30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ایک دن رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کے ساتھ کعبہ میں داخل ہونے کے اراد ے سے آئے۔ میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دُرُشْت کلامی ([1] ) کی اور آپ کو برا بھلا کہا مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے درگزر کیا اور فرمایا: ’’ عثمان تو یقینا عنقریب ایک دن اس کنجی کو میرے ہاتھ میں دیکھے گاکہ جہاں چاہوں رکھ دوں ۔ ‘‘ میں نے کہا: اس دن بیشک قریش ہلا ک ہو جائیں گے اور ذلیل ہو جائیں گے۔ اس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: بلکہ زندہ رہیں گے اور عزت پائیں گے اور آپ کعبہ میں داخل ہوئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس ارشاد نے مجھ پر اثر کیا۔ میں نے گمان کیا کہ جیسا آپ نے مجھ سے فرمایا عنقریب ویسا ہی ہوجائے گا اور اراد ہ کیا کہ مسلمان ہو جاؤں مگر میری قوم مجھ سے نہایت درشت کلامی کر نے لگی۔ جب فتح مکہ کا دن آیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: عثمان! کنجی لا، آپ نے کنجی مجھ سے لی پھر وہی کنجی مجھے دے دی اور فرمایا: لو یہ پہلے سے تمہاری ہے اور تمہارے ہی پاس ہمیشہ رہے گی۔ ظالم کے سوا اسے کوئی تم سے نہ چھینے گا۔ عثمان! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تم کو اپنے گھر کا امین بنا یا ہے۔ پس اس گھر کی خدمت کے سبب سے جو کچھ تمہیں ملے اسے دَستور ِشرعی کے موافق کھاؤ۔ جب میں نے پیٹھ پھیر ی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے پکارا میں پھر حاضر ہوا۔ فرمایا: کیا وہ بات نہ ہوئی جو میں نے تجھ سے کہی تھی۔ اس پر مجھے ہجرت سے پہلے مکہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وہ قول یاد آگیا۔ میں نے عرض کیا: ’’ ہاں (وہ بات ہوگئی) میں گو اہی ([2] ) دیتا ہوں کہ ’’ آپ اللّٰہ کے رسول ہیں ۔‘‘ ([3] ) اس حدیث میں تین پیشگوئیاں ہیں ۔ وہ تینوں پوری ہوگئیں ۔
اس روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دیر تک مسجد میں رونق افروزرہے۔ نماز کا وقت آیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم سے حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کعبہ کی چھت پر اذان کہی۔ ابوسفیان بن حرب اور عتاب بن اسید اور حارث بن ہشام کعبہ کے صحن میں بیٹھے ہو ئے تھے اذان کی آواز سن کر عتاب بولا کہ خدا نے اسید کو یہ عزت بخشی کہ اس نے یہ آواز نہ سنی ورنہ اسے رنج پہنچتا۔ حارث بولا: خدا کی قسم! اگر یہ حق ہو تا تو میں اس کی پیروی کرتا۔ حضرت ابو سفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: میں تو کچھ نہیں کہتااگر کہوں تو یہ کنکریاں ان کو میرے قول کی خبر دیں گی۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان لوگوں کے پاس ہو کر نکلے تو فرمایاکہ تمہاری باتیں مجھے معلوم ہو گئیں تم نے ایسا ایسا کہا ہے۔ حارث وعتاب یہ سنتے ہی کہنے لگے: ’’ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خدا عَزَّوَجَل کے رسول ہیں ۔ان باتوں کی اطلاع کسی اور کو نہ تھی ورنہ ہم کہہ دیتے کہ اس نے آپ کو بتا دیں ۔ ‘‘ ([4] )
مسجد سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہِ صفاپر تشریف لے گئے۔وہاں مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کر کے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک پر بیعت کی۔ مر دوں میں حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور مستورات میں ان کی والدہ ہند بھی تھی جو حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا کلیجہ چباگئی تھی۔
عفوعام سے نو یادس اشخاص مستثنیٰ تھے جن کی نسبت حکم دیا گیا تھا کہ جہاں ملیں قتل کر دیئے جائیں ۔ اس حکم کی وجہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذاتی انتقام نہ تھابلکہ اور مختلف جرم تھے۔ ان میں سے صرف تین یعنی ابن خَطَل، مِقْیَس بن صُبَابہ اور ابن خَطَل کی کنیز قُرَیبہ قتل ہو ئے۔ ابن خَطَل اور مِقْیَس قصاص میں قتل کیے گئے۔ قُرَیبہ اسلام کی ہَجوگا یا کر تی تھی۔ باقی سب کو امن دیا گیا اور ایمان لا ئے۔ ایک دشمن ِاسلام عیسا ئی مصنف ان دس اشخاص کی تفصیل دے کر یوں لکھتا ہے۔ ([5] )
’’ اس طرح عفو کے مقابلہ میں حکم قتل کی صورتیں کا لعد م تھیں اور سز ائے موت جہاں فی الو اقع عمل میں آئی (شاید با ستثنائے مُغَنِّیہ) محض پو لیٹیکل مخالفت کے سوا اور جرموں کی وجہ غالباً روا تھی۔ جس عالی حوصلگی سے (حضرت) محمد نے اس قوم سے سلوک کیا جس نے اتنی دیر آپ سے دشمنی رکھی اور آپ کا انکار کیاوہ ہر طرح کی تحسین وآفرین کے قابل ہے۔ حقیقت میں گز شتہ کی معافی اور اس کی گستاخیوں اور اذیتوں کی فراموشی آپ ہی کے فائد ے کے لئے تھی مگر تا ہم اس کے لئے ایک فرَّاخ وفیاض دل کی کچھ کم ضرورت نہ تھی۔ ‘‘
فتح مکہ کے دوسرے روز خُزاعہ نے ہذیل کے ایک شخص کو جو مشرک تھا قتل کر ڈالا اس پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حمد وثنا کے بعد یوں خطاب ([6] ) فرمایا:
اِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَھَا اللّٰہُ وَلَمْ یُحَرِّمْھَا النَّاسُ لَا یَحِلُّ لِاِمْرِیئٍ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یَّسْفِکَ بِھَا دَمًا وَّلَا یَعْضِدَ بِھَا شَجَرًا فَاِنْ تَرَخَّصَ اَحَدٌ لِقِتَالِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلیْہِ وَسَلَّمَ فِیْھَا فَقُوْلُوْا لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ اَذِنَ لِرَسُوْلِہٖ وَلَمْ یَاْذَنْ لَکُمْ وَاِنَّمَا اَذِنَ لِی فِیْھَا سَاعَۃً مِّنْ نَّھَارٍ وَّقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُھَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِھَا بِالْاَمْسِ وَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الَْغَائِبَ ۔ ([7] )
تحقیق مکہ کو اللّٰہ نے حرام کر دیا اور لوگوں نے حرام نہیں کیا جو شخص خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے جائز نہیں کہ اس میں خون بہائے اور نہ اس کا درخت کا ٹے اگر کوئی اس میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جنگ کے سبب سے قتال کو رخصت کہے تو اس سے کہہ دو کہ خدانے اپنے رسول کو اجازت دی تم کو اجازت نہیں دی، مجھے بھی دن کی ایک ساعت اجازت دی گئی اور آج پھر اس کی حرمت ایسی ہو گئی جیسا کہ کل (فتح سے پہلے ) تھی، چاہیے کہ جو یہاں حاضر ہے وہ غائب کو یہ پیغام پہنچا دے۔
جب مکہ بتو ں سے پاک ہو چکا تو مکہ کے گر دجوبت (منات، لات، عزیٰ، سواع) تھے وہ سرایا کے ذریعہ سے منہدم کر دیئے گئے۔
فتح مکہ کا اثر قبائل عرب پر نہایت اچھا پڑاوہ اب تک منتظر تھے اور کہا کر تے تھے کہ (حضرت) محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) اور ان کی قوم کو آپس میں نپٹ لینے دو اگر وہ قریش پر
[1] سخت کلامی۔
[2] حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ معجزہ دیکھ کر تجدید شہادت کی ورنہ یہ معلوم ہے کہ آپ سال فتح سے پہلے اسلام لاچکے تھے۔۱۲منہ
[3] طبقات ابن سعد (متوفی ۲۳۰ھ) (المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۴۶۹ملتقطاً۔ علمیہ)
[4] سیرت ابن ہشام۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،دخول رسول الحرم،ص۴۷۴۔ علمیہ)
[5] لائف آف محمد، مولفہ سرولیم میور صاحب۔ (سبل الھدی والرشاد،فی غزوۃ الفتح الاعظم۔۔۔الخ،ج۵،ص۲۲۴-۲۲۶ و۲۴۷۔ علمیہ)
[6] صحیح بخاری و سیرت ابن ہشام۔
[7] صحیح البخاری،کتاب المغازی،۵۳۔باب،الحدیث:۴۲۹۵،ج$&'); container.innerHTML = innerHTML; }
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع