30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام
حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام حضرت آدم اور حضرت شیث عَلَیْہِمَا السَّلَام کے بعدتشریف لائے ۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےآباؤ و اجداد میں سے ہیں ۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا اصل نام خنوع یا اخنوع ہے اور الٰہی صحیفوں کا بکثرت درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب’’ادریس‘‘ہے ۔بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو سب سے پہلے آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ہی ایجاد فرمائیں۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو وعدۂ الٰہی کے مطابق ابھی تک موت نہیں آئی اوراس وقت آپ عَلَیْہِ السَّلَام آسمانوں میں زندہ ہیں اور جب اللہ تعالیٰ چاہےگا اس وقت آپ عَلَیْہِ السَّلَام ضرور وصال فرمائیں گے۔ قرآن و حدیث میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا ذکر موجود ہے اور سیرت و تاریخ کی کتابوں میں بھی مختصر احوال ہی مذکور ہیں،اس لیےیہاں 3ابواب میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا مختصر ذکرِ خیر ہی کیا گیا ہے ۔ تفصیل کے لیے ذیلی سطور ملاحظہ ہوں:
باب:1
حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کے واقعات کے قرآنی مقامات
قرآنِ کریم میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا تذکرہ دو سورتوں میں موجود ہے :
(1) سورۂ مریم ،آیت: 56،57۔اس میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے دو اوصاف صدیق اور نبی کا ذکر ہے اور ساتھ ہی آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو آسمان کی طرف اٹھانے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
(2) سورۂ انبیاء ،آیت:85،86۔اس میں حضرت اسماعیل اورحضرت ذوالکفل عَلَیْہِمَا السَّلَام کے ساتھ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو بھی صبر کرنے والا اور قربِ الٰہی کے لائق بندوں میں شمار کیا گیاہے۔
باب:2
حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کا تعارف
نام ولقب:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ اور لقب ادریس ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر تیس صحیفے نازل فرمائے اور ان صحیفوں کاکثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا لقب ’’ادریس‘‘(یعنی بہت درس دینے والا) ہوا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے والد کے دادا ہیں اور حضرت آدم و شیث عَلَیْہِمَا السَّلَام کی نبوت کے بعد آپ ہی منصب ِ نبوت پر فائز ہوئے۔
ولادت:
علامہ احمد بن محمد قسطلانی لکھتے ہیں :حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی مبارک زندگی کے308سال پائے تھے۔(1)
سراپائے اقدس:
حضرت سمرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں :حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کا رنگ سفید، قد لمبااور سینہ چوڑا تھا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے جسم اقدس پر بال کم اور سر پر زیادہ تھے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے سینۂ مبارک پر ایک سفید نشان تھا اور یہ برص کا نہیں تھا۔ (2)
عملی زندگی:
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں :حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کپڑے سلائی کیا کرتے اورہر ٹانکے پر سبحٰن اللہ کہتے تھے۔جب شام ہوتی تو اس وقت تک روئے زمین پر کوئی بھی شخص عمل کے لحاظ سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے افضل نہ ہوتا۔(3)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں :حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام (بارگاہِ الٰہی میں عاجزی اور لوگوں کی تعلیم کےلئے) ایک دعا مانگا کرتے اور یہ حکم دیتے تھے کہ یہ دعا بیوقوف لوگوں کو نہ سکھاؤ، وہ دعا یہ تھی :
’’ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامْ يَا ذَا الطَّوْلِ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ ظَهْرُ اللَّاجِئيْنْ وَجَارُ الْمُسْتَجِيْرِيْنْ وَاَنِیْسُ الْخَائِفِيْنْ اِنِّيْ اَسْاَلُكَ اِنْ كُنْتُ فِيْ اُمِّ الْكِتَابِ شَقِيًّا اَنْ تَمْحُوَ مِنْ اُمِّ الْكِتَابِ شَقَاوَتيْ وَتَثْبُتَنِيْ عِنْدَكَ سَعِيْدًا وَاِنْ كُنْتُ فِيْ اُمِّ الْكِتَابِ مَحْرُوْمًا مُّقَتَّرًا عَلَيَّ فِيْ رِزْقِيْ اَنْ تَمْحُوَ مِنْ اُمِّ الْكِتَابِ حِرْمَانِيْ وَاقْتارَ رِزْقِيْ وَثَبِّتْنِيْ عِنْدَكَ سَعِيْدًا مُّوَفَّقًا لِّلْخَيْرِ كُلِّهٖ ‘‘ ترجمہ:اے بڑی شان و شوکت والے!اے بڑے فضل والے!تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
تو پریشان حالوں کا مددگار،پناہ کے طلبگاروں کو پناہ دینےو الا اور ڈرنے والوں کو انسیت بخشنے والا ہے۔میں تیری بارگاہ میں سوال کرتا ہوں کہ اگر میں اُمُّ الکتاب (یعنی لوح محفوظ)میں شقی(یعنی بد بخت لکھ دیا گیا)ہوں تو تُواُم الکتاب سے میری شقاوت مٹا دے اور اپنے پاس مجھے خوش بخت تحریر فرما دے اور اگر میں اُمُّ الکتاب میں محروم ،رزق میں تنگی دیا ہوا(لکھا گیا )ہوں تو تُو اُمُّ الکتاب سے میری محرومی اور رزق کی تنگی مٹا دے اور مجھے اپنے پاس سعادت مند اور ہر بھلائی کی توفیق دیا ہوا لکھ دے۔ (4)
یہ دعا بہت عمدہ ہے ، اس میں خوف ِ خدا کا اظہار، بارگاہِ الٰہی میں عاجزی، اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا، ایمان پر استقامت کی طلب،برے خاتمے سے پناہ، اچھے خاتمے کے حصول، دنیا و آخرت کی خیر، رزق کی فراوانی اور نیکیوں کی توفیق وغیرہا بہت سی چیزیں مانگی گئی ہیں۔ یہ دعایاد کرکے اپنے معمولات میں شامل کرلینی چاہیے۔نیزدعاؤں کے حوالے سے یہاں ایک اور بات قابل ِ توجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اکثر و بیشتر انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سیرت میں کسی نہ کسی دعا کا تذکرہ ضرور ملتا ہےجیسے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے لے کر نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے تذکروں میں دعا کا ذکر موجود ہے اور ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعائیں تو اتنی کثرت سے ہیں کہ ان پر علماءِ کرام نے ضخیم کتابیں تصنیف فرمادی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا بہت خاص عبادت ، قرب ِ الٰہی کا عمدہ ذریعہ اور انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سنت ِ مبارکہ ہے ۔ احادیث میں بھی دعائیں مانگنے کے بے شمار فضائل مذکور ہیں، اس لئےدعا مانگنے کو اپنی زندگی کا حصہ ضرور بنانا چاہیے۔
اولیات:
سب سے پہلے آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ہی قلم سے لکھا۔ کپڑوں کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ عَلَیْہِ السَّلَام ہی سے ہوئی کیونکہ اس سے پہلے جانوروں کی کھالیں بطورِ لباس استعمال ہوتی تھیں، سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ عَلَیْہِ السَّلَام ہی ہیں۔(5)
علم نجوم اور اس کا حکم:
علمِ نجوم کے شرعی حکم اور اس علم سے متعلق بہارِ شریعت میں ہے : اگر اِس علم سے مقصود یہ ہو کہ اس کے ذریعہ
سے ماہ و سال، اوقاتِ صلوٰۃ و سمتوں اور موسموں کی اقسام کا حال معلوم کیا جائے اور زکوٰۃ و حج کے اوقات کو جانا جائے تو مضائقہ نہیں یہ جائز ہے اور اگر علم تنجیم سے مقصود یہ ہو کہ اس کے ذریعہ سے آنے والے حوادث کو معلوم کیا جائے اور غیبی امور بتانے کے لئے استعمال کیا جائے اور ستاروں کی گردش کے دنیا پر اثرات ظاہر کرنے کے لئے حاصل کیا جائے تو حرام ہے۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا :’’نجوم کا اتنا علم حاصل کرو جس سے تم اپنے بحری و بری سفر میں راستوں کی شناخت کرسکو اس سے زیادہ نہیں۔‘‘علِم نجوم اگرچہ آسمانی علم ہے جو سیّدنا حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کو دیا گیا تھا اور وہ ان کا معجزہ تھا اس میں ظن و تخمین(یعنی گمان و اندازے)یا حسابیات کو دخل نہ تھا،وہ ایک روحانی قوت تھی جو منجانب اﷲ عطا کی گئی تھی،وہ علم باقی نہیں رہا، بعد میں لوگوں نے ظن و تخمین اور حسابیات سے کام لینا شروع کردیا اور ستاروں کے اثرات کو مؤثر بالذات مان لیا جو اسلام کے قطعا ًمنافی ہے۔ (6)
علم رمل اور اس کا شرعی حکم :
ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے علمِ رمل بھی حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام نے استعمال فرمایا ہے ۔ رمل وہ علم ہے جس میں خطوط اور نقطوں کی اشکال کے ذریعے آئندہ پیش آنے والے حالات و واقعات دریافت کیے جاتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ علم سیکھنا حرام ہے،چنانچہ مسلم شریف کی حدیثِ پاک میں ہے ،حضرت معاویہ بن حکم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی :ہم میں سے بعض لوگ خط کھینچتے ہیں (یعنی علمِ رمل کے طریقہ سے خطوط کھینچ کر غیبی خبریں معلوم کرتے ہیں، ان کا یہ عمل اسلامی شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟)ارشاد فرمایا: انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام میں سے ایک نبی خط کھینچتے تھے تو جس کی لکیر ان کے خط کے موافق ہو تو وہ درست ہے۔ (7)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان فرماتے ہیں:(یہ) حدیث صراحۃً مفید ممانعت ہے کہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےاُ س کا جواز موافقت خط انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مشروط فرمایااور وہ معلوم نہیں تو جواز بھی نہیں۔امام نووی رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی کتابُ الصلٰوۃ باب تحریمُ الکلام میں زیرِ حدیث مذکور فرماتے ہیں :حدیثِ پاک کا مفہو م اور مراد یہ ہے کہ جس آدمی کی لکیریں بعض انبیاءِ کرام کی لکیروں کے موافق ہوجائیں تو اس کے لئے (علم رمل) مباح ہے لیکن حصولِ موافقت کے لئے ہمارے پاس یقینی علم تک رسائی کاکوئی راستہ نہیں لہذا علم مذکور (ہمارے لئے) مباح نہیں اور مقصد یہ ہے کہ وہ حرام ہے کیونکہ یقینی موافقت کے بغیر وہ مباح نہیں ہوسکتا اور یقینی موافقت کا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔(8)
یعنی مقصودِ حدیث تحریمِ رمل ہےکہ اباحت بشرطِ موافقت ہے اور وہ نامعلوم تو اباحت معدوم ۔ (9)
اوصاف:
قرآنِ کریم میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے4 اوصاف بیان کیے گئے ہیں :
(1،2)آپ عَلَیْہِ السَّلَام بہت سچے اور نبی تھے ،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)(10)
ترجمہ : اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچا نبی تھا۔
تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کی صداقت و صدیقیت کو بطورِ خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھااور سچائی یقیناً اللہ تعالیٰ کو پسند اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابل ِ تعریف وصف ہے۔غیرِ انبیاء میں سب سے بڑے صدیق سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہیں جن کا لقب ہی ’’صدیق ِ اکبر ‘‘ہے۔ صِدِّیْقِیَّت کے علماء نے بہت سے مراتب بیان فرمائے ہیں:(1)زبان کا صدق۔ (2) نیت و ارادہ میں صدق۔(3)عزم میں صدق۔ (4)عزم کو پورا کرنے میں صدق۔(5)عمل میں صدق۔(6)دین کے تمام مقامات(جیسے خوف، امید،تعظیم ،زہد ،رضا اور توکل) کی تحقیق میں صدق۔یہ مراتب لکھنے کے بعد امام محمد غزالی فرماتے ہیں :جو شخص صدق کے ان تمام مراتب کے ساتھ متصف ہو تو وہ صدیق ہے کیونکہ وہ صدق میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہے۔ (11)
(3،4)آپ عَلَیْہِ السَّلَام صبر کرنے والے اور قربِ الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے، جیسا کہ ارشاد فرمایا:
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)(12)
ترجمہ : اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا، بیشک وہ ہمارے قربِ خاص کے لائق لوگوں میں سے ہیں۔
حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام استقامت کے ساتھ کتابِ الٰہی کا درس دیتے ،عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے ،اس لیے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو بھی بطورِ خاص صابرین میں شمار فرمایاگیا۔
نیز قرآنِ کریم میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو بھی صالحین فرمایا گیا ہے اور نیک مسلمانوں کو بھی،ان میں فرق یہ ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کامل ترین صالح ہوتے ہیں جبکہ نیک مسلمان صلاح کے اس مرتبے پر فائز نہیں ہوتے،جیسا کہ امام ماتریدی فرماتے ہیں:صلاح ہر نبی میں تمام وجوہ کے لحاظ سے متحقق ہوتی ہے جبکہ غیرِ انبیاء میں اس کا کچھ حصہ متحقق ہوتا ہے، اگرچہ نام(صالح)کا اطلاق سب پر ہوتا ہے لیکن اس میں یہ فرق ملحوظ ہوتا ہے۔ (13)اس کو علمی زبان میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام صلاح کا فرد ِ کامل ہوتا ہے جبکہ غیر نبی میں کمال ِ صلاح اس درجے پر نہیں ہوتی۔
انعاماتِ الٰہی:
اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام پر جو انعامات فرمائے ان میں سے دو کا تذکرہ قرآنِ پاک میں بھی موجود ہے:
(1) آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)(14)
ترجمہ : اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا۔
(2)آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو آسمان پر اٹھا لیا،فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(۵۷) (15)
ترجمہ : اورہم نے اسے ایک بلند مکان پر اٹھالیا۔
رفعتِ ادریس:
آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(۵۷)(16)
ترجمہ : اور ہم نے اسے ایک بلند مکان پر اٹھالیا۔
بلندمکان پر اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ا س سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کوآسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی دوسرا قول ہے۔(17)
آسمان پر جانے کے واقعہ سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں :
آپ ( عَلَیْہِ السَّلَام )کے واقعہ میں علماء کو اختلاف ہے، اِتنا تو ایمان ہے کہ آپ آسمان پر تشریف فرما ہیں۔ قرآنِ عظیم میں ہے:
وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(۵۷) (18)
ترجمہ : اور ہم نے اسے ایک بلند مکان پر اٹھالیا۔
بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ بعدِ موت آپ آسمان پر تشریف لے گئے۔ (19)
حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام زندہ ہیں:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں :چار نبی زندہ ہیں کہ اُن کو وعدۂ الہیہ ابھی آیا ہی نہیں۔ یوں تو ہر نبی زندہ ہے(جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے):
’’ اِنَّ اللہَ حرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَأْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء ِفَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ یُّرْزَقُ ‘‘بیشک اللہ ( عَزَّوَجَلَّ )نے حرام کیا ہے زمین پر کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسموں کوخراب کرے،تو اللہ ( عَزَّوَجَلَّ ) کے نبی زندہ ہیں، روزی دیئے جاتے ہیں۔(20)
اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایک آن کو محض تصدیقِ وعدۂ الٰہیہ کے لیے موت طاری ہوتی ہے، بعد اِس کے پھر اُن کو حیاتِ حقیقی حِسّی دنیوی عطا ہوتی ہے۔ خیر اِن چاروں میں سے دو آسمان پر ہیں اور دو زمین پر۔ خضر و الیاس عَلَیْہِمَا السَّلَام زمین پر ہیں اور ادریس و عیسٰی ( عَلَیْہِمَا السَّلَام )آسمان پر(21)۔ (22)
حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کو موت ضرور آئے گی:
اسی مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا:حضور اِن پر موت طاری ہوگی ؟ اس کے جواب میں فرمایا:ضرور( کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:)
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ- (23)
ترجمہ : ہر جان کو موت چکھنی ہے۔ (24)
رفعتِ ادریس اور رفعتِ مصطفیٰ میں فرق:
یہاں بعض علماء نے ایک بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کو جو رفعت عطا کی گئی اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(۵۷) (25)
ترجمہ : اور ہم نے اسے ایک بلند مکان پر اٹھالیا۔
اور سید المرسلین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس سے کہیں زیادہ افضل اور کامل رفعت عطا کی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذکر بلند کر دیا جیسا کہ ارشاد فرمایا:
وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (26)
ترجمہ : اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کردیا۔
اور کوئی خطیب اور کوئی نمازی ایسا نہیں جو یہ ندا نہ دیتا ہو’’ اَشْهَدُ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰهِ ‘‘یوں اللہ تعالیٰ نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملادیا۔ (27)
درس و نصیحت
کتابِ الٰہی کا درس دینا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سنت ہے کہ تمام معزز رسولوں نے اپنی کتابوں اور صحیفوں کا درس دیا اور رُسُل ِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے بعد جن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو سابقہ کتابوں کی ترویج و درس کےلئے بھیجا گیا وہ بھی اُن کتابوں کا درس دیتے رہے ۔ اسی لئے حقانی و ربانی علماء ِ دین وارثین و نائبین ِ انبیاء ہیں اور ان کی بڑی فضیلت ہے کیونکہ علماء بھی کتاب اللہ کا درس دیتے ہیں اوریونہی بڑے سعادت مند ہیں وہ لوگ جو لوگوں تک اللہ کی کتاب اور دین کو پہنچانے میں کوشش کرتے ہیں جیسے آگے ذکرکردہ آیت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی لوگوں کو اللہ والا بننے کا حکم دیتے تھے اور کتابُ اللہ کے درس کو باعث ِ شرف قرار دیتے تھے۔قرآنِ پاک میں ہے:
مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَۙ(۷۹)(28)
ترجمہ : کسی آدمی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ اسے کتاب و حکمت اور نبوت عطا کرے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میری عبادت کرنے والے بن جاؤ بلکہ وہ یہ کہے گا کہ اللہ والے ہوجاؤ کیونکہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور اس لئے کہ تم خود بھی اسے پڑھتے ہو۔
البتہ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ غیرِعالم کا اپنی طرف سے درسِ قرآن دینا جائز نہیں بلکہ وہ ماہر عالم کی لکھی ہوئی تفسیر سے ہی پڑھ کر سنائے اوریونہی علماء میں سے بھی انہیں ہی درسِ قرآن دینا چاہئے جنہوں نے معتبر علماءِ کرام سے باقاعدہ قرآن و حدیث کا علم سیکھا ہو اوراچھی طرح اِصلاح لی ہو اور دیگر ضروری علوم کا مُعْتَدْبِہا (اچھا خاصا) مطالعہ کیا ہو۔
1…ارشاد الساری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ذکر ادریس علیه السلام، ۷/۲۸۶.
2… در منثور، مریم، تحت الاٰیة:۵۶، ۵/۵۱۷، ملتقطاً.
3…ابن کثیر، مریم، تحت الاٰیة:۵۷، ۵/۲۱۴.
4…تاریخ ابن عساکر، عبد الرحمن بن سعید بن بشیر، ۳۴/۳۸۵.
5…،خازن، مریم، تحت الاٰیة:۵۶، ۳/۲۳۸، روح البیان، مریم، تحت الاٰیة:۵۶، ۵/۳۴۱.
6…بہار شریعت، ۳/۱۰۳۷۔
7… مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب تحریم الکلام فی الصلاة…الخ، ص۲۱۶، حدیث:۱۱۹۹.
8…شرح نووی، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحریم الکلام فی الصلاة، ۳/۲۳، الجزء الخامس.
9… فتاویٰ رضویہ، ۲۳/۳۴۵، ۳۴۶۔
10…پ۱۶،مریم:۵۶.
11… احیاء علوم الدین، کتاب النیة والاخلاص والصدق، الباب الثالث فی الصدق وفضیلته وحقیقته، ۵/۱۱۷.
12…پ۱۷،الانبیاء:۸۵ ،۸۶.
13… البحر المحیط،اٰل عمران، تحت الاٰیة:۳۹،۲/۴۶۹،ملخصاً.
14… پ۱۷،الانبیاء:۸۵ ،۸۶.
15… پ۱۶،مریم:۵۷.
16…پ۱۶،مریم:۵۷.
17… خازن،مریم،تحت الاٰیة:۵۷، ۳/۲۳۸.
18…پ۱۶،مریم:۵۷.
19…. بغوی،مریم،تحت الاٰیة:۵۷، ۳/۱۶۷،ملخصاً.
20….ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته و دفنه، ۲/۲۹۱، حدیث:۱۶۳۷.
21…در منثور، کهف، تحت الاٰیة:۶۰، ۵/۴۳۲.
22… ملفوظات اعلیٰ حضرت،ص۴۸۴۔
23…پ۴،اٰل عمران:۱۸۵.
24… ملفوظات اعلیٰ حضرت،ص۴۸۴۔.
25…پ۱۶،مریم:۵۷.
26… پ۳۰،الم نشرح:۴
27…البدایة والنہایة، قصة حبس الشمس علی یوشع، ۴/۷۰۲، ملخصاً.
28…پ۳،اٰل عمران:۷۹.
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع