30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
مصنف اور علمیہ کے حوالہ جات میں تفریق کے لیے علمیہ کی تخاریج کے آخر میں علمیہ لکھا ہے نیز مصنف کے حواشی کے آخر میں ’’ ۱۲مِنْہ ‘‘ اورعلمیہ کے حواشی کے آخر میں علمیہ لکھا ہے۔
جہاں مصنف اور علمیہ دونوں کے حوالے اکٹھے ہو گئے ہیں وہاں پہلے مصنف کا حوالہ اور کچھ فاصلہ دے کر بین القوسین علمیہ کی تخریج لکھی گئی ہے اور تفریق کے لیے دونوں کے رسم الخط (FontStyle) جدا جدا رکھے ہیں ۔
حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ تمام روایات و واقعا ت کے حوالہ جات ذکر کر دئیے جائیں تاہم جہاں تخریج نہیں دی گئی وہاں یا تو متعلقہ کتاب میسر نہ آسکی یا پھر وہ روایت ہمیں دیگر کتب میں نہ مل سکی ۔ایسے چند مقامات پر مصنف کی ذکر کردہ کتاب کا فقط نام لکھ دیا گیا ہے تاکہ آیندہ کتاب میسر آجانے کی صورت میں تفصیل لکھ دی جائے اور متن و حواشی کی دوبارہ فارمیشن نہ کرنا پڑے۔
جن کتب سے تخریج کی گئی ہے آخر میں ان تمام کی فہرست ’’ مآخذ و مراجع ‘‘ کے نام سے بنائی گئی ہے اور اس فہرست میں مصنفین و مؤلفین کے نام مع سنِ وَفات ، مطابِع اور سن طباعت بھی ذکر کر دئیے گئے ہیں ۔
مشکل الفاظ کے معانی اور اعراب کا اہتمام
مشکل اور غیرمعروف الفاظ کے معانی اور جہاں ضروت محسوس ہوئی وہاں تسہیل کا التزام کیا گیا ہے اور جابجا الفاظ پر اعراب بھی لگائے گئے ہیں ۔ یہ انتہائی محنت اور وقت طلب کام تھے جن کے لیے عربی ، اردو اورفارسی لغات سے استفادہ کیا گیا ہے اور اَعلام یعنی احادیث و واقعات کے راویوں ، کتابوں کے مصنفین اور مقامات وغیرہ کے ناموں پر اعراب کے لیے لغات کے علاوہ سیرت و تاریخ کی کتب کی طرف مراجعت کی گئی ہے۔
آیات میں قرانی رسم الخط ( خط عثمانی) بر قرار رکھنے کے لیے تمام آیات ایک مخصوص قرانی سافٹ وئیر سے Corel Draw کے ذریعے پیسٹ کی گئی ہیں ۔
آیاتِ قرآنیہ اور ترجمہ بطورِ سابق آمنے سامنے لکھا گیاہے۔
متن میں مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ کا ترجمہ برقرار رکھتے ہوئے کنز الایمان کا ذوق رکھنے والوں کیلئے حاشیہ میں ترجمہ کنز الایمان بھی پیش کیاگیا ہے۔
جہاں مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے قران کی کسی آیت کی طرف ایک دو لفظ لکھ کر اشارہ کیا ہے ضرورتاً حاشیہ میں وہ آیت اور ترجمہ کنز الایمان دونوں لکھے گئے ہیں ۔
مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰیعَلَیْہ نے حاشیہ میں جوآیات تحریر فرمائیں یا آیات متن میں پیش کیں اور حوالہ حاشیہ میں دیا تو علمیہ کی طرف سے اسی کے آگے بین القوسین ترجمہ کنزالایمان کا اہتمام کیا گیاہے اور آخر میں علمیہ لکھا گیا ہے۔
جن آیات کا ترجمہ مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے نہیں لکھا حاشیہ میں ان کا ترجمۂ کنز الایمان سے لکھ دیا گیا ہے۔
آیات اور تراجم کا تقابل کنزالایمان ( مطبو عہ مکتبۃ المدینہ) سے دو مرتبہ کیا گیا ہے۔
مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بیشتر مقامات پر عربی اور فارسی عبارات نقل فرمائی ہیں نیزکئی مقامات پر عربی اور فارسی میں اشعار بھی ذکر کیے ہیں ان تمام کی تطبیق کے لیے حتی المقدور اصل کتب کی طرف مراجعت کی گئی ہے ۔
دورانِ تخریج بعض مقامات پر اَعلام اور روایات کے الفاظ میں واضح اختلاف و تفاوت سامنے آیا جس کی تصحیح کے لیے مخرجین (تخریج کرنے والے) اسلامی بھائیوں نے کافی محنت کی ۔ایک ایک مقام کو متعدد کتب میں دیکھ کر کہیں تصحیح اور کہیں توضیح فرمائی اورحواشی میں ان کی وضاحت بھی کر دی ہے ۔بعض حواشی ملاحظہ فرمائیے! مثلاً
جہاں راوی کے ناموں میں اختلاف تھاوہاں تصحیح کرکے حاشیہ میں یوں وضاحت کی گئی:
سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں اس حدیث کے راوی کانام حضرت ’’ ابو بکر صدیق ‘‘ لکھا ہے یقینایہ کتابت کی غلطی ہے کیونکہ ’’ مشکاۃ المصابیح ‘‘ (جس کا مصنف نے حوالہ دیا ہے ) ’’ ابوداود ‘‘ اوردیگر کتب میں یہ حدیث حضرت ’’ ابو بکرہ ‘‘ سے مروی ہے لہٰذاہم نے یہاں حضرت ’’ ابو بکر صدیق ‘‘ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) کے بجائے حضرت ’’ ابو بکرہ ‘‘ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) لکھا ہے۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ علمیہ
سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں اس طرح لکھا ہے : عبید بن جریح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ اس نے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔الخ، جبکہ ’’ شمائل ترمذی ‘‘ میں ہے: ’’ عن عبید بن جریج انہ قال لابن عمر رأیتک تلبس النعال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔الخ ‘‘ اس کے علاوہ بخاری ، مسلم، دلائل النبوۃ للبیہقی ، سبل الہدی و الرشاد اور حدیث و سیرت کی دیگر کتب میں بھی (الفاظِ مختلفہ کے ساتھ اس روایت میں ) ’’ عبید بن جریج ‘‘ اور ’’ ابن عمر ‘‘ کا ذکر ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ عبید بن جریح ‘‘ اور ’’ عمر ‘‘ کے بجائے ’’ عُبید بن جُریج ‘‘ اور ’’ ابن عُمَر ‘‘ لکھا ہے ۔و اللّٰہ تعالی اعلم بالصواب۔ علمیہ
شخص کے نام میں تصحیح کے بعد حاشیہ کی یوں ترکیب کی گئی:
سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ زید بن مثنہ ‘‘ لکھا ہے یہ ہمیں نہیں ملا البتہ ’’ السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، اسد الغابۃ ، المستدرک علی الصحیحن للحاکم ‘‘ اور حدیث و سیرت کی دیگرکتب میں ’’ زَید بن دَثِنَّہ ‘‘ ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ زَید بن مثنہ ‘‘ کے بجائے ’’ زَید بن دَثِنَّہ ‘‘ لکھا ہے ۔و اللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب ۔علمیہ
کتب و رسائل کے ناموں میں تصحیح کے بعد یوں حاشیہ دیا گیا:
سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں اس رسالے کا نام ’’ نہایت الاعجاز فی درایت الاعجاز ‘ ‘لکھا ہے جو کہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہمارے پیش نظر دارِ صادر بیروت (الطبعۃ الاولی، ۱۴۲۴ھ -۲۰۰۴م) کا نسخہ ہے جس پر ’’ نہایۃ الایجاز فی درایۃ الاعجاز ‘‘ لکھا ہے لہٰذا ہم نے اسی کے مطابق تصحیح کی ہے ، واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ علمیہ
سن اور تعداد میں اختلاف کی وضاحت اس طرح کی گئی:
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع