30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
باب: 3
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت و تبلیغ
اس باب میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی اپنی قوم،چچا آزر اور بادشاہ نمرودکو تبلیغ و نصیحت کا ذکر ہے۔
قوم کی عملی حالت:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم کے لوگ اپنے گمراہ باپ دادا کی پیروی میں بتوں اور ستاروں کی پوجا کرتے تھے۔ان میں سرِ فہرست آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا چچا’’آزر‘‘ہےجو بت پرستی کے ساتھ ساتھ بت سازی اور اس کی تجارت بھی کرتا تھا۔بادشاہِ وقت نمرودبھی اپنی ربوبیت کا دعوی کرتا اور لوگوں سے زبردستی اپنی عبادت کرواتا تھا۔
نمرود کا مختصر تعارف:
نمرودبن کنعان اپنے زمانے میں بہت بڑا بادشاہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے انتہائی وسیع و عریض سلطنت عطا فرمائی تھی،چنانچہ امام مجاہد فرماتے ہیں :دنیا کی مشرق و مغرب کی سلطنت رکھنے والے افراد چار ہوئے جن میں سے دو مومن اور دو کافر تھے۔ مومن حضرت سلیمان بن داؤد عَلَیْہِمَا السَّلَام اور حضرت ذوالقر نین رَضِیَ اللہُ عَنْہ تھے جبکہ کافر نمرود اور بخت نصر تھے۔(1)
اتنی عظیم سلطنت ملنے کے باوجود اس نے شکرو طاعت ِالٰہی کی بجائے تکبر و غرور اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا یہاں تک کہ اپنے خداہونے کا دعویٰ کرنے لگا اور لوگوں کو اپنی عبادت پر مجبور کیا۔اس بے باک کافر سے مختلف خلافِ عادت کام بھی ظاہر ہوتے تھے،چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں :نمرود کے(محل کے) دروازے پر ایک درخت تھا جس کا سایہ بالکل نہ تھا۔جب ایک شخص اس کے نیچے آتا اس کے لائق سایہ ہوجاتا، دوسرا آتا تو دو کے لائق ہوجاتا۔ غرض ایک لاکھ تک آدمی اس کے سایہ میں رہ سکتے اور جہاں ایک لاکھ سے ایک بھی زیادہ ہوا سب دھوپ میں۔
مزید فرماتے ہیں : اُسی کا ایک حوض تھا۔ صبح کو لوگ آتے، کوئی اس میں پیالہ بھر کر دودھ ڈالتا، کوئی شربت، کوئی شہد ،جس کو جو پسند آتا یہاں تک کہ وہ بھر جاتا اور سب چیزیں خلط ہو( یعنی آپس میں مل)جاتیں ۔اب جس کو حاجت ہوتی پیالہ ڈالتا، جو شے جس نے ڈالی ہوتی وہی ا س کے جام میں آجاتی ۔یہ کافر اور وہ بھی کیسے بڑے کافر کا اِستدراج تھا۔(2) یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ایسی چیزیں جادو یا دیگر مخفی علوم میں مہارت کے ذریعے ہوتی ہیں اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ بعض چیزیں سائنسی ترقی سے وقوع پذیر ہوتی ہوں۔
سب سے پہلے اسی نے اپنے سر پر تاج رکھا اور اس کے ظلم و بربریت کا یہ عالم تھا کہ اپنی سلطنت کے زوال سے ڈر کر کاہنوں اور نجومیوں کے کہنے پر ہزاروں شیر خوار بچے قتل کروا دئیے تھے۔
چچا اور قوم کے سامنے دلائلِ توحید کا بیان:
جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے تبلیغ و نصیحت کا سلسلہ شروع فرمایا تو سب سے پہلے اپنے گھر سے ابتداء فرمائی، چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے چچا آزرسے فرمایا:
اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةًۚ-اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۷۴) (3)
ترجمہ : کیا تم بتوں کو (اپنا) معبود بناتے ہو۔ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔
قوم کے سامنے دلائلِ توحید کا بیان:
اس کے بعد آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے لوگوں کے سامنےبڑے آسان انداز میں توحید ِ باری تعالیٰ کے دلائل بیان فرمائے تاکہ وہ ان میں غوروفکر کر کے یہ نتیجہ نکال سکیں کہ جب ساراجہان عدم سے وجود میں آنے والا ، پھر ختم ہونے والا ہے تو پھر ا ِس جہان کی چیزوں یا افراد میں سے تو کوئی معبود نہیں ہوسکتااورسارا جہان بذات ِ خودکسی وجود میں لانے والی ذات کا محتاج ہے جس کے قدرت وا ختیار سے اس میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر جب رات کی تاریکی چھا ئی تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک ستارہ دیکھ کرقوم سے فرمایا:کیا تم اپنے خیال میں اسے میرا رب کہتے ہو؟(ابھی تھوڑی دیر میں اس کی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔)چنانچہ کچھ دیر بعد جب وہ ستارہ افق میں چھپ گیاتو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔یعنی جس میں ایسی تبدیلیاں ہورہی ہوں وہ ربّ نہیں ہوسکتا۔
قرآنِ پاک میں ہے:
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاۚ-قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ(۷۶) (4)
ترجمہ : پھر جب ان پر رات کا اندھیرا چھایا تو ایک تارا دیکھا، فرمایا : کیا اسے میرا رب ٹھہراتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمکتا ہوا نکلا ہے تو فرمایا:کیاتمہارے خیال کے مطابق یہ میرا ربّ ہے؟ابھی کچھ ہی دیر میں اس کی کیفیت بھی معلوم ہو جائے گی۔چنانچہ جب یہ بھی غروب ہو گیا تو فرمایا: اگر میرے رب عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے پہلے سے ہی ہدایت نہ دی ہوتی تو میں بھی تمہاری طرح گمراہ لوگوں میں سے ہوتا۔
قرآنِ کریم میں ہے:
فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ(۷۷) (5)
ترجمہ : پھر جب چاند چمکتا دیکھا تو فرمایا: کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اگر مجھے میرے رب نے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں سے ہوتا۔
اِس فرمان میں اُن لوگوں کو تنبیہ تھی جو چاند کومعبود مانتے تھے، انہیں آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے گمراہ قرار دیا اور خود کو ہدایت پر۔پھراسی صبح یا کسی اور دن کی صبح جب سورج کو دیکھا کہ بڑی آب وتاب کے ساتھ جگمگاتا ہوا نکلا ہے تو فرمایا:کیا تمہارے گمان میں یہ میرا رب ہے؟ہے تو یہ ان سب سے بڑا ( لیکن اگر اس کا ربّ ہونا غلط ثابت ہو گیا تو چھوٹوں کی ربوبیت تو بدرجہ اولیٰ غلط و باطل ہو گی ۔)چنانچہ جب شام کے وقت سورج بھی غروب ہو گیا تو فرمایا: اے میری قوم! میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کاشریک ٹھہراتے ہو۔
قرآنِ مجید میں ہے :
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ(۷۸) (6)
ترجمہ : پھر جب سورج کو چمکتا دیکھا تو فرمایا: کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اے میری قوم! میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم ( اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو۔
یوں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے ثابت کردیا کہ ستاروں میں چھوٹے سے بڑے تک کوئی بھی ربّ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ،ان کا معبود ہونا باطل ہے اور قوم جس شرک میں مبتلا ہے آپ عَلَیْہِ السَّلَام اس سے بیزارہیں۔
تنبیہ :حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے ستارے، چاند اور سورج کے بارے میں فرامین لوگوں کو سمجھانے کیلئے تھے، مَعاذَ اللہ ، اپنے بارے میں نہ تھے۔ اس کی بہت واضح دلیل یہ بھی ہے کہ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نےستارے، چاند اور سورج کے بارے یہ فرمایا تو کیا آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس سے پہلے انہیں کبھی غروب ہوتے نہیں دیکھا تھا؟یقیناً دیکھا تھا توجب قرآن ہی سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو بچپن ہی سے رشد و ہدایت اور عقل و فہم سے نوازا تھا تو آپ ہمیشہ سے ہی ان باتوں کو سمجھتے تھے اور دیگر دلائل کے علاوہ اِن دلائل سے سورج چاند وغیرہ کی معبودیت کو باطل سمجھتے تھے ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ سورج چاند ستارے کے حوالے سے آپ کا کلام اپنے لیے نہیں بلکہ صرف قوم کو سمجھانے کیلئے تھا اور اس چیز کی مزید وضاحت درجِ ذیل آیت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم کو سورج چاند ستاروں کے بارے میں کلام کرنے کے بعد فرمایا:
اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ(۷۹) (7)
ترجمہ : میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا یہ فرمان اپنی مستقل سوچ اور دائمی عقیدے کے بیان پر مشتمل تھا ، یہ نہیں کہ قوم کو بتارہے تھے کہ تمہارے سامنے سورج چاند دیکھ کر یا تمہیں سمجھاتے ہوئے مجھے بھی سمجھ آگئی ہے اور اب میرا یہ عقیدہ بنا ہے۔ مَعاذَ اللہ ۔ اس مقام پر اگلی پچھلی تمام متعلقہ آیتیں پڑھیں تو یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے۔
قوم کا مباحثہ:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے ستاروں کو معبود بنانے کا رد کرنے کے ساتھ ساتھ بتوں کے معبود ہونے کا بھی رد فرمایا،چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے اعلانِ حق اور توحید ِ باری تعالیٰ کا بیان سن کر قوم بحث کرنے لگی اور بتوں کی مخالفت سے ڈراتے ہوئے کہا: اے ابراہیم! بتوں سے ڈرو، اُنہیں برا کہنے سے خوف کھاؤ، کہیں آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچ جائے۔ ان کے جواب میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: کیا تم مجھ سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ اس نے تو مجھے اپنی توحید و معرفت کی ہدایت سے نوازاہوا ہے؟سن لو! مجھے اِن بتوں کا کوئی ڈر نہیں جنہیں تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شریک بتاتے ہو، کیونکہ وہ بے جان اور بے بس و لاچار ہیں، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع ،تواُن سے کیا ڈرنا!ہاں اگر میرا رب عَزَّ وَجَلَّ کوئی بات چاہے تو وہ ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے اور اس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗؕ-قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِؕ-وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْــٴًـاؕ-وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًاؕ-اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ(۸۰) (8)
ترجمہ : اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی (ابراہیم نے) فرمایا: کیاتم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتےہو حالانکہ وہ تو مجھے ہدایت عطا فرما چکا اور مجھے ان کا (کوئی) ڈر نہیں جنہیں تم شریک بتاتے ہو البتہ یہ کہ میرا رب کوئی بات چاہے ۔میرے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے ؟
سُبْحَانَ اللہ ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اس موقع پر ایمان نہ چھپایا بلکہ بے خوف ہو کر اپنے ایمان کا اعلان فرما دیا، اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عَلَیْہِ السَّلَام کے دل میں مخلوق کی ایسی ہیبت نہیں آسکتی جو انہیں فرائض کی ادائیگی سے روک دے۔
قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ہدایت:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نےقوم سے مزید فرمایا:میں تمہارے ان شریکوں سے کیوں ڈروں جو بے جان، جمادات اور بالکل عاجز و بے بس ہیں اور مجھے ڈرانے کی بجائے تو تمہیں ڈرنا چاہیے کیونکہ تم نے ان بتوں کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شریک ٹھہرایا ہےجن کے شریک ہونے کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اس بات کو سامنے رکھ کر غور کرو کہ امن کا مستحق کون ہے؟ وہ مومن جس کے پاس اپنے عقیدے کی حقانیت کے دلائل ہیں یا وہ مشرک امن کا مستحق ہے جس کے پاس اس کے عقیدے کی کوئی معقول و قابلِ قبول دلیل نہیں ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے :
وَ كَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَكْتُمْ وَ لَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًاؕ-فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِۚ-اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۘ(۸۱) (9)
ترجمہ : اور میں تمہارے شریکوں سے کیوں ڈروں؟ اور تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کا شریک اس کو ٹھہرایا جس کی کوئی دلیل اللہ نے تم پرنہیں اتاری تو دونوں گروہوں میں امان کا زیادہ حقدار کون ہے؟ اگر تم جانتے ہو۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی چچا کو مزید نصیحتیں:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے چچا آزرکو تبلیغ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھا ، چنانچہ ایک موقع پر آپ نے اسے چار نصیحتیں فرمائیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ
(1) عبادت کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو ذاتی طور پر اوصاف وکمال والا اور نعمتیں دینے والا ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جبکہ تم جن بتوں کی عبادت کررہے ہو یہ نہ توسنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی تمہارے کسی کام آسکتے ہیں بلکہ یہ خود تمہارے محتاج ہیں کہ اپنی جگہ سے دوسری جگہ بھی نہیں جاسکتے اور تم نے خود انہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تو ایسی ناکارہ اور لاچار مخلوق کی عبادت کرنا ، اس کے سامنے اپنا سرجھکانا اور اس سے کسی بھی قسم کے نفع ونقصان کی امید رکھنا انتہائی حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
قرآنِ پاک میں ہے:
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْــٴًـا(۴۲) (10)
ترجمہ : جب اپنے باپ سے فرمایا: اے میرے باپ! تم کیوں ایسے کی عبادت کررہے ہو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ ان آیات میں ’’باپ‘‘سے مراد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے حقیقی والد نہیں بلکہ چچا آزر مراد ہے۔ اس سے متعلق مزید تفصیل آگے صفحہ 299پر ملاحظہ فرمائیں۔
(2) میرے رب عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے وہ علم عطا کیا ہے جو تیرے پاس نہیں ، تو تُو میرا دین قبول کر کے میری پیروی کر، میں تجھے سیدھی راہ دکھادوں گا جس سے تو رضائے الٰہی اور حقیقی کامیابی کی منزل مقصودتک پہنچ سکے گا ۔
قرآنِ کریم میں ہے:
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِیْۤ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا(۴۳) (11)
ترجمہ : اے میرے باپ! بیشک میرے پاس وہ علم آیا جو تیرے پاس نہیں آیا تو تُو میری پیروی کر، میں تجھے سیدھی راہ دکھادوں گا۔
اس آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے جس علم کا ذکرہوا اس سے مراد معرفتِ الٰہی ،وحی، امورِ آخرت اور اخروی ثواب و عذاب وغیرہ کا علم ہے۔
(3)اے میرے باپ (مراد چچا)!تو شیطان کابندہ نہ بن اور اس کی فرمانبرداری کر کے کفر و شرک میں مبتلا نہ ہو، بیشک وہ رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کا بڑ انافرمان ہے اور نافرمان کی اطاعت بندے کو بھی نافرمان بنا دیتی اور نعمت سے محروم کرکے مشقت و عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے۔
قرآنِ پاک میں ہے:
یٰۤاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا(۴۴) (12)
ترجمہ : اے میرے باپ! شیطان کا بندہ نہ بن، بیشک شیطان رحمٰن کا بڑا نافرمان ہے۔
(4)مجھے ڈر ہے کہ اگر تو رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی اور شیطان کی پیروی کرتے ہوئے کفر کی حالت میں ہی مر گیا تو تجھے رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے عذاب پہنچے گا اور تولعنت و عذابِ جہنم میں شیطان کا رفیق بن جائے گا۔
قرآنِ مجید میں ہے:
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا(۴۵) (13)
ترجمہ : اے میرے باپ! میں ڈرتا ہوں کہ تجھے رحمٰن کی طرف سے کوئی عذاب پہنچے تو تُو شیطان کا دوست ہوجائے۔
نصیحت کے جواب میں چچا کی ہٹ دھرمی:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی ان نصیحتوں سے نفع اٹھا کر راہِ راست پر آنے کی بجائے آزر نے جواب دیا:
اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِیْ یٰۤاِبْرٰهِیْمُۚ-لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِیْ مَلِیًّا(۴۶) (14)
ترجمہ : کیا تو میرے معبودوں سے منہ پھیرتا ہے؟ اے ابراہیم ! بیشک اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر ماروں گا اور تو عرصہ دراز کیلئے مجھے چھوڑ دے۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے اندازِ نصیحت اور آزر کے طرزِ عمل میں مبلغین کے لیے یہ درس ہے کہ اگر نیکی کی دعوت اور برائی سے منع کرنے کے دوران انہیں کسی کافر یا مسلمان کی طرف سے کسی ناقابلِ برداشت سلوک کا سامنا کرنا پڑے تو وہ رنجیدہ ہو کر اس فرض کی بجا آوری کو چھوڑ نہ دیں بلکہ ایسے موقع پر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور ان کی قوموں کے واقعات کو یاد کریں کہ ان بزرگ ہستیوں نے کس طرح اسلام کی دعوت دی اور انہیں نافرمان و سرکش کفار کی طرف سے کیسی کیسی اَذِیَّتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اُنہوں نے تمام تر تکلیفوں کے باوجود دین ِاسلام کی دعوت دینے کو نہیں چھوڑا تو ہم بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے دین ِاسلام اور اس کے احکام کی دعوت دینا نہیں چھوڑیں گے۔اس سے اِنْ شَآء اللہ دل کوتسلی اور تقویت ملے گی۔
چچا کو سلامِ متارکت اور دعائے مغفرت کا وعدہ:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے چچا کا جواب سن کر فرمایا:تجھے دور ہی سے سلام ہے ۔ عنقریب میں تیرے لیے اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ سے معافی مانگوں گا کہ وہ تجھے توبہ اور ایمان کی توفیق دے کر تیری مغفرت فرمادے ، بیشک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔
قرآنِ پاک میں ہے:
قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَۚ-سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا(۴۷) (15)
ترجمہ : فرمایا: بس تجھے سلام ہے۔ عنقریب میں تیرے لیے اپنے رب سے معافی مانگوں گا بیشک وہ مجھ پربڑا مہربان ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے چچا آزر سے دعائے مغفرت کا وعدہ اس لیے کیا تھا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو ابھی بھی اس کے ایمان لانے کی توقع تھی ۔اس سے متعلق مزید تفصیل آگے صفحہ 282 پر ملاحظہ فرمائیں۔
قوم سے علیحدگی کے ارادے کا اظہار:
قوم کے جوابات سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اُن سے جدا ہوجانے کا ارادہ کیا اورعاجزی و اِنکساری کرتے ہوئے فرمایا : قریب ہے کہ میں اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کی وجہ سے بدبخت نہ ہوں گا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسے تم بتوں کی پوجا کر کے بدنصیب ہوئے ،خدا کے پرستار اس سے محفوظ ہیں کیونکہ اس کی بندگی کرنے والا بدبخت اور محروم نہیں ہوتا۔(16)
قرآنِ پاک میں ہے:
وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ ﳲ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا(۴۸) (17)
ترجمہ : اور میں تم لوگوں سے اور اللہ کے سوا جن (بتوں) کی تم عبادت کرتے ہو ان سے جدا ہوتا ہوں اور میں اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں ۔قریب ہے کہ میں اپنے رب کی عبادت کی وجہ سے بدبخت نہ ہوں گا۔
اس سے معلوم ہو اکہ کافروں، بد مذہبوں کے ساتھ رہنے اور ان کے ساتھ نشست برخاست رکھنے سے بچنا چاہئےاوراپنا دین نہیں چھپانا چاہئے اور یہ بھی معلوم ہو ا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بد نصیب نہیں ہو سکتا بلکہ بدنصیب تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرے۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا قوم سے ایک اور مکالمہ :
ایک موقع پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے پھر بتوں کی پوجا میں مصروف اپنے چچا اور قوم سےپوچھا:
مَا تَعْبُدُوْنَ (18)
ترجمہ : تم کس کی عبادت کرتے ہو؟
قوم نے جواب دیا :
نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِیْنَ (19)
ترجمہ : ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں پھر ان کے سامنے جم کر بیٹھے رہتے ہیں۔
آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے پوچھا:
قَالَ هَلْ یَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَۙ(۷۲) اَوْ یَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ یَضُرُّوْنَ(۷۳) (20)
ترجمہ : فرمایا:جب تم پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری سنتے ہیں؟ یا تمہیں کوئی نفع یا نقصان دیتے ہیں؟
لوگوں نے وہی باطل جواب دیا جو اکثر اہل ِ باطل دیتے ہیں :
قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ(۷۴) (21)
ترجمہ : انہوں نےکہا: بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی نصیحت:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: جن بتوں کی تم عبادت کر رہے ہو اور جن کی تمہارے آباؤ اجداد کرتے رہے ہیں، کیا تم نے ان کے بارے میں کبھی غور کیا؟اگر تم حقیقی طور پر غور کرلو تو جان جاؤگے کہ بتوں کی عبادت کرنا آج کی نہیں بلکہ پرانی گمراہی اور باطل کام ہے اورکوئی باطل کام پرانا ہو یا نیا، یونہی اس باطل کام کو کرنے والے تھوڑے ہوں یا زیادہ، اس سے اس کام کے باطل ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ وہ باطل کا م باطل ہی رہتا ہے۔
قرآنِ مجید میں ہے:
قَالَ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ(۷۵) اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ٘ۖ(۷۶) (22)
ترجمہ : ابراہیم نے فرمایا: کیا تم نے ان(بتوں) کے بارے میں غور کیاجن کی تم اور تمہارے پہلے آباؤ اَجداد عبادت کرتے رہے ہیں؟
اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں کو بھی اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہئے جو غمی خوشی کے موقع پر شریعت کے خلاف رسمیں بجا لانے اور دیگر افعال کرنے پر کوئی شرعی دلیل پیش کرنے کی بجائے یہ کہنے لگتے ہیں کہ ہمارے بڑے بوڑھے عرصہ دراز سے یہ رسم و کام کرتے چلے آ رہے ہیں بلکہ بعض بدنصیب تو یہ کفریہ جملہ تک بول دیتے ہیں کہ ہمیں شریعت نہیں چاہیے، بلکہ ہمیں رواج چاہیے۔ افسوس کہ ناجائز رسومات، شادیوں میں حرام و ناجائز انداز کے گانے باجےاور فوتگی کے وقت کی گناہوں بھری جاہلانہ رسومات چھوڑنا لوگوں کو قبول نہیں ، قرآن و حدیث اور خدا و رسول کے احکام چھوڑدینا قبول ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل ِسلیم عطا فرمائے اوراحکامِ شریعت کے مطابق عمل کرنے اور خلافِ شریعت کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
بتوں سے اظہارِ دشمنی اور اوصافِ باری تعالیٰ کا بیان:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے کفار کوغورو فکر کی دعوت دینے کے بعد بتوں کواپنا دشمن قرار دے کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عظمت و شان کو بڑے خوبصورت اور محبت بھرے انداز میں بیان فرمایا، چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے:
فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۷۷) الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ(۷۸) وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِۙ(۷۹) وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِﭪ(۸۰) وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِۙ(۸۱) (23)
ترجمہ : بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں سوائے سارے جہانوں کے پالنے والے کے۔ جس نے مجھے پیدا کیا تو وہ مجھے ہدایت دیتا ہے ۔ اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ اور وہ جو مجھے وفات دے گا پھر مجھے زندہ کرے گا ۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفاء کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب فرمایا اگرچہ بیماری اور شفا دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں۔اس سے معلو م ہوا کہ برائی کی نسبت اپنی طرف جبکہ خوبی و بہتری کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے آخر میں اللہ تعالیٰ کا یہ وصف بیان فرمایا:
وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓــٴَـتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ(۸۲) (24)
ترجمہ : اور وہ جس سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میری خطائیں بخش دے گا۔
یہاں دو باتیں قابلِ توجہ ہیں ، پہلی یہ کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو بیان کرنا اپنی قوم پر حجت قائم کرنے کے لئے ہے کہ معبود صرف وہی ہوسکتا ہے جس کی یہ صفات ہوں۔دوسری یہ کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام معصوم ہیں،اُن سے گناہ صادر نہیں ہوتے، اُن کا استغفار کرنا در اصل اپنے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی و انکساری کا اظہار ہے اور اس میں امت کو یہ تعلیم دینا مقصود ہے کہ وہ مغفرت طلب کرتے رہاکریں۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی دعائیں:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے بعد مختلف دعائیں مانگیں، اس میں دعا کے ایک ادب کی طرف بھی رہنمائی ہوتی ہے کہ دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کی جائے ،اس کے بعد دعا مانگی جائے ۔ چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے پہلی دعایہ مانگی:
رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ(۸۳) (25)
ترجمہ : اے میرے رب !مجھے حکمت عطا کر اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے خاص قرب کے لائق بندے ہیں۔
یہاں ’’ حکم‘‘ سے مرادعلم یاحکمت ہے اور قرب کے لائق خاص بندوں سے مراد انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ہیں۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی یہ دعا قبول ہوئی ۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:
وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۳۰) (26)
ترجمہ : اور بیشک وہ آخرت میں ہمارا خاص قرب پانے والوں میں سے ہے۔ (27)
دوسری دعا یہ مانگی:
وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۸۴) (28)
ترجمہ: اوربعدوالوں میں میری اچھی شہرت رکھ دے۔
یہ دعا بھی قبول ہوئی چنانچہ تمام ادیان والے اُن سے محبت رکھتے اور اُن کی تعریف وثناکرتے ہیں۔
تیسری دعایہ فرمائی :
وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِۙ(۸۵) (29)
ترجمہ : اور مجھے ان میں سے کردے جو چین کے باغوں کے وارث ہیں۔
انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی طلب ِ جنت کی دعائیں درحقیقت اللہ تعالیٰ کے دیدار ، ملاقات، قرب ، رضائے الٰہی اور انعامات ِ الٰہیہ کےلئے تھیں کیونکہ جنت ان تمام چیزوں کے حصول کا مقام ہے۔ جنت کی دعا مانگنا انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سنت ہے۔
چچا کے لئے دعائے مغفرت:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے چوتھی دعا اپنے چچا آزر کے لیے مانگی کہ اسے توبہ وایمان کی توفیق دے کر بخش دیا جائے، چنانچہ بارگاہِ الٰہی میں عرض کی :
وَ اغْفِرْ لِاَبِیْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَۙ(۸۶) (30)
ترجمہ : اور میرے باپ کو بخش دے بیشک وہ گمراہوں میں سے ہے۔
آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ دعا اس لئے فرمائی کہ جدا ہوتے وقت آپ عَلَیْہِ السَّلَام نےآزر سے اس کا وعدہ کیا تھا۔ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر پوری طرح ظاہر ہوگیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے اور کسی صورت ایمان نہیں لائے گاتو آپ عَلَیْہِ السَّلَام اس سے بیزار ہو گئے ،جیسا کہ سور ۂ براءت میں ہے:
وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ- (31)
ترجمہ : اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس سے کرلیا تھا پھر جب ابراہیم کے لئے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے۔(32)
آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے پانچویں دعا یہ فرمائی جو قرآنِ پاک میں ہے:
وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَۙ(۸۷) یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸) اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹) (33)
ترجمہ : اور مجھے اس دن رسوا نہ کرنا جس دن سب اٹھائے جائیں گے ۔ جس دن نہ مال کام آئے گا اورنہ بیٹے۔ مگر وہ جو اللہ کے حضور سلامت دل کے ساتھ حاضر ہوگا۔
یاد رہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا قیامت کے دن کی رسوائی سے پناہ مانگنا بھی لوگوں کی تعلیم کے لئے ہے تاکہ وہ اس کی فکر کریں اور قیامت کی رسوائی سے بچنے کی کوشش کرنے کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں اس کے لئے دعا بھی مانگیں۔
چچا اور قوم سے مجسموں کے بارے میں سوال:
ایک موقع پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے چچا آزراور قوم سے فرمایا: (بتوں کے) یہ مجسمے کیا ہیں جن کے آگے تم جم کر بیٹھے ہوئے ہو اور ان کی عبادت میں مشغول ہو؟
قرآنِ پاک میں ہے:
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ(۵۲) (34)
ترجمہ : یاد کرو جب اس نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے فرمایا: یہ مجسمے کیا ہیں جن کے آگے تم جم کر بیٹھے ہوئے ہو۔
قوم کے لوگ مجسموں کی عبادت کرنے پر کوئی معقول دلیل پیش کرنے کی بجائے کہنے لگے: ہمارے باپ دادا ان کی پوجا کرتے تھے اس لیےہم بھی انہی کے طریقے پر عمل پیرا ہیں ۔
قرآنِ مجید میں ہے:
قَالُوْا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا لَهَا عٰبِدِیْنَ(۵۳) (35)
ترجمہ : انہوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے ہوئے پایا۔
قوم کا جواب سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:
قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۵۴) (36)
ترجمہ : بے شک تم اور تمہارے باپ دادا سب کھلی گمراہی میں ہو۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے حق بیان کرنے میں کوئی رُو رعایت نہیں فرمائی اور یہی حکم ِ خداوندی ہے کہ دینی معاملے میں کسی کی رعایت نہیں بلکہ حق بات بہرحال بیان کرنی چاہیے ،ہاں کہاں کس حکمت ِ عملی کے مطابق بات کرنی چاہیے ، سختی سے یا نرمی سے تو یہ بات مبلغ کو معلوم ہونی چاہیے ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ خلافِ شرع کام میں کثرتِ رائے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ ہمیشہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور ان کے ساتھی قلیل ہوتے اور دشمنانِ اسلام اکثریت میں ہوتے تھے لیکن وہ اکثریت جھوٹی تھی اور انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سچے تھے۔یہی بات آگے بیان کردہ آیت میں فرمائی گئی ہے:
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠(۱۰۰) (37)
ترجمہ : تم فرمادو کہ گندا اور پاکیزہ برابر نہیں ہیں اگرچہ گندے لوگوں کی کثرت تمہیں تعجب میں ڈالے تو اے عقل والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
قوم کا اظہارِ حیرت:
بت پرستی قوم میں ایسی رچی بسی تھی کہ شروع میں تو انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ان کا بتوں کی عبادت کرنا کوئی گمراہی ہے، اسی لئے انہوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام سے کہا: کیا یہ بات واقعی اسی طرح ہے جیسے آپ کہہ رہے ہیں یا یونہی ہنسی مذاق کر رہے ہیں؟ قرآنِ کریم میں ہے:
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ(۵۵) (38)
ترجمہ : بولے: کیا تم ہمارے پاس حق لائے ہو یا یونہی کھیل رہے ہو؟
اس کے جواب میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی رَبُوبِیَّت بیان کرکے ظاہر فرما دیا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کھیل کے طور پرکلام نہیں کررہے بلکہ حق کا اظہار فرما رہے ہیں چنانچہ فرمایا: تمہاری عبادت کے مستحق یہ بناوٹی مجسمے نہیں بلکہ وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب اور انہیں کسی سابقہ مثال کے بغیر پیدا کرنے والا ہے۔
قرآنِ مجید میں ہے:
قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَهُنَّ ﳲ وَ اَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۵۶) (39)
ترجمہ : فرمایا: بلکہ تمہارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے انہیں پیدا کیا اور میں اس پر گواہوں میں سے ہوں۔
قوم کے متعجبانہ سوال سے قوموں کی اجتماعی نفسیات کی ایک بڑی بنیادی حقیقت سامنے آتی ہے کہ برسہا برس کی مزاج و عادات میں رَچی بَسی چیزیں باطل و غیر معقول ہونے کے باوجود لوگوں کی نظر میں ایسی حقیقت و حقانیت کا رُوپ دھار لیتی ہیں کہ اس کا غلط ہونا لوگوں کو ناممکن نظر آتا ہے جیسے بت پرستی واضح طور پر فضول و بے کار اور خلافِ عقل ہونے کے باوجود اُس قوم کےلئے ایک حق سچ چیز تھی اور یہی حال آج کی بت پرست قوموں کا ہے اور یہی حال آج کے غیر مسلم معاشروں کا ہے کہ وہاں ہم جنس پرستی یعنی مردوں کا آپس میں اور عورتوں کا آپس میں بدکاری کرنا بلکہ نکاح کرنا تک معیوب نہیں سمجھاجاتا بلکہ اِس خلافِ عقل و فطرت کام کے خلاف کوئی بات کرے تو اُسے نگاہِ حیرت سے دیکھاجاتا ہے حالانکہ پوری دنیا کے جملہ اِنسان پچھلی صدی تک ہی اسے باطل، مردود، خبیث، ناپاک کام سمجھتے آئے ہیں لیکن خواہش ِ نفس کے بندوں نے اپنی قوموں کو اِس گندگی میں ڈبو کر اور اِس کی لَت لگا کر ایسا دیوانہ کردیا کہ آج ملکوں کی پارلیمنٹس اِس کے جواز کے قانون پاس کررہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ کسی قوم میں برسوں کے رواج و عادات اگرچہ اُن کی نظر میں کتنے ہی معقول ہوں حقیقت میں اُن کا درست ہونا کوئی ضروری نہیں۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ پھر آخر کیا معیار ہے کہ ہم لوگوں اور قوموں کے کچھ کاموں کو درست اور کچھ کو باطل قرار دیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی کام ایک آدمی کرے یا ایک ارب آدمی، اُس کے حق اور درست ہونے کا معیار وہی ہے جو اوپر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے بیان فرمایا،’’ رَبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَهُنَّ ‘‘کہ اصل اتھارٹی اور حاکم وہ ذات ہے جو ہماری، تمام جہانوں کی رب اور خالق ہے ، اس کا حکم ہی فیصلہ کن ہے، لہٰذا ساری دنیا کسی کام کو حلال و جائز کہنے کےلئے نعرے مارتی رہے لیکن اگر حکم ِ خداوندی اس کے برخلاف ہے تو خدا کا حکم مقدم اور لوگوں کی چیخ و پکار مردود وباطل ہے۔ آج سیکولر ازم کے نام پرحکم ِ خداوندی کو مٹانے کےلئےقوم، معاشرہ، سماج، اکثریت، جمہوریت وغیرہ کے جو الفاظ سیکولر اور جدید اسکالرز استعمال کرتے ہیں یہ سب اوپر کی آیات اور نیچے کی چند آیات کو سامنے رکھیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۴۵) (40)
ترجمہ : اور جواس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیاتو وہی لوگ ظالم ہیں۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۴۷) (41)
ترجمہ : اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا تووہی لوگ نافرمان ہیں۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ(۴۴) (42)
ترجمہ : اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیاتو وہی لوگ کافر ہیں۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا ایک اور وعظ:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم کو نصیحت فرمانے کا سلسلہ جاری رکھا،چنانچہ ایک موقع کا بیان قرآنِ پاک میں یوں مذکور ہے:
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۶) اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْكًاؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْهُ وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۱۷) وَ اِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْؕ-وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۱۸) (43)
ترجمہ : اور ابراہیم کو(یاد کرو)جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ تم تو اللہ کے سوا بتوں کو پوجتے ہو اور نرا جھوٹ گڑ ھتے ہو۔بیشک جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ تمہارے لئے روزی کے کچھ مالک نہیں تو تم اللہ کے پاس رزق ڈھونڈواور اس کی عبادت کرو اور اس کے شکرگزار بنو ، اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ اور اگر تم جھٹلاؤگے تو تم سے پہلے کتنے ہی گروہ جھٹلا چکے ہیں اور رسول کے ذمہ توصرف صاف پہنچا دینا ہے۔
قوم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی نصیحتوں کا عجیب و غریب جواب دیا،چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ (44)
ترجمہ : تو ابراہیم کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہ کہ انہوں نے کہا: انہیں قتل کردو یا جلادو۔
یہ بات انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہی یا سرداروں نے اپنی پیروی کرنے والوں سے کہی، بہرحال کچھ کہنے والے تھے اورکچھ اس پر راضی ہونے والے اس لئے وہ سب کہنے والوں کے حکم میں ہیں ۔
ایک اورموقع پرآپ عَلَیْہِ السَّلَام کے الفاظ یوں تھے:
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا ذَا تَعْبُدُوْنَۚ(۸۵) اَىٕفْكًا اٰلِهَةً دُوْنَ اللّٰهِ تُرِیْدُوْنَؕ(۸۶) فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۸۷) (45)
ترجمہ : جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایاتم کیا پوجتے ہو؟ کیا بہتان باندھ کر اللہ کے سوا اور معبود چاہتے ہو؟تو تمہارا ربُّ العالمین پرکیا گمان ہے؟
قوم کی طرف سے میلے میں شرکت کی دعوت:
قوم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو جواب دیا : کل کے دن ہماری عید ہے ،جنگل میں میلہ لگے گا،ہم نفیس کھانے پکا کر بتوں کے پاس رکھ جائیں گے اور میلے سے واپس آکر تبرک کے طور پرانہیں کھائیں گے۔ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں اور مجمع اور میلہ کی رونق دیکھیں ، واپسی پر بتوں کی زینت ، سجاوٹ اور ا ن کا بناؤ سنگار دیکھیں، یہ تماشا دیکھنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ آپ بت پرستی پر ہمیں ملامت نہیں کریں گے ۔(46)
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا ردِّ عمل:
قوم کا جواب سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا ئی اور علمِ نجوم کے ماہرین کی طرح ایک نظر ستاروں کی طرف دیکھا،پھر فرمایا: میں بیمار ہونے والا ہوں۔
قرآنِ کریم میں ہے:
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُوْمِۙ(۸۸) فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ(۸۹) (47)
ترجمہ : پھر اس نے ستاروں کوایک نگاہ دیکھا۔ تو کہا :میں بیمار ہونے والا ہوں۔
یہاں ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا ’’ اِنِّی سَقِیمٌ ‘‘کہنا اگرچہ ظاہری طور پر واقع کے خلاف ہے لیکن در حقیقت یہ خلافِ واقع نہیں کہ یہ کلام تعریض کے طور پر ہے کہ اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ میرا دل بیمار ہے یعنی اسے تمہاری طرف سے رنج وغصہ ہے اور قوم نے یہ سمجھا کہ آپ جسمانی طور پربیمار ہیں۔اس متعلق تفصیلی کلامصفحہ 336 پر ملاحظہ فرمائیں۔
قوم کی روانگی:
قوم ستاروں کی بہت معتقد تھی جس کی بنا پر وہ سمجھی کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ستاروں سے اپنے بیمار ہونے کا حال معلوم کرلیا ہے،اس لیے آپ کی بات سن کر وہ لوگ اپنی عید گاہ کی طرف روانہ ہو گئے اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کواس وجہ سےساتھ نہ لیا کہ ان کے اعتقاد کے مطابق آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی بیماری اڑ کر انہیں نہ لگ جائے۔(48)
قرآنِ پاک میں ہے:
فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِیْنَ(۹۰) (49)
ترجمہ : تو قوم کے لوگ اس سے پیٹھ پھیر کر چلے گئے۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی بت شکنی:
جب ان کے باقی ماندہ اور کمزور لوگ جو آہستہ آہستہ جا رہے تھے گزرے تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:
وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ(۵۷) (50)
ترجمہ : اور مجھے اللہ کی قسم ہے! تم پیٹھ پھیر کر جاؤ گے تو اس کے بعد میں تمہارے بتوں کی بری حالت کر دوں گا۔
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی اس بات کو بعض لوگوں نے سن لیا لیکن اس پر کوئی ردِّ عمل ظاہر نہ کیا۔ جب تمام لوگ چلے گئے تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام احتیاط کے ساتھ بت خانے کی طرف چلے، وہاں پہنچ کر مذاق اڑاتے ہوئے بتوں سے فرمایا:کیا تم وہ کھانا نہیں کھاتے جو لوگ برکت کے لئے تمہارے سامنے رکھ گئے ہیں ؟ان بتوں کی تعدادکافی زیادہ تھی،ان میں سے بعض بت پتھر کے ،بعض لکڑی کے،بعض سونے کے،بعض چاندی کے،بعض تانبے کے،بعض لوہے کے، اور بعض سیسے کے بنے ہوئے تھے،سب سے بڑا بت سونے کا بنا ہوا تھا اور اس پر جواہرات لگے ہوئے تھے۔ بتوں کی طرف سے جواب نہ ملنے پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے فرمایا:تمہیں کیا ہوا،بول کیوں نہیں رہے؟ پھربھی بتوں کی طرف سے کوئی جواب نہ آیااور وہ جواب ہی کیا دیتے کیونکہ وہ تو بے جان تھے۔ جب بتوں نے بالکل کوئی جواب نہ دیا توآپ عَلَیْہِ السَّلَام نے لوگوں سے نظر بچا کر دائیں ہاتھ میں کلہاڑا اٹھا یا اور ان بتوں کو مارنے لگے یہاں تک کہ بتوں کو پارہ پارہ کردیا ۔
قرآنِ پاک میں ہے:
فَرَاغَ اِلٰۤى اٰلِهَتِهِمْ فَقَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَۚ(۹۱) مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ(۹۲) فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًۢا بِالْیَمِیْنِ(۹۳) (51)
ترجمہ : پھر آپ ان کے خداؤں کی طرف چھپ کر چلے پھر فرمایا:کیا تم کھاتے نہیں؟ تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں؟ تو لوگوں سے نظر بچا کر دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے لگے۔
آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے چھوٹے بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اور بڑے بت کو چھوڑ دیا،پھر کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا تاکہ میلے سے واپسی پر لوگ اس سے پوچھیں کہ چھوٹے بتوں کا یہ حال کیسے ہوا ؟ یہ کیوں ٹوٹے ہیں اور کلہاڑا تیری گردن پر کیسے رکھا ہے؟ یوں اُن پر اِس بڑے بت کاعاجز ہونا ظاہر ہو اور انہیں ہوش آئے کہ ایسے عاجز خدا نہیں ہو سکتے ۔
قرآنِ کریم میں ہے:
فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ(۵۸) (52)
ترجمہ : تو ابراہیم نے ان سب کوٹکڑے ٹکڑے کردیا سوائے ان کے بڑے بت کے کہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں۔
واپسی پر قوم کا ردِّ عمل اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام سے مکالمہ:
جب شام کے وقت لو گ واپس آئے اوردستور کے مطابق بت خانے پہنچے اور بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے دیکھا تو کہنے لگے: ہمارے خداؤں کے ساتھ کس نے یہ کام کیا ہے؟ وہ یقیناًظالم ہے۔ کچھ لوگ کہنے لگے: ہم نے ایک جوان کو انہیں برا کہتے سنا تھا،اس کا نام ابراہیم ہے، ہمیں لگتاہے کہ اسی نے ایسا کیا ہو گا۔ جب یہ خبر ظالم و جابر نمرود اوراس کے وزیروں تک پہنچی تو وہ کہنے لگے: اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ ،ہو سکتا ہے کہ لوگ گواہی دیں کہ یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام ہی کا فعل ہے یا ان سے بتوں کے بارے میں ایسا کلام سنا گیا ہے ۔اس سے ان کا مقصود گواہی قائم کرنا اورآپ کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار کرنا تھا ۔ چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر پوچھا گیا:اے ابراہیم! کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس بات کا تو کوئی جواب نہ دیا البتہ سمجھانے کےلئےبہت عمدہ انداز میں حجت قائم کی اور فرمایا:اس بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑا رکھا ہے جس سے یہی قیاس کیا جا سکتاہے کہ اسی نے ان بتوں کو توڑا ہے، اس نے اس غصے سے ایسا کیا ہوگا کہ تم بڑےکے ہوتے چھوٹے بتوں کو پوجتے ہو،تم میری بجائے ان بتوں سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے ہیں تو خود بتائیں کہ ان کے ساتھ یہ کس نے کیا ؟
اس سے مقصود یہ تھا کہ قوم اس بات پرغور کرے کہ جو بول نہیں سکتا، جو کچھ کر نہیں سکتا وہ خدا نہیں ہو سکتا اور اس کی خدائی کا اعتقاد باطل ہے۔ چنانچہ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ فرمایا تو وہ غور کرنے لگے اور سمجھ گئے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام حق پر ہیں اور اپنےدل یا آپس میں کہنے لگے: بیشک تم خود ہی ظالم ہوجو ایسے مجبوروں اور بے اختیاروں کو پوجتے ہو ،جو اپنے کندھے سے کلہاڑا نہ ہٹا سکے وہ اپنے پجاری کو مصیبت سے کیا بچا سکے اور اس کے کیا کام آ سکے گا ۔(مگر اتنا سوچ لینا ایمان کے لئے کافی نہیں جب تک اقرار و اعتراف بھی نہ ہو، اس لئے وہ مشرک ہی رہے۔)(53)
حق بات سوچنے یا آپس میں کہنے کے بعد پھر ان کی بدبختی ان کے سروں پر سوار ہوئی اور وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام سے کہنے لگے : آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ بت بول نہیں سکتے تو ہم ان سے کیسے پوچھیں؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: تو کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جو انتہائی بے بس ہےاور تمہیں کوئی نفع نقصان نہیں پہنچاسکتا۔افسوس ہے تم اور تمہارے بتوں پر،کیا تمہارے اندر عقل نہیں کہ اتنی سی بات بھی سمجھ سکو کہ یہ بت کسی طرح پوجنے کے قابل نہیں۔
قرآنِ پاک میں ہے:
قَالُوْا مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۹) قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُؕ(۶۰) قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ(۶۱) قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُؕ(۶۲) قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ ﳓ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْــٴَـلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ(۶۳) فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ(۶۴) ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْۚ-لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ(۶۵) قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَضُرُّكُمْؕ(۶۶) اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۶۷) (54)
ترجمہ : کہنے لگے: کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ بیشک وہ یقیناً ظالم ہے۔ کچھ کہنے لگے: ہم نے ایک جوان کو انہیں برا کہتے ہوئے سنا ہے جس کو ابراہیم کہا جاتا ہے۔ کہنے لگے: تو اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ شاید لوگ گواہی دیں۔ انہوں نے کہا: اے ابراہیم! کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ ابراہیم نے فرمایا: بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا تو ان سے پوچھ لواگر یہ بولتے ہوں۔ تو اپنے دلوں کی طرف پلٹے اور کہنے لگے: بیشک تم خود ہی ظالم ہو۔ پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے کردئیے گئے (اور کہنے لگے کہ) تمہیں خوب معلوم ہے یہ بولتے نہیں ہیں۔ ابراہیم نے جواب دیا : تو کیا تم اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دیتا ہے اور نہ نقصان پہنچاتا ہے۔ تم پر اور اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو ان پر افسوس ہے ۔تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
یہاں بھی ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا بتوں کو توڑنے کی نسبت اپنی بجائے بتوں کی طرف کرنا ظاہری طور پر خلاف ِواقع ہے لیکن در حقیقت ایسا نہیں کیونکہ اس بات سے مقصود کفار کے سامنے بتوں کی پوجا کا غلط و باطل ہونا ثابت کرنا تھا ۔ مزید تفصیل صفحہ 337 پر ملاحظہ فرمائیں۔
آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے مزید یہ بھی فرمایاکہ کیا تم ان بتوں کی عبادت کرتے ہوجنہیں تم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہو؟ حالانکہ تمہیں اور تمہارے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور جوخالق ہے وہی در حقیقت عبادت کے لائق ہے جبکہ مخلوق کسی طرح بھی عبادت کی مستحق نہیں ۔(55)
قرآنِ پاک میں ہے:
قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَۙ(۹۵) وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ(۹۶) (56)
ترجمہ: فرمایا: کیا تم ان کی عبادت کرتے ہوجنہیں خود تراشتے ہو؟ اور اللہ نے تمہیں اور تمہارے اعمال کوپیدا کیا۔
قوم کی طرف سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو جلانے کا مشورہ:
جب وہ لوگ جواب سے عاجز آگئے تو کہنے لگے: اے لوگو!اگر تم اپنے خداؤں کی کچھ مدد کرنا چاہ رہے ہو تو ان کا انتقام لے کر ان کی مدد کرو اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو جلا دو ۔
قرآنِ پاک میں ہے:
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(۶۸) (57)
ترجمہ : بولے: ان کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تم کچھ کرنے والے ہو۔
بعض نے یہ مشورہ بھی دیا کہ
اُبْنُوْا لَهٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْهُ فِی الْجَحِیْمِ(۹۷) (58)
ترجمہ : اس کے لیے ایک عمارت بناؤپھر اسے بھڑکتی آگ میں ڈال دو۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو جلانے کی تیاری:
جب نمرود اور اس کی قوم حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو جلا ڈالنے پر متفق ہو گئی تو انہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو ایک مکان میں قید کر دیا اور کُوثٰی بستی میں پتھروں کی ایک لمبی چوڑی چاردیواری بنائی ،پھر لکڑیاں جمع کرنے لگ گئے اورسب نے جوش و خروش سے ا س میں حصہ لیا ۔جب انہوں نے کثیر تعداد میں ہر طرح کی لکڑیاں جمع کر کے آگ لگائی تو ا س کے شعلے اتنے بلند ہوئے کہ اگر اس طرف سے کوئی پرندہ گزرتا تو وہ اس کی تپش سے جل جاتا تھا۔
آگ میں ڈالتے وقت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی کیفیت:
پھر ایک منجنیق ( یعنی پتھر پھینکنے والی مشین) کھڑی کی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو باندھ کر اس میں رکھ دیا۔ اس وقت آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی زبانِ مبارک پر تھا حَسْبِیَ اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْل ، یعنی مجھے اللہ کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ جبریل ِامین عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ سے عرض کی: کیا کچھ کام ہے ؟ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: ’’تم سے نہیں۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: تو اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ سے سوال کیجئے۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:سوال کرنے کے مقابلے میں اس کا میرے حال کو جاننا میرے لئے کافی ہے۔(59)یہاں یہ بات یاد رہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا سوال نہ کرنا تفویض و تسلیم کی ایک خاص صورت تھی ورنہ ہمیں بہرحال مصیبت و بلا کے وقت دعا کرنے کا حکم ہے۔اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں : عوام مومنین ۔۔۔۔کے لیے راہ یہی ہے کہ دعا میں کبھی تقصیر(کمی) نہ کریں کہ(دعا) فی نفسہٖ عبادت بلکہ مغزِ عبادت ہے ، لہٰذا قرآن وحدیث میں مطلقاً اس کی طرف ترغیب فرمائی کہ احکامِ شرعیّہ میں کثیر غالب ہی پر لحاظ ہوتا ہے۔(60)
آخر کارجب لوگوں نے عمارت کے کنارے تک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو بلند کیا تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے سر اٹھا کر آسمان کی طر ف دیکھا،اس وقت آسمانوں ،زمینوں ،پہاڑوں اور فرشتوں نے فریاد کی:اے اللہ ! عَزَّ وَجَلَّ ، تیرے نام کو بلند کرنے کی پاداش میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو جلایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :مجھے یہ بات معلوم ہے،اگر وہ تمہیں پکارے تو تم ا س کی مدد کرنا ۔جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو عرض کی:اے اللہ ! عَزَّ وَجَلَّ ، تو واحد ہے اور میں زمین میں تنہا ہوں اور زمین میں میرے علاوہ اور کوئی بندہ ایسا نہیں جو تیری عبادت کرے۔مجھے تو ہی کافی ہے اور توبہت ہی اچھا کارساز ہے۔(61)اس کے بعد آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو آگ میں ڈال دیاگیا۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
آگ کو حکمِ الٰہی:
جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو آگ میں ڈالا گیا تورحمت ِ الٰہی کا دریا جوش میں آیا اور آگ کو حکم جاری ہوا:
یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹) (62)
ترجمہ : اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔
چنانچہ آگ کی گرمی زائل ہو گئی اور روشنی باقی رہی اور اس نے ان رسیوں کے سوا اور کچھ نہ جلایا جن سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو باندھا گیا تھا۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ’’ سَلٰمًا ‘‘نہ فرماتاتوآگ کی ٹھنڈک کی وجہ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام انتقال فرما جاتے۔(63) کفار ناکام و نامراد ہوئے اور خدا عَزَّ وَجَلَّ کی نصرت و تائید کی عظیم نشانی کا ظہور ہواچنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِیْنَۚ(۷۰) (64)
ترجمہ: اور انہوں نے ابراہیم کے ساتھ برا سلوک کرنا چاہا تو ہم نے انہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے بنادیا۔
اور ارشاد فرمایا:
فَاَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِیْنَ(۹۸) (65)
ترجمہ : تو انہوں نے اس کے ساتھ فریب کرنا چاہا توہم نے انہیں نیچا کردیا۔
قرآنِ پاک میں ہے:
فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۲۴) (66)
ترجمہ : تو اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا ۔بیشک اس میں ایمان والوں کےلئے ضرور نشانیاں ہیں۔
آگ سے باہر آنے کے بعد قوم کو نصیحت:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام جب سلامتی کے ساتھ آگ سے باہر تشریف لے آئے تو کفار کو پھر سمجھایا اور دعوت ِ توحید دی اور انجامِ آخرت سے ڈرایاچنانچہ ارشاد فرمایاکہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دوستی اور محبت رکھتے ہو اور باہم سیرت اور طریقے میں اپنے دوستوں، رشتے داروں سے جدا نہیں ہونا چاہتے اسی وجہ سے تم نے کفر و شرک کے طریقے کومضبوطی سے تھام رکھا ہے ،لیکن یادرکھوکہ تمہاری یہ دوستی اس فانی دنیاتک ہی محدود رہے گی اور قیامت میں تمہارے چھوٹے بڑے،سب ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے اور پیروکار اپنے سرداروں پر لعنت کرنے لگیں گے اور تم سب کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔
قرآن کریم میں ہے:
وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًاۙ-مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّ یَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا٘-وَّ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَۗۙ(۲۵) (67)
ترجمہ : اور ابراہیم نے فرمایا: تم نے تو دنیاوی زندگی میں اپنی آپس کی دوستی کی وجہ سے اللہ کے سوا یہ بت (معبود) بنالئے ہیں پھر قیامت کے دن تم میں ایک دوسرے کا انکار کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گااور تم سب کا ٹھکانہ جہنم ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔
حضرت لوط عَلَیْہِ السَّلَام کی تصدیق:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے آگ سے صحیح سلامت تشریف لانے کامعجزہ دیکھ کرحضرت لوط عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ کی رسالت کی تصدیق کی، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ (68)
ترجمہ : تو ابراہیم کی تصدیق لوط نے کی۔
یاد رہے کہ یہاں ایمان سے رسالت کی تصدیق ہی مراد ہے کیونکہ اصل توحیدو ایمان کا اعتقاد تو اُن کو ہمیشہ سے حاصل ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ہمیشہ ہی مومن ہوتے ہیں اور کسی حال میں ان سے کفرکا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔(69)
نمرود کو دعوتِ توحید:
کچھ عرصے بعد علاقے میں قحط پڑ گیااوراس وقت غلے کے خزانے نمرود کے قبضے میں تھے ، چنانچہ لوگ اس کے پاس جاتے اور غلہ لے آتے تھے۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام بھی تشریف لے گئے تو وہاں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی نمرود سے گفتگوہوئی۔ نمرود کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے عقائد اور دعوت کے بارے میں پہلے سے معلومات تھیں، اب جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام سامنے آئے تو پوچھنے لگا: تمہارا رب کون ہے جس کی طرف تم ہمیں بلارہے ہو؟ حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا : میرا ربّ عَزَّ وَجَلَّ وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا یعنی اجسام میں موت و حیات پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک عمدہ دلیل تھی جس میں بتایا گیا کہ خود تیری زندگی خداکے وجود کی گواہ ہے کہ تو ایک بے جان نطفہ تھا جسے اس کریم عَزَّ وَجَلَّ نے انسانی صورت دی اور حیات عطا فرمائی،پھر تیری مقررہ عمر پوری ہونے پر تجھے موت دے گا۔ اس دلیل کا جواب نمرود سے بن نہ پڑاکیونکہ اپنے عدم سے وجود میں آنے اور نطفہ سے پورا انسان بننے اور اس سارے عمل کےلئے لازمی طور پر کسی خالق کےموجود ہونے کا کیسے انکار کرسکتاتھالیکن مجمع کے سامنے شرمندگی سے بچنے کےلئے خواہ مخواہ کی بحث شروع کردی، چنانچہ نمرود نے دو شخصوں کو بلایا ان میں سے ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ میں بھی زندہ کرتا اور موت دیتا ہوں، یعنی کسی کو گرفتار کرکے چھوڑ دینا اس کوزندہ کرنا ہے۔ یہ اس کی نہایت احمقانہ بات تھی، کہاں قتل کرنا اور چھوڑنا اور کہاں موت و حیات پیدا کرنا؟ قتل کئے ہوئے شخص کو زندہ کرنے سے عاجز رہنا اورزندگی پیدا کرنے کی بجائے قاتل کو سزا نہ دینے کو ’’زندہ کرنا‘‘ کہنا ہی اس کی شکست و جہالت کے لیے کافی تھا، عقل و شعور رکھنے والوں پر اسی سے ظاہر ہوگیا کہ جو دلیل و حجت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے قائم فرمائی وہ ہر شک و شبہ کو کاٹ دینے والی ہے اور اس کا جواب ممکن نہیں لیکن چونکہ نمرود نے شرم مٹانے کیلئے کچھ نہ کچھ جواب دے ہی دیا تھا اگرچہ وہ سراسر باطل تھا لہٰذا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اس پر دوسری ایسی دلیل پیش فرمائی کہ جس کا کوئی معمولی ظاہری جواب بھی نہ دیا جاسکے کہ اے ربوبیت کے جھوٹے دعویدار! تو حیات و موت کی تخلیق سے آسان کام ہی کرکے دکھا اوروہ یہ کہ ایک متحرک جسم کی حرکت کو بدل دے یعنی سورج جو مشرق سے طلوع ہوتا ہے اسے مغرب سے طلوع کردے۔ یہ سن کر نمرود ہَکَّا بَکَّا رہ گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔
قرآن پاک میں یہ واقعہ ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَۘ-اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُۙ-قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُؕ-قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ(۲۵۸) (70)
ترجمہ : اے حبیب! کیا تم نے اس کونہ دیکھا تھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں اس بنا پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی ہے، جب ابراہیم نے فرمایا: میرا رب وہ ہے جوزندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے۔ اس نے کہا: میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔ابراہیم نے فرمایا: تو اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے پس تو اسے مغرب سے لے آ ۔ تو اس کافر کے ہوش اڑ گئے اور اللہ ظالموں کوہدایت نہیں دیتا۔
اس آیت سے عقائد میں مناظرہ کرناثابت ہوتا ہے اور یہ سنت ِ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام ہے، اکثر انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام نے اپنی قوم کے منکرین سے مناظرہ فرمایا، بلکہ خود حضور پرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی نجران کے عیسائیوں سے مناظرہ کیا، لہٰذا مناظرہ کرنا برا نہیں ہے بلکہ سنت ِ انبیاء ہے البتہ اس میں جو تکبرو سرکشی اور حق کو قبول نہ کرنے کا پہلو داخل ہوگیا ہے وہ برا ہے۔ بعض جدید لوگوں نے موجودہ مناظروں کی صورت ِ حال دیکھتے ہوئے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے مناظروں کا مطلقا ًانکار کیا ہے، یہ درست نہیں کہ موجودہ حالات کی غلطیوں سے ثابت شدہ درست بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اگر آج واعظین میں خرابیاں ہیں تو کیاانبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے وعظ کہنے کا ہی اِنکار کردیا جائے؟
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو عطائے رزق:
مناظرے کے بعد بدبخت نمرود نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو غلہ نہ دیا،چنانچہ آپ خالی ہاتھ واپس آئے اور گھر کے قریب پہنچ کر دو بوریوں میں ریت بھر لی تاکہ گھر والے سمجھیں کہ کچھ لے کر آئے ہیں، گھر آتے ہی بوریاں رکھ کر سو گئے،اس دوران حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اٹھیں اور بوریوں کو کھولا تو دیکھا کہ دونوں عمدہ اناج سے بھری ہوئی ہیں۔آپ نے کچھ اناج لے کر کھانا تیار کیا اور جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام بیدار ہوئے تو دیکھا کہ کھانا تیار ہے۔پوچھا: اناج کہاں سے آیا؟ عرض کی :آپ جو دو بوریاں بھر کر لائے ہیں، انہیں میں سے یہ اناج نکالا تھا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام سمجھ گئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رزق ہے۔(71)
بھوکے شیروں کی طرف سے تعظیمِ ابراہیمی:
حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں :ایک بار ( کفار کی طرف سے) آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر دو بھوکے شیر چھوڑ دئیے گئے ۔ان شیروں نے جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھاتو ان کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا اور آپ کے قدمین شریفین چاٹنے لگے۔(72)
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی ہجرت:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے آگ سے صحیح سلامت تشریف لانے ،اتناعظیم الشان معجزہ دیکھنے اوراس کے بعد مزید تبلیغ و نصیحت کے باوجود بھی جب آپ کی قوم بادشاہ کے ڈر اور اپنے باپ دادا کی اندھی جاہلانہ تقلید کی وجہ سے ایمان نہ لائی اورکفروشرک پربضدرہی توآپ نے اس جگہ سے ہجرت کرنے کاارادہ فرمایا اوراپنے اہلِ خانہ کو ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:میں اس مقامِ کفر سے ہجرت کرکے وہاں چلے جاؤں گا جہاں جانے کا میرا رب عَزَّ وَجَلَّ حکم دے، اب وہ میری رہنمائی فرمائے گا۔
قرآنِ پاک میں ہے:
قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۲۶) (73)
ترجمہ : ابراہیم نے فرمایا: میں اپنے رب کی (سرزمین شام کی)طرف ہجرت کرنے والا ہوں، بیشک وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(۹۹) (74)
ترجمہ : اور ابراہیم نے کہا: بیشک میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں،اب وہ مجھے راہ دکھائے گا ۔
چنانچہ آپ نے عراق سے سرزمین ِشام کی طرف ہجرت فرمائی ،اس ہجرت میں آپ کے ساتھ آپ کی بیوی حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اور بھتیجے حضرت لوط عَلَیْہِ السَّلَام تھے۔(75)
اس سے معلوم ہو اکہ بوقت ِ حاجت ہجرت کرنا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سنت ہے۔ اورایسی جگہ چلا جانا جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں کوئی روک ٹوک نہ ہو، دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف جانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جگہ سے پاک ہے تو ا س کے حق میں یہاں وہاں سب برابر ہے۔
نمرود اور اس کی قوم کی ہلاکت:
قرآنِ پاک میں ان کی ہلاکت کا اجمالی ذکر ہے ،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ﳔ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ-اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۷۰) (76)
ترجمہ : کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں(یعنی) قومِ نوح اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراہیم اور مدین اور الٹ جانے والی بستیوں کے مکینوں کی خبر نہ آئی ؟ ان کے پاس بہت سے رسول روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے۔
اس آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم سے نمرود اور اس کے ساتھی مراد ہیں ۔اِس قوم کی ہلاکت کے بارے میں تفاسیر میں معروف قول یہ ہے اللہ تعالیٰ نے اِن پر مچھربھیجے جنہوں نے ان سب کا خون پی لیا اور گوشت پوست سب کھا گئے،صرف ان کی ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا۔ انہی مچھروں میں سے ایک مچھر نمرود کے نتھنے میں گھس گیا اورعرصہ دراز تک اسے تکلیف و عذاب پہنچا کر اس کی ہلاکت کا سبب بنا۔ (77)
متعلقات
یہاں اس باب سے متعلق دواہم باتیں ملاحظہ ہوں:
آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا باپ تھا یا چچا؟
قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے والد کوتوحید کی دعوت دی ،اسے بت پرستی سے منع کیا اور سورۂ اَنعام کی آیت نمبر 74 میں اس کا نام آزر بھی مذکور ہے۔ اب حل طلب معاملہ یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا حقیقی باپ تھا یا نہیں، چنانچہ اس کے بارے مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں، بعض کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا حقیقی باپ تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے والد کا نام تارخ اور لقب آزر ہے۔بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی قومی زبان میں ان کے باپ کا نام تارخ تھا اور دوسری زبانوں میں تارخ کو آزر بولا جاتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے باپ کا نام نہیں بلکہ قوم کے بڑے بت کا نام تھا اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا جبکہ آزر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے چچا کا نام تھا اور بڑوں کی یہ عادت معروف تھی کہ وہ چچا کو باپ کہہ کر پکارتے تھے۔
ان تمام اقوال میں یہ آخری بات ہی درست ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا حقیقی باپ نہیں بلکہ چچا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیثِ پاک سے ثابت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نور پاک لوگوں کی پشتوں سے پاک عورتوں کے رحموں کی طرف منتقل ہوا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام چونکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آباؤ اَجداد سے ہیں اس لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے حقیقی والد کفرو شرک کی نجاست سے آلودہ نہیں ہو سکتے ۔ علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی فرماتے ہیں:علماءِ اہلسنّت میں سے ایک جَمِّ غفیر کی رائے یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا والد نہ تھا کیونکہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آباؤ اجداد میں کوئی کافر نہ تھا، جیساکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے کہ’’ میں ابتداہی سے آخر تک پاک لوگوں کی پشتوں سے پاک خواتین کے رحموں میں منتقل ہوتا چلا آیا ہوں‘‘ جبکہ مشرک تونَجَس ہیں اورامام رازی کایہ کہنا کہ یہ شیعہ کامذہب ہے درست نہیں۔ امام رازی نے اچھی طرح چھان بین نہیں کی اس لیے ان سے یہ غلطی ہوگئی۔ علماءِ اہلسنّت کی اکثریت کاقول یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے چچا کا نام ہے اور ’’ اَبْ ‘‘ کا لفظ چچا کے معنی میں عام استعمال ہوتا ہے۔(78)
صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں : قاموس میں ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے چچا کانام ہے۔امام علامہ جلال الدین سیوطی() نے ’’ مَسَالِکُ الْحُنَفَاءُ ‘‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں، قرآنِ کریم میں ہے (جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے) ’’ نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ‘‘ اس میں حضرت اسماعیل ( عَلَیْہِ السَّلَام ) کوحضرت یعقوب( عَلَیْہِ السَّلَام )کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے باوجودیکہ آپ عَم (یعنی چچا) ہیں۔ حدیث شریف میں بھی حضرت سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ کواَبْ (یعنی باپ) فرمایا، چنانچہ ارشاد کیا ’’ رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ ‘‘ اور یہاں اَبِیْ سے حضرت عباس( رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) مراد ہیں۔(79)
لہٰذا ثابت ہوا کہ آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے باپ (آزر) سے ان کا چچا مراد ہے حقیقی والد مراد نہیں ہیں۔
ہر شخص مناظرہ نہ کرے:
عقائد و نظریات میں مناظرہ کرنے کا جواز تو قرآن و حدیث اور ائمہ دین کے اقوال و تعامل سے ثابت ہے لیکن یہ کوئی اتناآسان کام نہیں کہ جو چاہے ، جب چاہے اور جہاں چاہے کرنا شروع کر دے بلکہ اس کے لئے بہت زیادہ علم،مضبوط حافظہ، مہارت،تربیت،حاضر جوابی اور دیگر کئی چیزوں کا ہونا ضروری ہے جن کے بغیر مناظرہ کرنا انتہائی سخت جرأت اور اپنی گمراہی اور اخروی بربادی سے بے خوفی کی علامت ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ جس سے مناظرہ کر رہا ہے اس کی کوئی بات دل میں جم جائے اور یہ گمراہ ہو جائے ۔لہٰذا علم ِ مناظرہ کے ماہر علماء کے علاوہ کسی کو بھی مناظرہ کی اجازت نہیں۔ آج کل جو عام لوگ ایک آدھ کتاب پڑھ کر یا دو چار تقریریں یا مناظرے سن کر ہر راہ چلتے سے مناظرہ شروع کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں یہ طرزِ عمل انتہائی خطرناک ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔ عوام کو کسی بھی صورت مناظرے اور بحث و مباحثے کی اجازت نہیں، صرف اپنا اچھی طرح سمجھا اور یاد کیا ہوا عقیدہ بیان کرسکتے ہیں۔عوام پر لازم ہے کہ اپنے عقائدکو صحیح رکھیں اور بحث کی جگہ پر معاملہ علماء کے حوالے کردیں۔ پھر علماء کو بھی ہدایت یہ ہے کہ کسی اہم مقصد و فائدہ کے بغیر بلا ضرورت مناظرے کے میدان میں جانے سے گریز کریں جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان فرماتے ہیں ’’ جو تمام فنون کا ماہر ہو، تمام پیچ جانتا ہو، پوری طاقت رکھتا ہو، تمام ہتھیار پاس ہوں اس کو بھی کیا ضرور کہ خواہ مخواہ بھیڑیوں کے جنگل میں جائے ،ہاں اگر(اس ماہر عالم کو) ضرورت ہی آپڑے تو مجبوری ہے۔ اللہ ( عَزَّ وَجَلَّ )پر توکُّل کرکے ان ہتھیاروں سے کام لے۔(80)
درس و نصیحت
اس باب میں ہمارے لیے درس و نصیحت کے بہت سے پہلو موجود ہیں ہے، جیسےچھوٹوں سے حصول ِعلم میں عار نہ محسوس کی جائے:حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی عمر اپنے چچا آزر سے کم تھی لیکن چچا پر فرض تھا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لائے، سیکھے اور عمل کرے کہ دین میں پیروی علم کی وجہ سے کی جاتی ہے، عمر کی وجہ سے نہیں۔لہٰذا اگر کوئی عمر میں چھوٹا ہے لیکن وہ دین کا علم رکھتا ہو تو اس سے علمِ دین سیکھنے میں شرم و عار محسوس نہیں کرنی چاہئےخواہ وہ اپنا بیٹا یا بھانجا، بھتیجا ہو۔
اہلِ خانہ اوررشتہ داروں کو تبلیغ کی جائے :حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے چچا کو بار بار تبلیغ فرمائی اور یہی عمل نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بھی ثابت ہے لہٰذا اپنے اہلِ خانہ یا عزیز رشتہ داروں میں سے جو لوگ احکامِ الٰہی پر عمل نہیں کرتے یا عمل کرنے میں سستی کرتے ہوں، انہیں احسن انداز میں نیکی کی دعوت دی جائے۔
مبلغ کو نرم مزاج ہونا چاہئے:مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ نرم مزاج اور اچھے اَخلاق والا ہو کیونکہ عام طور پر جو بات سختی سے کہی جاتی ہے ، سننے والا اس سے منہ پھیر لیتا ہے البتہ جہاں سختی کا موقع ہو وہاں اُسی کو بروئے کار لایا جائے۔
جنت کی دعا مانگنا سنتِ انبیاء ہے: اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن جنت ملنے کی دعا کرنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی سنت ہے۔ حدیث پاک میں بھی جنت الفردوس کی دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
خاندانی رسم و رواج کی بجائے ہمیشہ شریعت کی پیروی کی جائے: باپ دادا جو کام شریعت کے خلاف کرتے رہے ہوں، اُن کاموں کو کرنا اور ان کے کرنے پر اپنے باپ دادا کے عمل کو دلیل بنانا کفار کاطریقہ ہے ،مسلمانوں کو بہر حال اس سے بچنا چاہئے۔
1… ابن کثیر، البقرة، تحت الاٰیة:۲۵۸، ۱/۵۲۵.
2…ملفوظات اعلیٰ حضرت،ص۴۴۳.
3…پ۷، الانعام:۷۴.
4…پ۷، الانعام:۷۶.
5… پ۷، الانعام:۷۷.
6…پ۷، الانعام: ۷۸.
7… پ۷، الانعام:۷۹.
8…پ۷، الانعام:۸۰.
9…پ۷، الانعام:۸۱.
10…پ۱۶، مریم:۴۲.
11… پ۱۶، مریم:۴۳.
12…پ۱۶، مریم:۴۴.
13… پ۱۶، مریم: ۴۵.
14… پ۱۶، مریم:۴۶.
15…پ۱۶، مریم:۴۷.
16… خازن، مریم، تحت الاٰیة:۴۸، ۳/۲۳۷، ملخصاً.
17… پ۱۶، مریم:۴۸.
18…پ۱۹، الشعراء:۷۰.
19… پ۱۹، الشعراء: ۷۱.
20… پ۱۹، الشعراء:۷۲، ۷۳.
21… پ۱۹، الشعراء: ۷۴.
22…پ۱۹، الشعراء:۷۵، ۷۶.
23… پ۱۹، الشعراء:۷۷-۸۱.
24…پ۱۹، الشعراء: ۸۲.
25… پ۱۹، الشعراء:۸۳.
26… پ۱، البقرة:۱۳۰.
27… مدارک، الشعراء، تحت الاٰیة:۸۴، ص۸۲۳، ملخصاً.
28… پ۱۹، الشعراء:۸۴.
29…پ۱۹، الشعراء:۸۵.
30… پ۱۹، الشعراء:۸۶.
31… پ۱۱، التوبة:۱۱۴.
32… جلالین، الشعراء، تحت الاٰیة:۸۶، ص۳۱۲، ۳۱۳، مدارک، الشعراء، تحت الاٰیة:۸۶، ص۸۲۳، ملخصاً.
33…پ۱۹، الشعراء: ۸۷-۸۹.
34… پ۱۷، الانبیاء: ۵۲.
35… پ۱۷، الانبیاء:۵۳.
36… پ۱۷، الانبیاء:۵۴.
37…پ۷، المائدة:۱۰۰.
38… پ۱۷، الانبیاء:۵۵ .
39… پ۱۷، الانبیاء: ۵۶.
40…پ۶، المائدة:۴۵.
41…پ۶، المائدة:۴۷.
42… پ۶، المائدة:۴۴.
43…پ۲۰، العنکبوت:۱۶-۱۸.
44…پ۲۰، العنکبوت:۲۴.
45… پ۲۳، الصافات:۸۵-۸۷.
46… روح البیان، الصافات، تحت الاٰیة:۸۵-۸۷، ۷/۴۶۹، ملتقطاً.
47… پ۲۳، الصافات: ۸۸، ۸۹.
48… روح البیان، الصافات، تحت الاٰیة:۹۰، ۷/۴۷۰، خازن، والصافات، تحت الاٰیة:۸۹، ۹۰، ۴/۲۰، ملتقطاً.
49…پ۲۳، الصافات: ۹۰.
50…پ۱۷، الانبیاء:۵۷.
51…پ۲۳، الصافات:۹۱-۹۳.
52… پ۱۷، الانبیاء:۵۸.
53… خازن، الانبیاء، تحت الاٰیة:۵۷-۶۴، ۳/۲۸۰، ۲۸۱، مدارک، الانبیاء، تحت الاٰیة:۵۷-۶۴، ص۷۱۹، ۷۲۰، ملخصاً.
54…پ۱۷، الانبیاء:۵۹-۶۷.
55… روح البیان، الصافات، تحت الاٰیة:۹۵، ۹۶، ۷/۴۷۱.
56… پ۲۳، الصافات:۹۵، ۹۶.
57…پ۱۷، الانبیاء:۶۸.
58… پ۲۳، الصافات: ۹۷.
59… مدارک، الانبیاء، تحت الاٰیة:۶۸، ص۷۲۱.
60… فضائل دعا، ص۲۳۷، ملتقطاً۔
61…در منثور، الصافات، تحت الاٰیة:۹۷، ۷/۱۰۲.
62… پ۱۷، الانبیاء:۶۹.
63…خازن، الانبیاء، تحت الاٰیة:۶۹، ۳/۲۸۲.
64… پ۱۷، الانبیاء:۷۰.
65…پ۲۳، الصافات:۹۸.
66… پ۲۰، العنکبوت:۲۴.
67… پ۲۰، العنکبوت:۲۵.
68…پ۲۰، العنکبوت:۲۶.
69… خازن، العنکبوت، تحت الاٰیة:۲۶، ۳/۴۴۹.
70…پ۳،البقرة:۲۵۸.
71… ابن کثیر، البقرة، تحت الاٰیة:۲۵۸، ۱/۵۲۶، ملخصاً.
72… مصنف ابن ابی شیبة، کتاب الفضائل، باب ما ذکر مما اعطی اللہ...الخ، ۱۶/۵۲۴، حدیث: ۳۲۴۸۱.
73…پ۲۰، العنکبوت:۲۶.
74… پ۲۳، الصافات:۹۹.
75… خازن، العنکبوت، تحت الاٰیة:۲۶، ۳/۴۴۹.
76… پ۱۰، التوبة:۷۰.
77… ابن کثیر، البقرة، تحت الاٰیة:۲۵۸، ۱/۵۲۶، ملخصاً.
78… روح المعانی، الانعام، تحت الاٰیة:۷۴، ۴/۲۵۳، ملخصاً.
79… خزائن العرفان، الانعام، تحت الاٰیۃ:۷۴، ص۲۶۱۔
80…ملفوظات اعلی حضرت، ص۴۳۴۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع