاً. 71…پ۱۳،یوسف:۹۶. 72…پ۱۳،یوسف:۹۷. 73… پ۱۳،یوسف:۹۸. 74… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۹۸، ۳/۴۴-۴۵، جمل مع جلالین،یوسف،تحت الاٰية:۹۸-۹۹، ۴/۸۰-۸۱، ملتقطاً. 75…صاوی مع جلالین،یوسف،تحت الاٰية:۹۹، ۳/۹۸۱، ملخصاً. 76… پ۱۳،یوسف:۹۹. 77… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۹۹، ۳/۴۵. 78…پ۱۳،یوسف:۱۰۰. 79… مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۱۰۰، ص۵۴۵. 80… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۱۰۰، ۳/۴۶-۴۷. 81…پ۱۳،یوسف:۱۰۱. 82… مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۱۰۱، ص۵۴۶، خازن،یوسف،تحت الاٰية:۱۰۱، ۳/۴۷، ملتقطاً. 83… بخاری،کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان، ۴/۲۴۰، حدیث:۶۴۷۴. 84… شعب الایمان،السابع والثلاثون من شعب الایمان...الخ، ۴/۳۶۵، حدیث:۵۴۲۵. 85… حلیة الاولیاء،الربیع بن صبیح، ۶/۳۳۶، حدیث:۸۸۳۰. 86… بخاری،کتاب الاذان،باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاة...الخ، ۱/۲۳۶، حدیث:۶۶۰. 87…پ۱،البقرة:۱۳۶. 88… فتاوی رضویہ،کتاب السیر،۱۵/۱۶۵،ملخصاً 89… بخاری،کتاب التعبیر،باب اذا رأی ما یکرہ فلا یخبر بھا ولا یذکرھا،۴/۴۲۳،حدیث:۷۰۴۴. 90… بخاری،کتاب التعبیر،باب من کذب فی حلمہ، ۴/۴۲۲، حدیث:۷۰۴۲. 91… مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۳۶، ص۵۳۰، خازن،یوسف،تحت الاٰية:۳۶، ۳/۲۰. 92… خازن،یوسف،تحت الاٰية:۵۵، ۳/۲۷، مدارک،یوسف،تحت الاٰية:۵۵، ص۵۳۵،ملتقطاً. 93…بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی:واتخذ اللہ ابراھیم خلیلا، ۲/۴۲۱، ۴۳۱، حدیث:۳۳۵۳، ۳۳۷۴. 94… مسند امام احمد، مسند انس بن مالک، ۴/۵۷۰، حدیث:۱۴۰۵۲. 95…مسلم، کتاب الایمان، باب الاسراء برسول اللہ...الخ، ص۸۷، حدیث:۴۱۱.

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن