30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام
قومِ عاد کی ہلاکت کے بعد قومِ ثمود ان کے قائم مقام ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی طویل عمریں اور کثیر نعمتیں عطا فرمائی تھیں ،لیکن یہ بھی آخر کار اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اورکفر و شرک میں مبتلا ہو گئے ۔ ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نےحضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو رسول بنا کربھیجا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں توحید کو ماننے،صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنےاوربتوں کی پوجا چھوڑ دینے کی دعوت دی تو چند لوگ ایمان لے آئے اور اکثریت کفر و شرک پر ہی قائم رہی۔قوم کے مطالبے پرحضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام نے اونٹنی کی صورت میں معجزہ بھی دکھایالیکن وہ لوگ ایمان نہ لائے ۔حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں اونٹنی سے متعلق چند احکامات دئیے جن سے کچھ عرصے بعد قوم نے روگردانی کر لی اور موقع پا کر اونٹنی کو قتل کر دیا۔پھر ایک گروہ نے حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے گھر پر حملہ کر کے انہیں شہید کرنے کی سازش کی تو نتیجے میں وہ سازشی گروہ عذاب الٰہی سے ہلاک ہوگیاجبکہ بقیہ منکرین تین دن کے بعد عذاب الٰہی کا شکار ہوئے ۔
قرآن و حدیث میں حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کی قوم کے احوال اجمالی اور تفصیلی دونوں طرح مذکورہیں جنہیں ہم نے یہاں5 ابواب میں تقسیم کر کے بیان کیا ہے ۔
باب:1
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے واقعات کے قرآنی مقامات
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام اوران کی قوم ثمود کا اجمالی ذکر قرآن مجید کی متعدد سورتوں میں ہے جبکہ تفصیلی ذکر ان سات سورتوں میں ہے۔
(1) سورۂ اعراف ،آیت:73تا79۔ (2) سورۂ ہود ،آیت:61تا68۔ (3) سورۂ حجر ،آیت:80 تا84۔(4) سورۂ شعراء ،آیت:141تا159۔ (5) سورۂ نمل ،آیت:45 تا53۔ (6) سورۂ قمر ،آیت:23 تا 32۔(7) سورۂ شمس ،آیت:11 تا15۔
باب2:
قوم ثمود اور حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا تعارف
قومِ ثمود کاپس منظر:
’’ ثمود‘‘عرب کےایک قبیلہ کا نام ہے۔ایک قول کے مطابق یہ نام ان کے جدِ اعلیٰ ثمود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی نسبت سے رکھا گیاتھا۔انہیں’’عادِ ثانیہ‘‘بھی کہا جاتا ہے ۔قرآنِ مجید میں ہے:
وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَاﰳ الْاُوْلٰىۙ(۵۰) وَ ثَمُوْدَاۡ فَمَاۤ اَبْقٰىۙ(۵۱) (1)
ترجمہ :اور یہ کہ اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا۔ اور ثمود کو تو اس نے (کسی کو)باقی نہ چھوڑا۔
لیکن یہ’’قومِ ثمود‘‘اور’’آلِ ثمود‘‘ کے نام سے زیادہ معروف ہیں۔رشتے میں یہ لوگ قومِ عاد کے چچا زاد تھے۔
قومِ ثمود کا مسکن:
قبیلۂ ثمود کے لوگ حجاز و شام کے درمیان سرزمین حِجْر میں آبادتھے۔حضور پر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سفرِ تبوک کے دوران صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے ساتھ یہاں سے گزرے تھے،اس کا تفصیلی ذکر اِنْ شَاءَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ پانچویں باب میں آئے گا۔
قومِ ثمود کی خوشحالی اور حیر ت انگیز ہنر مندی:
اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو انتہائی زرخیز زمین عطا کی تھی جس کی وجہ سے ان کی فصلیں خوب ہوتیں اورباغات سر سبز وشاداب اور میووں سے بھرے ہوتےتھے۔فنِ تعمیر میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا،سنگلاخ پہاڑوں اور پتھریلی چٹانوں کو تراش کر نہایت خوبصورت ،روشن ، ہوا دار،مضبوط اور بلند و بالا مکانات بنا لینا ان کےتعمیراتی ہنر و کمال کا منہ بولتا ثبوت تھا۔آج بھی عرب شریف میں ان کی بستیوں اور تعمیر کردہ مکانات کے آثار موجود ہیں جنہیں’’مدائنِ صالح‘‘ کہا جاتا ہے،اس جگہ کی حالت واقعی عبرت کامنظر پیش کرتی ہے۔
قومِ ثمود کی عملی حالت:
آلِ ثمود اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے اوراسی کے عبادت گزار بندے تھے ،نیزقومِ عاد کا عبرتناک انجام بھی ان کے پیش نظر تھاجس سے ڈر کریہ لوگ خدا کی نافرمانی سے بہت بچتے تھے،لیکن گزرتے وقت اور نعمتوں کے بہتات کے ساتھ جہاں ان میں غفلت وجہالت بڑھی وہیں یہ لوگ کفر و شرک کی نحوست کا بھی شکار ہوئے ،چنانچہ ایک عرصے بعدکچھ لوگوں نے پتھروں کی تراش خراش کر کے عجیب و غریب شکلوں کے بت بنائے ،پھرمختلف نام رکھ کر انہیں خدا کا شریک ٹھہرایا اور عبادتِ الٰہی چھوڑ کران بتوں کی پوجا میں مشغول ہو گئے ، رفتہ رفتہ انہی کی پیروی میں چند افراد کے علاوہ پوری قوم نے اس دلدل میں چھلانگ لگا دی۔
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کانسب نامہ:
ایک عرصے تک قوم ثمودسرکشی و گمراہی کی دلدل میں دھنستی رہی ،پھر اللہ ربُّ العزّت نے انہیں اس سے نجات دلانے اور راہِ ہدایت پر گامزن کرنے کے لیے ایک عظیم ہستی حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو رسول بنا کر ان کی طرف بھیجا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کےپوتے اِرم کی اولاد میں سے تھے،جیسا کہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا نسب نامہ بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں،’’صالح بن عبید بن آسف بن كاشح بن عبید بن حاذر بن ثمودبن عاد(بن عوص)بن ارم بن سام بن حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام ‘‘مزید لکھتے ہیں : حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام حسب و نسب دونوں اعتبار سے اپنی قوم میں سب سے بہتر اور افضل تھے۔(2)
اوصاف:
قرآن پاک میں حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے اوصاف آپ کی مبارک زبان سے ہی یوں بیان فرمائے ہیں، اعلانِ رسالت کے وقت آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:
اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۲۵) (3)
ترجمہ : بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں۔
اپنے اوصاف کے بیان میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام نےخلوص وللہیت کو بھی بیان فرمایا:
مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۴۵) (4)
ترجمہ : میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
تفسیر کبیر میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم میں سب سے زیادہ ذہین ،انتہائی فہم و فراست والے،فراخ دل اور بڑے حوصلہ مند شخص تھے ۔یونہی غریب و نادار لوگوں کی مالی امدادکرنا اور بیماروں کی عیادت و خدمت کرنا آپ عَلَیْہِ السَّلَام کاعام معمول تھا۔ (5)
نوٹ:آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے حج کا ذکر اس سے پہلے حضرت ہود عَلَیْہِ السَّلَام کے سفرِ حج کے ذکر میں گزر چکا ہے ۔
باب:03
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت و تبلیغ
غفلت و جہالت،کفر وشرک اور بت پرستی کے بیابان میں بھٹکنے والی قوم ِ ثمودکی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نےحضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو رسول بنا کربھیجا۔ چنانچہ سورۂ اعراف میں ہے:
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ- (6)
ترجمہ : اور قومِ ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔
اس کے علاوہ سورۂ ہود آیت 61 اور سورۂ نمل ،آیت 45 میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔
قوم کوعبادتِ الٰہی اور توبہ واستغفار کی دعوت:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم کو وحدانیتِ باری تعالیٰ پر ایمان لانے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور فرمایا :
یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(۶۱) (7)
ترجمہ : اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اسی میں تمہیں آباد کیا تو اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو ۔ بیشک میرا رب قریب ہے ،دعا سننے والا ہے۔
قوم کا جواب:
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت سن کرقوم نے کہا:
یٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هٰذَاۤ اَتَنْهٰىنَاۤ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ(۶۲) (8)
ترجمہ : اے صالح! اس سے پہلے تم ہمارے درمیان ایسے تھے کہ تم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ کیا تم ہمیں اُن کی عبادت کرنے سے منع کرتے ہو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے اور بیشک جس کی طرف تم ہمیں بلارہے ہو اس کی طرف سے تو ہم بڑے دھوکے میں ڈالنے والے شک میں ہیں۔
یعنی اے صا لح! عَلَیْہِ السَّلَام ، اس تبلیغ سے پہلے ہمیں تم سے بڑی امید یں وابستہ تھیں کہ تم اپنی وجاہت و لیاقت اور لوگوں کی خیرخواہی کے سبب ہمارے لیے سرمایۂ افتخاراور قوم کے سردار بنو گے،لیکن افسوس!تمہاری باتیں سن کرہماری امیدیں خاک میں مل گئی ہیں ۔تم ہمیں ان بتوں کی پوجا سے مت روکو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتےچلے آئے ہیں اور جس توحید کی طرف تم ہمیں بلارہے ہو یہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا جواب:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم کو سمجھاتے ہوئے فرمایا:
یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ عَصَیْتُهٗ- فَمَا تَزِیْدُوْنَنِیْ غَیْرَ تَخْسِیْرٍ(۶۳) (9)
ترجمہ : اے میری قوم! بھلا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت عطا فرمائی ہو تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو مجھے اس سے کون بچائے گا ؟ تم نقصان پہنچانے کے سوا میرا کچھ اور نہیں بڑھاؤ گے۔
یعنی اے میری قوم!تم مجھے دعوتِ توحید دینے اور بت پرستی سے منع کرنے پر روک رہے ہو،لیکن حقیقت ِ حال یہ ہے کہ میرے پاس تو اللہ تعالیٰ کی عطا سے اس کی وحدانیت کے قطعی دلائل موجود ہیں، نیز اس نے مجھے منصب ِ رسالت سے نوازا ہوا ہے، لہٰذا دعوت ِ توحید دینا تومیری ذمہ داری ہے، اب اگربالفرض تمہاری بات مان کر میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی کروں، توحید کو چھوڑوں یا دعوت ِ توحید کے فریضے کو،تو مجھے عذابِ الہی سے کون بچائے گا؟کیونکہ جب حق واضح ہے، دلائل موجودہیں اور حکم ِ الٰہی مجھے مل چکا ہے تو دیدہ دانستہ نافرمانی کرنے پر تو جرم کی شدت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، لہٰذا تمہارا مشورہ تو میرے لئے سراسر خسارہ ہی خسارہ ہے۔
یاد رہے کہ جاہل کی جہالت سے اس کا گناہ معاف نہیں ہوتا بلکہ وہ گناہ گار ہی قرار پاتا ہے لیکن علم کے باوجود گناہ کرنے میں بے باکی و دیدہ دلیری کا معنیٰ بھی پایا جاتا ہے جس سے گناہ کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے ، اسی لئے علماء کا گناہوں کا اِرتکاب کرنا زیادہ غضب ِ الہٰی کا سبب ہے۔
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا قوم کو انعاماتِ الٰہیہ یاد کرانا:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کربھی سمجھایا کہ اپنے اوپر خدا کی نعمتوں کی فراوانی دیکھو اور اپنا عمل دیکھو۔ ناشکری کے راستے پرچل کر فسادی مت بنو،بلکہ خدا کی نعمتوں کو یاد کرکے اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرو،چنانچہ فرمایا:
وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۷۴) (10)
ترجمہ : اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ عاد کے بعد جانشین بنایا اور اس نے تمہیں زمین میں ٹھکانہ دیا ، تم نرم زمین میں محلات بناتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے تھے تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت و نصیحت سن کرلوگ آپس میں اختلاف کرکے دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے، ایک گروہ حق و صداقت کو قبول کرنے والوں کا جو حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لے آیا اورایک گروہ اپنی جہالت و ضلالت پر ڈٹے رہنے والوں کا ۔
قرآن پاک میں ہے:
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ(۴۵) (11)
ترجمہ : اور بیشک ہم نے ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا کہ (اے لوگو!) اللہ کی عبادت کرو تو اسی وقت وہ جھگڑا کرتے ہوئے دو گروہ بن گئے۔
متکبر سرداروں اور کمزور مسلمانوں میں مکالمہ:
مومنین کا گروہ غریبوں پر مشتمل تھا جبکہ منکرین میں قوم کے سردار شامل تھے۔ کافر سرداروں کا غریب مسلمانوں سے مکالمہ قرآن پاک میں یوں مذکور ہے:
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(۷۵) قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِیْۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(۷۶) (12)
ترجمہ: اس کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کا رسول ہے؟ انہوں نے کہا: بیشک ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جس کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہے۔متکبر بولے : بیشک ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں جس پر تم ایمان لائے ہو۔
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا خلوص وللہیت:
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم سے یہ بھی فرمایا:
وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۴۵) (13)
ترجمہ : اور میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
قوم کی غفلت پر تنبیہ:
مال و دولت کی فراوانی، سہولتوں کی کثرت، دنیوی نعمتوں کی بہتات، آسودہ زندگی،خوبصورت باغات، عیش و مستی کے شب و روز، کھانے پینے کی لذتیں، اور امن و امان کے سائے اکثر و بیشتر انسان کو غفلت کا شکار کردیتے ہیں اور اپنی آنکھوں کے سامنے جنازے اٹھتے دیکھ کر بھی انسان خواب ِ غفلت سے بیدار نہیں ہوتا بلکہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ زندگی دائمی ہے اور مجھے کبھی نہیں مرنا، حالانکہ بچپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپا یہ سب وہ چیزیں ہیں جو زندگی کی حقیقت آشکار کرنے کےلئے کافی ہیں۔ قوم ِ ثمود بھی ایسی ہی غفلت کا شکار تھی جس پر حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام نےانہیں جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا:
اَتُتْرَكُوْنَ فِیْ مَا هٰهُنَاۤ اٰمِنِیْنَۙ(۱۴۶) فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۱۴۷) وَّ زُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِیْمٌۚ(۱۴۸) (14)
ترجمہ : کیا تم یہاں (دنیا)کی نعمتوں میں امن و امان کی حالت میں چھوڑ دیئے جاؤ گے؟ باغوں اور چشموں میں۔ اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کا شگوفہ نرم ونازک ہوتاہے۔
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم سے یہ بھی فرمایا:
وَ تَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِهِیْنَۚ(۱۴۹) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۵۰) وَ لَا تُطِیْعُوْۤا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۵۱) الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یُصْلِحُوْنَ(۱۵۲) (15)
ترجمہ : اور تم بڑی مہارت دکھاتے ہوئے پہاڑوں میں سے گھر تراشتے ہو۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔اور حد سے بڑھنے والوں کے کہنے پر نہ چلو۔ وہ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔
قوم کو عذابِ الٰہی سے ڈرا نا اور ان کا عذاب کامطالبہ کرنا:
قوم ثمود کو حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام نےتکذیب و اِنکار کرنے پر عذاب الہٰی سے ڈرایا،اور ایمان و اطاعت کی دعوت دی چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے:
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۴۱) اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۴۲) اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۴۳) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۴۴) (16)
ترجمہ : قومِ ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔ جب ان سے ان کے ہم قوم صا لح نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں؟ بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
عذاب الٰہی کی بات سن کرقوم نے کہا :اے صالح ! عَلَیْہِ السَّلَام ،اگر تم واقعی رسول ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو ۔اس پرآپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے فرمایا:
یٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِۚ-لَوْ لَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۴۶) (17)
ترجمہ : اے میری قوم! بھلائی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں کرتے ہو؟تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ ہوسکتا ہے تم پر رحم کیا جائے۔
قوم کا یہ طرز ِ عمل بتاتا ہے کہ جب باطل دلوں میں رَچ بس جائے، قبولِ حق کی طرف دل کی اصلاً رغبت نہ ہو، دل پر گناہوں کا زنگ چڑھ گیا ہو، حق اور اہل ِ حق کا بغض و کینہ اور عداوت کی پٹی آنکھوں پر بندھ جائے تو سامنے کی واضح بات قبول کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے اور سرکشی اُس انتہا کو پہنچ جاتی ہے کہ آدمی خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ یہاں تو کفار کی بات ہورہی ہے جو ایمان ہی نہیں رکھتے، عذاب ِ الٰہی اور جہنم کو تسلیم ہی نہیں کرتے، ان کی طرف سے ایسی جہالت کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن حیرت تو اُن مسلمانوں پر ہوتی ہے جو خدا اور اس کی قدرت پر ایمان رکھنے اور آخرت و جنت و جہنم کو ماننے کے باوجود گناہوں پر جری ہیں اور صریح وعیدیں دل و دماغ میں موجود ہونے کے باوجود گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دلوں کی سختی اور دلوں پر زنگ چڑھنا کیسی سخت آفت ہے۔
قوم ِ ثمود کا حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو جواب:
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلانے کے سبب قوم ثمود کے علاقوں میں ایک عرصے تک بارش نہ ہوئی جس سے یہ لوگ قحط میں مبتلا ہوئے اور بھوکے مرنے لگے ۔ان مصائب کو انہوں نے حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف منسوب کیا اور بد شگونی لیتے ہوئے کہاکہ ( معاذ اللہ ) ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے فرمایا کہ تمہیں جو بھلائی اور برائی پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور تمہاری تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور اس کے ذریعے تمہیں آزمایا جا رہا ہے ۔
قرآنِ مجیدمیں ہے:
قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَؕ-قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ(۴۷) (18)
ترجمہ : انہوں نے کہا:ہم نے تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے برا شگون لیا۔صالح نے فرمایا: تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم ایک ایسی قوم ہو کہ تمہیں آزمایا جارہا ہے۔
بد شگونی لینا اور اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو کسی شے کی نحوست جاننا درست نہیں ۔
قوم کا ایک اور جاہلانہ جواب اورمعجزے کا مطالبہ:
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی نصیحتیں قبول کرنے کی بجائے لوگوں نے یہ کہہ دیا:
اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَۚ(۱۵۳) مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۚۖ-فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۵۴)(19)
ترجمہ: تم ان میں سے ہو جن پر جادو ہوا ہے ۔ تم تو ہم جیسے ہی ایک آدمی ہو، اگرتم سچے ہو تو کوئی نشانی لاؤ۔
قوم نے مزید یہ بھی کہا کہ ہم اپنے ہی ایک آدمی کے کس طرح تابع ہوجائیں حالانکہ ہماری تعداد بہت زیادہ جبکہ وہ اکیلا ہے،اگر ہم اس کی پیروی کریں تو یہ ہماری گمراہی اور دیوانگی ہوگی۔
قرآن کریم میں ہے:
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ(۲۳) فَقَالُوْۤا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ(۲۴) (20)
ترجمہ : ثمود نے ڈر سنانے والوں (رسولوں) کو جھٹلایا۔ تو انہوں نے کہا:کیا ہم اپنے میں سے ہی ایک آدمی کی تابعداری کریں جب تو ہم ضرور گمراہی اور دیوانگی میں ہیں۔
یاد رہے کہ قوم ثمود نے اگرچہ صرف حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلایا تھا مگرچونکہ ایک نبی کا انکار سارے نبیوں کا انکار شمار ہوتا ہے کیونکہ سب کا عقیدہ ایک ہی ہے اس لئے یہاں آیت میں جمع کا صیغہ ’’ اَلنُّذُرْ ‘‘ ذکر کیا گیا۔ (21)
قوم نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کےبارے میں مزید یہ بھی کہا کہ کیاہماری قوم میں حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام ہی اس قابل تھے کہ ان پر وحی نازل کی گئی جبکہ ہم میں انتہائی مالدار اوربہت اچھے حال والے لوگ موجود ہیں؟ایسا ہرگز نہیں ہے لہٰذا یہ سخت جھوٹا ہے اور نبوت کا دعویٰ کرکے بڑاآدمی بننا چاہتا ہے۔ ( معاذ اللہ )
قرآن پاک میں ہے:
ءَاُلْقِیَ الذِّكْرُ عَلَیْهِ مِنْۢ بَیْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ اَشِرٌ(۲۵) (22)
ترجمہ : کیا ہم سب میں سے (صرف)اس پر وحی ڈالی گئی؟ بلکہ یہ بڑا جھوٹا ،متکبر ہے۔
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو تسلی اور صبر کی تلقین:
اللہ تعالی نے حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو تسلی دیتے ہوئے ارشادفرمایا :
سَیَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْكَذَّابُ الْاَشِرُ(۲۶) اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَةِ فِتْنَةً لَّهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَ اصْطَبِرْ٘(۲۷) (23)
ترجمہ: بہت جلد کل جان جائیں گے کہ کون بڑا جھوٹا، متکبر تھا۔بیشک ہم ان کی آزمائش کےلئے اونٹنی کوبھیجنے والے ہیں تو (اے صا لح!)تم ان کا انتظار کرو اور صبر کرو۔
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا عظیم معجزہ اور قوم کا رد عمل:
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام قوم کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کی تبلیغ و نصیحت میں مصروفِ عمل رہتے تھے ،آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے بار بار اصرار اور مسلسل تبلیغ و نصیحت سے تنگ آ کر قوم کے سرکردہ لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان سے کوئی ایسا مطالبہ کیا جائے جسے یہ پورا نہ کر سکیں ،یوں ہم ان کی مخالفت میں سر خرو اور یہ اپنی تبلیغی سرگرمیاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔چنانچہ ایک دن قبیلے کے لوگ اپنی مجلس میں جمع تھے ،اسی دوران حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام بھی وہاں تشریف لے آئے اور حسب معمول انہیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور شرک و بت پرستی ترک کر دینے کی دعوت دی ،وعظ و نصیحت فرمائی اور عذابِ الٰہی سے ڈرایا۔یہ موقع غنیمت جان کر سرداروں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے مطالبہ کر دیا کہ اگر آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تواس پہاڑ کی چٹان سے ایک ایسی اونٹنی نکال دیجئے جو دس ماہ کی حاملہ ہو ،طاقتور،خوبصورت اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو اور نکلتے ہی بچہ جنے ۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے پوچھا: اگر میں نے تمہارا مطالبہ پورا کر دیا تو کیا تم لوگ ایمان لے آؤ گے ؟سب نے عہد کرتے ہوئے کہا: اگرہمارا مطالبہ پورا ہو گیا تو ضرور ہم سب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آپ کی رسالت پر ایمان لے آئیں گے اور بت پرستی چھوڑ دیں گے ۔حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام نے دو رکعت نماز پڑ ھ کے بارگاہ ِ الہی میں دعا کی اوراس چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو اسی وقت چٹان پھٹی اور اس میں سے ایک انتہائی خوبصورت ، تندرست ،اونچے قد والی اونٹنی نکل آئی جو حاملہ تھی اورنکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا۔حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا یہ حیرت انگیز اور عظیم الشان معجزہ دیکھ کر جندع نامی ایک سردار تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لے آیا جبکہ دیگر لوگ سرداروں کے بہکاوے میں آ کر اپنے وعدے سے پھر گئے اورایمان لانے سے انکار کر کے کفر پر ہی قائم رہے ۔
اونٹنی سے متعلق ہدایات:
اس کے بعد یہ اونٹنی اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرنے پھرنے لگی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم کو اس اونٹنی کے بارے چند ہدایات دیں ،
(1) اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی زمین میں جہاں چاہے چرتی رہے۔
(2) اسے برائی کی نیت سے نہ ہاتھ لگانا ، نہ مارنا، نہ ہنکانا اور نہ قتل کرنا۔
(3)ایک دن اونٹنی کی اور ایک دن تمہاری باری ہے، لہٰذاجو دن اونٹنی کا ہے اُس دن صرف اونٹنی ہی کنویں پر پانی پینے آئے اور جو دن تمہارا ہے اُس دن تم پانی لینے آؤ ۔
اِن ہدایات کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کر دی کہ اگر تم نے ان کی خلاف ورزی کی تواس کا انجام بہت خطرناک ہوگا۔ قرآن کریم میں یہ احکام مختلف مقامات پر بیان کیے گئے ہیں ، چنانچہ
سورۂ اعراف میں ہے:
قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳) (24)
ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن نشانی آگئی۔ تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی یہ اونٹنی ہے۔ توتم اسے چھوڑے رکھو تاکہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگاؤ ورنہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔
سورۂ ہود میں ہے:
وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ(۶۴) (25)
ترجمہ : اور اے میری قوم! یہ تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی اونٹنی ہے تو اسے چھوڑ دو تاکہ یہ اللہ کی زمین میں کھاتی رہے اور اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ قریب کا عذاب تمہیں پکڑ لے گا۔
سورۂ قمر میں ہے:
وَ نَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَآءَ قِسْمَةٌۢ بَیْنَهُمْۚ-كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ(۲۸) (26)
ترجمہ : اور انہیں خبر دےدو کہ ان کے درمیان پانی تقسیم ہے ، ہر باری پر وہ حاضر ہو جس کی باری ہے۔
اور سورۂ شعراء میں ہے:
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۚ(۱۵۵) وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۵۶) (27)
ترجمہ : صالح نے فرمایا: یہ ایک اونٹنی ہے ،ایک دن اس کے پینے کی باری ہے اور ایک معیّن دن تمہارے پینے کی باری ہے۔ اور تم اس اونٹنی کو برائی کے ساتھ نہ چھونا ورنہ تمہیں بڑے دن کا عذاب پکڑ لے گا۔
اونٹنی کی پیدائش میں معجزات :
اس اونٹنی کی پیدائش سے کئی معجزات کا ظہور ہوا،
(1) وہ اونٹنی نہ کسی پیٹھ میں رہی، نہ کسی پیٹ میں ،نہ کسی نر سے پیدا ہوئی نہ مادہ سے، نہ حمل میں رہی نہ اُس کی خلقت تدریجاً کمال کو پہنچی بلکہ طریقہِ عادیہ کے خلاف وہ پہاڑ کے ایک پتھر سے دفعتًہ پیدا ہوئی، اس کی یہ پیدائش معجزہ ہے۔
(2) ایک دن وہ پانی پیتی اوردوسرے دن پوری قوم ِ ثمود ،یہ بھی معجزہ ہے کہ ایک اونٹنی ایک قبیلے کے برابرپی جائے۔
(3) اس کے پینے کے دن اس کا دودھ دوہا جاتا تھا اور وہ اتنا ہوتا تھا کہ تمام قبیلہ کو کافی ہو اور پانی کے قائم مقام ہوجائے۔
(4) تمام وُحُوش و حیوانات اس کی باری کے روز پانی پینے سے باز رہتے تھے۔ (28)
یہ سب معجزات حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے صدقِ نبوت کی زبردست دلیلیں تھیں۔
اونٹنی کا قتل:
قوم ثمود حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے دئیے ہوئے احکام پر ایک عرصہ تک عمل پیرا رہی ،پھر انہیں اپنی چراگاہوں میں اور مویشیوں کے لیے پانی کی تنگی کی وجہ سے افسوس ہوا تو وہ لوگ اونٹنی کو قتل کرنے پر متفق ہو گئے اور اس کام کے لئے اپنے ساتھی قدار بن سالف کو منتخب کیا جس نے اونٹنی کوپکڑکر تیز تلوار سے اس کی کونچیں کاٹ کر قتل کر ڈالا۔(29)
اس کا تفصیلی واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ قومِ ثمود میں صدوق نامی ایک بڑی حسین و جمیل اور مالدار عورت تھی، اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں۔ حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی اونٹنی سے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لئے اس نے مصدع بن دہر اور قدار کو بلا کر کہا:اگر تو نے اونٹنی کو ذبح کر دیا تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا۔ پھر یہ قومِ ثمود کے سرکش لوگوں کے پاس آئے اور انہیں اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو مزید 7 افراد ان کے ساتھ ہولیے۔ یہ 9 افراد اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ اسے پا کر مصدع کی مدد سے قدار نے پہلے اونٹنی کی کونچیں کاٹیں پھر اسے ذبح کر دیا۔(30)
اونٹنی کو قتل کرنے کے بعد ان لوگوں کی سرکشی اور بے باکی میں اور اضافہ ہوا چنانچہ اِس جرم کا ارتکاب کرنے کے بعدحضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آکر کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے رہتےہو۔قرآن کریم میں اونٹنی کے قتل کا واقعہ متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے ، چنانچہ
سورۂ اعراف میں ہے:
فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷۷) (31)
ترجمہ :پس (کافروں نے)اونٹنی کی ٹانگوں کی رگوں کو کاٹ دیا اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو۔
سورۂ بنی اسرائیل میں ہے:
وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا (32)
ترجمہ : اور ہم نے ثمود کواونٹنی واضح نشانی دی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا۔
اور سورۂ قمر میں ہے:
فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ(۲۹) (33)
ترجمہ : تو انہوں نے اپنے ساتھی کو پکارا: تو اس نے (اونٹنی کو)پکڑا پھر (اس کی) کونچیں کاٹ دیں۔
نزولِ عذاب کی خبر اور علامتِ عذاب کا بیان
اونٹنی کے قتل کے بعدحضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام نے بطورِ زجر و اِخبار(خبر دینےکے)ان سے فرمایا: اپنے گھروں میں تین دن تک دنیا کا جو عیش کرنا ہے کرلو، ہفتے کے دن تم پر عذاب آجائے گا اورا س کی علامت یہ ہے کہ پہلے دن تمہارے چہرے زرد ، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ ہو جائیں گے، پھراگلے دن عذاب نازل ہوگااوریہ ایک ایسا وعدہ ہے جو کسی صورت غلط ثابت نہیں ہوگا ۔ (34)
قرآن پاک میں ہے:
فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍؕ-ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ(۶۵) (35)
ترجمہ : تو انہوں نے اس کے پاؤں کی پچھلی جانب کے اوپر والی ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں تو صا لح نے فرمایا: تم اپنے گھرو ں میں تین دن مزید فائدہ اٹھالو۔ یہ ایک وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا۔
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام پر حملہ آوروں کی ہلاکت:
شہرِ حِجر میں اونچے خاندانوں کے 9 افراد فساد پھیلانے میں پیش پیش تھے،ان کے سردار کا نام قدار بن سالف تھااور یہی وہ شخص تھا جس نے اونٹنی کے پاؤں کی رگیں کاٹیں ۔جب حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام نےانہیں عذابِ الٰہی کی خبر دی اور اس کی علامت بھی بیان کر دی تو ان9 افراد نے حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو بھی شہید کر نے کا پروگرام بنا لیا، چنانچہ سب قسمیں کھا کر کہنے لگے کہ ہم رات کےوقت حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے گھر حملہ کر کے انہیں ان کے اہل و عیال سمیت شہید کر دیں گے ، اس کے بعد اگر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے کسی وارث نے قصاص یا دیت کا مطالبہ کیا توکہہ دیں گے کہ ہم نے نہ تو قتل کیا ہے اور نہ ہی ہمیں قاتل کے بارے میں کوئی علم ہے۔
اس قول و قرار کے بعد انہوں نے اپنی سازش پر عمل درآمد کی تیاری شروع کر دی اور رات کے وقت حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس رات حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے مکان کی حفاظت کے لئے فرشتے بھیج دیئے ۔ جب یہ 9 شخص ہتھیار باندھ کر اور تلواریں کھینچ کر حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے دروازے پر پہنچے توفرشتوں نے انہیں پتھر مارے۔ وہ پتھر ان لوگوں کو لگتے لیکن مارنے والے نظر نہ آتے تھے یہاں تک کہ یہ سب افراد ہلاک ہو گئے ۔(36)
اس واقعہ سے متعلق قرآنِ پاک میں ہے:
وَ كَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یُصْلِحُوْنَ(۴۸) قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَنُبَیِّتَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(۴۹) وَ مَكَرُوْا مَكْرًا وَّ مَكَرْنَا مَكْرًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(۵۰) فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْۙ-اَنَّا دَمَّرْنٰهُمْ وَ قَوْمَهُمْ اَجْمَعِیْنَ(۵۱) (37)
ترجمہ : اور شہر میں نو شخص تھے جو زمین میں فساد کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے آپس میں اللہ کی قسمیں کھا کر کہا:ہم رات کے وقت ضرورصا لح اور اس کے گھر والوں پر چھاپا ماریں گے پھر اس کے وارث سے کہیں گے کہ اس گھر والوں کے قتل کے وقت ہم حاضر نہ تھے اور بیشک ہم سچے ہیں۔ اور انہوں نے سازش کی اور ہم نے اپنی خفیہ تدبیر فرمائی اور وہ غافل رہے۔ تو دیکھو کہ ان کی سازش کاکیسا انجام ہوا؟ ہم نے انہیں اور ان کی ساری قوم کوہلاک کردیا۔
درس و نصیحت
اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی قوم اپنے رسول کے مقابلے میں سرکشی کی تمام حدود کو پار کرجاتی ہے اور نصیحت قبول کرنے سے مکمل اِنکاری ہوجاتی ہے تو عذاب ِ الٰہی کی گرفت میں آجاتی ہے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کا حافظ وناصرہے اور اُنہیں لوگوں کی سازشوں اور شرسے محفوظ رکھتا ہے جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خلاف بھی کفار نے قتل کی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بحفاظت ہجرت کرا کر مدینہ طیبہ پہنچا دیا اور کافروں کو بدر کے میدان میں عذاب و شکست سے دوچار کیا۔
باب:04
قومِ ثمود پر عذابِ الٰہی
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے بتائے ہوئے ایام میں قوم کا حال :
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو شہید کرنے کی سازش کرنے والے تو عام عذاب اترنے سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ گئےتھے،اس کے بعدجب مہلت کا پہلا دن آیا تو حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کے فرمان کے مطابق ان کے چہرے زرد ہوگئے ، شام کے وقت انہوں کہا:ایک دن تو گزر گیا۔ دوسرے دن ان کے چہرے سرخ ہو گئے اور شام کے وقت کہنے لگے: مہلت کے دو دن تو گزر گئے۔تیسرے دن ان کے چہرے سیاہ ہو گئے اور شام کے وقت کہنے لگے:حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی دی ہوئی مہلت تو ختم ہو گئی (اور ابھی تک انہوں نے جو کہا تھا وہ سب سچ نکلا،اب آگے دیکھو کیا ہوتا ہے، چنانچہ)چوتھے دن یہ لوگ خوشبو لگا کر تیار ہوئے اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگے کہ دیکھوکون سا عذاب آتا ہے۔ (38)
عذاب کے منتظر ان احمقوں نے صبح ہوتے ہی ایک ہولناک چیخ اور کڑک کی آواز سنی اور زمین میں زلزلہ آگیا اور یہ لوگ تباہ و برباد ہوکر ایسے ہوگئے جیسےجانوروں کے پاؤں کے نیچے بکثرت روندی جانے والی گھاس ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔عذاب کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قوی و توانا ہونے کے باجودعذاب کے وقت نہ وہ لوگ کہیں بھاگ سکے اور نہ مقابلے میں کھڑے ہوسکے، شرک و معصیت اُن کے کچھ کام نہ آئی اور مال و متاع ، سامان ومکان انہیں عذابِ الٰہی سے بچانہ سکے۔ عذاب کے بعد اس بستی کا یہ عالم تھا کہ گویا وہ کبھی وہاں بستے ہی نہ تھے اورنہ یہاں کبھی زندگی کا گزر ہوا ۔ الامان والحفیظ ۔
عذاب سامنے آنے پرقوم ِ ثموداپنے افعال پرنادم و شرمسارتوہوئی لیکن یہ بے وقت کی شرمندگی تھی کیونکہ عذاب دیکھنےکے بعدنمودار ہوئی تھی اور اس وقت کی ندامت قابلِ قبول نہیں ۔ قرآنِ کریم میں ان پر نازل ہونے والے عذاب کا ذکر متعدد مقامات پر کیا گیا ہے ، چنانچہ
سورۂ اعراف میں ہے:
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(۷۸) (39)
ترجمہ : تو انہیں زلزلے نے پکڑ لیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
سورۂ ہود میں ہے:
وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۶۷) كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاؕ-اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوْدَاۡ كَفَرُوْا رَبَّهُمْؕ-اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ۠(۶۸) (40)
ترجمہ : اور ظالموں کو چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے ۔ گویا وہ کبھی یہاں رہتے ہی نہ تھے۔ سن لو! بیشک ثمود نے اپنے رب کا انکار کیا۔ خبردار! لعنت ہو ثمود پر۔
سورۂ حِجر میں ہے:
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۸۰) وَ اٰتَیْنٰهُمْ اٰیٰتِنَا فَكَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَۙ(۸۱) وَ كَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ(۸۲) فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِیْنَۙ(۸۳) فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَؕ(۸۴) (41)
ترجمہ: اور بیشک حجر والو ں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دیں تو وہ ان سے منہ پھیرے رہے۔اور وہ بے خوف ہو کرپہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے تھے ۔ تو انہیں صبح ہوتے زور دار چیخ نے پکڑ لیا ۔تو ان کی کمائی کچھ ان کے کام نہ آئی ۔
سورۂ شعراء میں ہے:
فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَۙ(۱۵۷) (42)
ترجمہ : تو انہوں نے اس کے پاؤں کی رگیں کاٹ دیں پھرصبح کو پچھتاتے رہ گئے۔
پاؤں کی رگیں کاٹنے والا شخص تو ایک ہی تھا جس کا نام قدار تھا لیکن چونکہ لوگ اس کے اس فعل پر راضی تھے اور کسی فعل پر راضی ہونا بھی اس میں شریک ہونا شمار ہوتا ہے، اس لئے یہاں پاؤں کی رگیں کاٹنے کی نسبت ان سب کی طرف کی گئی ۔
سورۂ حٰمٓ اَلسَّجْدَہ میں ہے:
وَ اَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَیْنٰهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰى عَلَى الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَۚ(۱۷) (43)
ترجمہ : اور وہ جو ثمود تھے تو ہم نے ان کی رہنمائی کی تو انہوں نے ہدایت کی بجائے اندھے پن کو پسند کیاتو ان کے اعمال کے سبب انہیں ذلت کے عذاب کی کڑک نے آ لیا۔
سورۂ قمر میں ہے:
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ(۳۱) (44)
ترجمہ : بیشک ہم نے ان پر ایک زور دار چیخ بھیجی تو اسی وقت وہ باڑ بنانے والے شخص کی بچ جانے والی روندی ہوئی خشک گھاس کی طرح ہوگئے۔
اور سورۂ شمس میں ہے:
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَاۤﭪ(۱۱) اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَاﭪ(۱۲) فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَ سُقْیٰهَاؕ(۱۳) فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَاﭪ--فَدَمْدَمَ عَلَیْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَاﭪ(۱۴) وَ لَا یَخَافُ عُقْبٰهَا۠(۱۵) (45)
ترجمہ : قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے جھٹلایا۔ جس وقت ان کا سب سے بڑابدبخت آدمی اٹھ کھڑا ہوا۔ تو اللہ کے رسول نے ان سے فرمایا : اللہ کی اونٹنی اور اس کی پینے کی باری سے بچو۔تو انہوں نے اسے جھٹلایا پھر اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں تو ان پر ان کے رب نے ان کے گناہ کے سبب تباہی ڈال کر ان کی بستی کو برابر کردیا۔ اور اسے ان کے پیچھا کرنے کا خوف نہیں۔
قومِ ثمودپر آنے والے عذاب کی 3کیفیات:
قرآن مجید میں قومِ ثمود پر آنے والے عذاب کی تین کیفیات بیان کی گئی ہیں۔
(1) انہیں زلزلے نے پکڑ لیا، جیساکہ سورۂ اعراف میں بیان ہوا کہ
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(۷۸) (46)
ترجمہ : تو انہیں زلزلے نے پکڑ لیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
(2)انہیں چنگھاڑ نے پکڑ لیا،جیساکہ سورۂ ہود میں بیان ہوا کہ
وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۶۷) (47)
ترجمہ : اور ظالموں کو چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے ۔
(3) انہیں ذلت کے عذاب کی کڑک نے آ لیا،جیساکہ سورۂ حٰمٓ اَلسَّجْدَہْ میں بیان ہوا کہ
فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَۚ(۱۷) (48)
ترجمہ : تو ان کے اعمال کے سبب انہیں ذلت کے عذاب کی کڑ ک نے آ لیا۔
ان تینوں آیات میں باہم کوئی تعارض نہیں کیونکہ ان میں عذاب کی جدا جدا کیفیات بیان ہوئی ہیں، یعنی اُس عذاب میں زلزلہ، چیخ چنگھاڑاور کڑک تینوں ہی تباہ کن چیزیں موجود تھیں ۔
اہلِ ایمان کی نجات:
عذاب اترنے سے پہلے حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام اہلِ ایمان کے ساتھ قوم ثمود کی آبادی سے نکل کر جنگل میں تشریف لےگئے تھےاورجس دن عذاب نازل ہواتو اللہ تعالیٰ نےآپ عَلَیْہِ السَّلَام اور اہل ایمان کو اپنا خاص فضل و رحمت فرما کر عذاب سے بچا لیا۔اس نجات کا ذکر بھی قرآن پاک میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے ، چنانچہ
سورۂ ہود میں ہے:
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ مِنْ خِزْیِ یَوْمِىٕذٍؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ(۶۶) (49)
ترجمہ : پھر جب ہمارا حکم آیا توہم نے صا لح اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی رحمت کے ذریعے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے بچالیا ۔ بیشک تمہارا رب بڑی قوت والا، غلبے والا ہے۔
سورۂ نمل میں ہے:
وَ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ(۵۳) (50)
ترجمہ : اور ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو ایمان لائے اور ڈرتے تھے۔
اور سورۂ حٰمٓ اَلسَّجْدَہْ میں ہے:
وَ نَجَّیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ۠(۱۸) (51)
ترجمہ : اور ہم نے انہیں بچالیا جو ایمان لائے اور ڈرتے تھے۔
قومِ ثمود کی ہلاکت نشانِ عبرت ہے:
قومِ ثمود نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی آیات کا انکار کیا، حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلایا،کفر و شرک اور بت پرستی پر ڈٹے رہے اور دیگر گناہوں پر قائم رہےجس کے نیتجے میں انہیں عبرت کا نشان بنادیا گیا ، چنانچہ
سورۂ شعراء میں ہے:
فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۵۸) (52)
ترجمہ : تو انہیں عذاب نے پکڑلیا ،بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان کے اکثر لوگ مسلمان نہ تھے۔
سورۂ نمل میں ہے:
فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْۙ-اَنَّا دَمَّرْنٰهُمْ وَ قَوْمَهُمْ اَجْمَعِیْنَ(۵۱) فَتِلْكَ بُیُوْتُهُمْ خَاوِیَةًۢ بِمَا ظَلَمُوْاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(۵۲) (53)
ترجمہ : تو دیکھو کہ ان کی سازش کاکیسا انجام ہوا؟ ہم نے انہیں اور ان کی ساری قوم کوہلاک کردیا۔ تو یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب ویران پڑے ہیں، بیشک اس میں جاننے والوں کےلئے (عبرت کی)نشانی ہے ۔
سورۂ ذاریات میں ہے:
وَ فِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِیْنٍ(۴۳) فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَ(۴۴) فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّ مَا كَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَۙ(۴۵) (54)
ترجمہ : اور ثمود میں( نشانی ہے) جب ان سے
فرمایا گیا: ایک وقت تک فائدہ اٹھالو۔ تو انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی تو ان کی آنکھوں کے سامنے انہیں کڑک نے آلیا۔تو وہ نہ کھڑے ہوسکے اور نہ وہ بدلہ لے سکتے تھے۔
اور سورۂ قمر میں ہے:
فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ(۳۰) (55)
ترجمہ : تو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا؟
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا قوم پر اظہارِ افسوس:
قومِ ثمود کی ہلاکت کے بعد حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام جنگل سے نکل کر قومِ ثمود کی لاشوں کے پاس سے گزرے تو ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) (56)
ترجمہ : اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔
حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی ہجرت و وفات:
مروی ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام اپنے مومن اصحاب کے ساتھ آ کر مکہ مکرمہ میں آباد ہو گئے اور یہیں مصروفِ عبادت رہے یہاں تک کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا وصال ہو گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا یمن میں وصال ہوا اور وہاں اسی جگہ ان کی قبرمبارک ہے جسے شبوہ کہاجاتا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام مومنین کے ساتھ شام کی طرف نکلے،فلسطین میں رہے اور یہیں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات ہوئی۔ (57)
باب:5
احادیث میں حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام اور قومِ ثمودکا تذکرہ
کثیراحادیث میں بھی حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کی قوم ثمود کا تذکرہ ہے،یہاں ان میں سے 6 احادیث ملاحظہ ہوں :
مقامِ حجر میں قومِ ثمود کے انجام کا ذکر:
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں:جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مقامِ حجر سے گزرے تو ارشاد فرمایا: اے لوگو! معجزات کا مطالبہ نہ کرو، کیونکہ حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم نے معجزے کا مطالبہ کیا( تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اونٹنی بھیجی) جو اس گھاٹی سے باہر آتی اور اسی کے اندر چلی جاتی تھی وہ اونٹنی ایک دن لوگوں کے حصے کا پانی پی جاتی اورلوگ اُس دن اونٹنی کا دودھ پی لیتے تھے۔پھر انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو انہیں ایک ہولناک چیخ نے پکڑ لیا اور اللہ تعالیٰ نے آسمان کے نیچے موجود ان کے ہر فرد کو ہلاک کر دیا سوائے ایک شخص کے جو کہ حرم پاک میں موجود تھا۔عرض کی گئی: یارسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، وہ کون تھا؟ارشاد فرمایا : ابورغال، جب وہ حرم پاک سے نکلا تو اسے بھی وہی عذاب پہنچ گیا جو اس کی قوم پر آیا تھا۔(58)
قومِ ثمود کے فرد ابو رغال کی قبر کی نشاندھی:
حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ سفر طائف کے دوران ایک قبر کے پاس سے ہمارا گزر ہواتو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:یہ ابورغال کی قبر ہے،اس حرم کی وجہ سے اس پر عذاب نازل نہیں ہواتھا اور جب یہ حرم سے نکلا تو یہاں اس پر بھی وہی عذاب آ گیا جو اس کی قوم (ثمود)پر آیا تھا۔پھر اسے دفن کر دیا گیااور اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کے ساتھ سونے کی ایک شاخ بھی دفن کی گئی تھی،اگر تم نے اس کی قبر کھودی تو وہ شاخ حاصل کر لو گے،چنانچہ لوگوں نے اس کی قبر کھود کر وہ شاخ نکال لی۔ (59)
اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والے کا ذکر:
حضرت عبداللہ بن زَمْعَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں:میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سنا،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس شخص کا ذکر کیا جس نے(حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کی)اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں اور ارشاد فرمایا:اس اونٹنی کے در پے ہونے والا شخص(ظاہراً) بہت عزت و شوکت والا تھا جیسے ابو زمعہ ہے۔(60)
قومِ ثمود کے کھنڈرات میں جانے والوں کو تنبیہ:
حضرت ابو کبشہ انماری رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ غزوہ ٔ تبوک کے موقع پر کچھ لوگ تیزی سے قومِ ثمود کے کھنڈرات میں جانے لگے،جب یہ بات نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلوم ہوئی تولوگوں میں نماز کی تیاری کا اعلان کروا دیا۔میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا ،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اونٹ کو تھامے ہوئے ارشاد فرمارہے تھے:تم ایسی قوم پر کیوں داخل ہوتے ہو جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا ؟ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، ہم ان پر تعجب کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے زیادہ تعجب انگیز بات نہ بتاؤں ؟ تمہی میں سے ایک شخص تمہیں ان واقعات کی خبر دیتا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے اور جو تمہارے بعد ہوں گے ، لہٰذا تم استقامت اور سیدھا راستہ اختیار کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے عذاب میں مبتلا ہونے کی کوئی پروا نہیں ہوگی اور عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اپنے آپ سے تھوڑا سا عذاب بھی دور نہ کر سکے گی۔ (61)
قومِ ثمود کے کنویں سے پانی لینے کی ممانعت:
حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں :غزوۂ تبوک کے وقت جب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مقام حجر میں پہنچےتو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کو حکم دیا کہ یہاں کے کنویں سے نہ خود پانی پئیں اور نہ (اپنے جانوروں کو) پلائیں ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے عرض کی:ہم تو اس کے پانی سے آٹا گوندھ چکے اور اس کا پانی نکال چکے ہیں۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں حکم دیا کہ وہ آٹا پھینک دیں اور ا س پانی کو گرا دیں ۔(62)
دوسری روایت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا کہ ثمود کے کنویں سے نکالا ہوا پانی گرا دیں اور اس سے گندھا ہوا آٹااونٹوں کو کھلا دیں اور یہ حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی نکالیں جس پر اونٹنی آتی تھی۔ (63)
عذاب کی جگہ پر روتے ہوئے داخل ہونا:
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں:نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب مقامِ حِجر سے گزرے تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:ظالموں کے مکانات میں روتے ہوئے داخل ہو نا، ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہ عذاب آجائے جو ان پر آیا تھا۔ پھر سوار ی پر بیٹھے ہوئے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے چہرۂ انور پر چادر ڈال لی۔(64)
1…پ۲۷،النجم:۵۰، ۵۱.
2…قرطبی، الاعراف، تحت الاٰیة:۷۳، ۴/۱۷۲، ملخصاً.
3… پ۱۹،الشعراء:۱۲۵.
4… پ۱۹،الشعراء:۱۴۵.
5…تفسیر کبیر، ھود، تحت الاٰیة:۶۲، ۶/۳۶۸، ملخصاً.
6… پ۸،الاعراف:۷۳.
7… پ۱۲،ھود:۶۱.
8…پ۱۲،ھود:۶۲.
9… پ۱۲،ھود:۶۳.
10…پ۸،الاعراف:۷۴.
11…پ۱۹،النمل:۴۵.
12… پ۸،الاعراف:۷۵، ۷۶.
13…پ۱۹،الشعراء:۱۴۵.
14…پ۱۹،الشعراء:۱۴۶-۱۴۸.
15… پ۱۹،الشعراء:۱۴۹-۱۵۲.
16… پ۱۹،الشعراء:۱۴۱-۱۴۴.
17…پ۱۹،النمل:۴۶.
18… پ۱۹،النمل:۴۷.
19…پ۱۹،الشعراء:۱۵۳، ۱۵۴.
20… پ۲۷،القمر:۲۳، ۲۴.
21… ابو سعود،القمر،تحت الاٰية:۲۳، ۵/۶۵۶، ملخصاً.
22…پ۲۷،القمر:۲۵.
23… پ۲۷،القمر:۲۶، ۲۷.
24…پ۸،الاعراف:۷۳.
25…پ۱۲،ھود:۶۴.
26… پ۲۷،القمر:۲۸.
27… پ۱۹،الشعراء:۱۵۵، ۱۵۶.
28… خازن، الاعراف، تحت الاٰیة:۷۳، ۲/۱۱۲، ملخصاً.
29… صاوی،القمر،تحت الاٰية:۲۹، ۶/۲۰۶۷، ملخصاً.
30… روح البیان ، الاعراف، تحت الاٰیة:۷۷، ۳/۱۹۲-۱۹۳، روح المعانی، الاعراف، تحت الاٰیة:۷۹، ۴/۵۶۳، الجزء الثامن، ملخصاً.
31…پ۸،الاعراف: ۷۷.
32…پ۱۵،بنی اسرائیل:۵۹.
33… پ۲۷،القمر: ۲۹.
34…خازن،ھود،تحت الاٰية:۶۵، ۲/۳۶۰، مدارک،ھود،تحت الاٰية:۶۵، ص۵۰۴،ملخصاً.
35… پ۱۲،ھود:۶۵.
36… خازن،النمل،تحت الاٰية:۵۱، ۳/۴۱۵، ملخصاً.
37…پ۱۹،النمل:۴۸-۵۱.
38…قصص الانبیاء لابن کثیر،ص۱۵۷-۱۵۸.
39…پ۸،الاعراف:۷۸.
40… پ۱۲،ھود:۶۷، ۶۸.
41… پ۱۴،الحجر:۸۰-۸۴.
42… پ۱۹،الشعراء:۱۵۷.
43…پ۲۴،حٰم السجدة:۱۷.
44… پ۲۷،القمر:۳۱.
45… پ۳۰،الشمس:۱۱ -۱۵.
46…پ۸،الاعراف:۷۸.
47… پ۱۲،ھود:۶۷.
48… پ۲۴،حٰم السجدة:۱۷.
49…پ۱۲،ھود:۶۶.
50… پ۱۹،النمل:۵۳.
51… پ۲۴،حٰم السجدة: ۱۸.
52… پ۱۹،الشعراء:۱۵۸.
53… پ۱۹،النمل:۵۱، ۵۲.
54…پ۲۷،الذّٰریٰت:۴۳-۴۵.
55… پ۲۷،القمر:۳۰.
56… پ۸،الاعراف: ۷۹.
57… عمدة القاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: والی ثمود اخاھم صٰلحا، ۱۱/۹۵، ملتقطاً.
58… مسند امام احمد، مسند جابر بن عبد اللہ، ۵/۱۴، حدیث:۱۴۱۶۲، ملتقطاً.
59… ابو داود، کتاب الخراج والفیء والامارة، باب نبش القبور، ۳/۲۴۴، حدیث:۳۰۸۸.
60… بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب قول اللہ تعالٰی:والی ثمود اخاھم صالحا،۲/۴۳۲،حدیث:۳۳۷۷.
61… مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث ابی کبشة الانماری، ۶/۲۹۸، حدیث:۱۸۰۵۱.
62… بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب قول اللہ تعالٰی:والی ثمود اخاھم صالحا،۲/۴۳۲،حدیث:۳۳۷۸.
63… بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب قول اللہ تعالٰی:والی ثمود اخاھم صالحا،۲/۴۳۲،حدیث:۳۳۷۹.
64… بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب قول اللہ تعالٰی:والی ثمود اخاھم صالحا،۲/۴۳۲،حدیث:۳۳۸۰.
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع