30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ ۵۸۵ھ ‘‘ لکھا ہے یقینایہ کتابت کی غلطی ہے کیونکہ ’’ ۵۸۵ھ ‘‘ میں تو علامہ قَسْطَلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی، آپ کا سن ولادت ’’ ۸۵۱ ھ ‘‘ ہے ، مواہب لدنیہ اور حجۃ اللّٰہ علی العالمین میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ ’’ ۸۸۵ھ ‘‘ میں پیش آیالہٰذا ہم نے یہی سن لکھا ہے۔علمیہ
الطبقات الکبریٰ لابن سعد میں ہے کہ ’’ و ہم تسعمائۃ ‘‘ یعنی وہ نو سو تھے جبکہ تاریخ مدینہ دمشق اور دیگر میں سات سو ہی لکھا ہے، ہو سکتا ہے مصنف کے پاس الطبقات الکبریٰ لابن سعدکا جو نسخہ ہو اس میں ’’ و ہم سبعمائۃ‘‘ ہی ہو۔ و اللّٰہ تعالٰی اعلم۔ علمیہ
کم و بیش پچھلی پون صدی سے سیرتِ رسول عربی کی طباعت کا سلسلہ جاری ہے اس طویل ترین عرصہ میں مرورِ زمانہ کے ساتھ طباعت و اشاعت کے انداز بھی بدلتے رہے لہٰذا اس طرح کی اغلاط کا ہونا خارج از امکان نہیں ، بہر حال علمیہ کے مَدَنی علما نے ان اَغلاط کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔
جہاں نبی اَکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نام نامی یا آپ کے ذکر کے ساتھ درودِ پاک لکھنے سے رہ گیا تھا وہاں درودِ پاک لکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے نیز صحابہ کرام اور دیگر بزرگانِ دین کے ناموں کے ساتھ بھی ترضیہ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) اور ترحم (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) لکھنے کی ترکیب کی گئی ہے۔
علاماتِ ترقیم (Punctuation Marks) یعنی کاما، فل اسٹاپ، کالن، انورٹڈ کاماز) (Inverted Commas وغیرہ کا ضرورتاً اہتمام کیا گیا ہے۔
کتاب کو خوبصورت بنانے کے لیے ہیڈنگز (Headings) ، قرآنی آیات، بعض عبارات ، نمبرنگ اور بارڈروغیرہ کی ترکیب ڈیزائنگ سافٹ ویئر Corel Draw کے ذریعے کی گئی ہے۔
دو مرتبہ پوری کتاب کی پروف ریڈنگ کی گئی ہے ۔
اَ لْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کتاب پر شعبہ تخریج ( المدینۃ العلمیۃ) کے6 اِسلامی بھائیوں نے کام کرنے کی سعادت حاصل کی بالخصوص ابن داود محمد عرفان عطاری مَدَنی، ابن حنیف محمد سعید عطاری مَدَنی اور ابوعتیق محمد نوید رضا عطاری مَدَنی نے خوب کوشش کی، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ان کی سعی قبول فرما کر ذریعہ نجات بنائے ۔سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام کام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا کردہ توفیق ہی سے ممکن ہوا، اگر توفیق الٰہی شامل حال نہ ہوتی تو یہ کام نہ ہوپاتا، اسی نے اس کام کے اَوصاف اور محاسن سُجھائے اور اپنے حبیب کے صدقے میں انہیں دل میں ڈالا لہٰذا اس کام کی تمام خوبیاں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عنایت سے ہیں نیز علمائے کرام رَحِمَہُمَ اللّٰہُ السَّلَام بالخصوص شیخ طریقت امیر اہلسنّت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطارؔ قادری ضیائی مدظلہ العالِی کے فیضان کا صدقہ ہے کہ اس انداز میں یہ کام ہو پایا۔ اور باوجود احتیاط کے جو خامیاں رہ گئیں انہیں ہماری طرف سے نا دانستہ کوتاہی پر محمول کیا جائے۔ قارئین خصوصاً علماء کرام دَامَتْ فُیُوْضُہُم سے گزارش ہے اگر کوئی خامی آپ محسوس فرمائیں یا اپنی قیمتی آراء اور تجاویز دینا چاہیں توہمیں تحریری طور پر مطلع فرمائیے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنی رضا کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوت ِاسلامی کی مجلس ’’ المدینۃ العلمیۃ ‘‘ اور دیگر مجالس کو دن گیارھویں رات بارھویں ترقی عطافرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم
شعبہ تخریج المدینۃ العلمیۃ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الحمد للّٰہ ذی الجلال والاکرام والصلوۃ والسلام علٰی سیدنا ومولٰـــنا ووسیلتنا فی
الدارین محمد خیر الانام وعلٰی اٰلہ واصحابہ وازواجہ وذریتہ وأتباعہ الٰی یوم البعث والقیام ۔
امّابعد: گورنمنٹ کالج لاہور کی پروفیسری سے سبکدوش ہونے کے کچھ عرصہ بعد فقیر توکلی نے حضرات خواجگانِ نقشبندیہ قَدَّسَ اللّٰہُ تَعَالٰی اَسْرَارَہُمْ کے حالات لکھنے شروع کیے۔ پہلے یہ ارادہ تھا کہ ان کے شروع میں چند صفحے وقف حالاتِ مبارک حضور امام الاولیاء محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکردیئے جائیں گے مگر جب وہ کتاب اِختتام کے قریب پہنچی تو یہ شوق پیدا ہوا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے سوانح اَقدس میں ایک مستقل کتاب لکھوں چنانچہ سیرت کا ایک نہایت مختصر سا خاکہ ذہن نشین کرکے طبع آزمائی کرنے لگا۔ عنایت الٰہی اور حضور تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی روحانی مدد شامل حال ہوئی، پھر کیا بیان کروں ! حالات تھے پیارے پیارے، جذبہ شوق میرے قلم کو کشاں کشاں کہیں سے کہیں لے گیا اور غایت اِختصار کے باوجود یہ کتاب تیار ہوگئی جو قارئین کرام کے سامنے ہے۔
حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی سیرت سے واقف ہونا ہر ایک مسلمان پر فرض ہے کیونکہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حسبِ ارشادِ الہٰی مسلمانوں کے لیے واجب التقلید نمونہ ہیں ، اسی واسطے حضور کے اَقوال و اَفعال ، اَخلاق و عادات، حرکات و سکنات، وَضع و قطع، رَفتار و گفتار اور طریق معاشرت وغیرہ سب کے سب بطریق اسناد نہایت صحت کے ساتھ محفوظ ہیں تاکہ وہ قیامت تک آپ کے نام لیواؤں کے لیے دَستورالعمل بنیں ۔
اسی دستور العمل میں رضائے مولیٰ کریم جَلَّ شَانُہ اور مسلمانوں کی ترقی کا راز مضمر ہے۔ مسلمان اگر اَغیار کی غلامی سے آزادی چاہتے ہیں تو وہ حضو رِ اَنور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی غلامی اِختیار کریں اور جمیع اُمور میں آپکے ارشادات کی تعمیل ، آپ کے طرز ِ عمل کا اِتباع، آپ کے قوانین کی پابندی، آپ کے اطوار و عادات کی پیروی اور آپ کی ذات مَنْبَع البرکات کی انتہائی محبت اور تعظیم و توقیر ملحوظ رکھیں ۔ حضوربِاَبِیْ ھُوَ وَاُمِّیْ تو یہاں تک فرمارہے ہیں کہ ’’ تم میں سے کوئی مومن نہیں بن سکتا ، جب تک کہ میں اس کی نظر میں اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ۔ ‘‘ کامل و حقیقی ایمان اسی کا نام ہے، ایسے ہی مومنوں کے لیے اللّٰہ تعالٰی نے وَاَنْتُم الْاَعْلَون کا مژدہ سنایا ہے، عرب کو دیکھئے پہلے ان کی مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور تمدنی حالت کیسی گری ہوئی اور ناگفتہ بہ تھی مگر جب وہ درس گاہِ محمد ی سے اس حقیقت کی سند لے کر نکلے، تو کیاکیا بن گئے، معارفِ ربانی کے عارِف اور اَسرارِ فرقانی کے ماہربن گئے ، شب بیدار عابد بن گئے، فاتح عالم بن گئے، مبلغ اسلام بن گئے،
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع