30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قریش مجھ سے کسی ایسی حاجت کا سوال نہ کریں گے جس سے وہ حُرُمَات اللّٰہ ([1] ) کی تعظیم کریں مگر میں وہ انہیں عطا کر دوں گا۔ ‘‘ اس کے بعد آپ نے قصواء کو جھڑ ک دیا اور وہ اٹھ کھڑی ہو ئی اور آپ مڑ کر حد یبیہ ([2] ) کی پَر لی طرف ([3] ) ایک کوئیں پراتر ے جس میں پا نی کم تھا۔ موسم گرما تھاپانی جلدی ختم ہو گیا اور آپ کی خدمت اقدس میں پیاس کی شکایت آئی۔ آپ نے پانی کی ایک کُلِّی کو ئیں میں ڈال دی جس سے پانی بکثر ت ہو گیا اور چھاگل ([4] ) میں اپنا دست مبارک رکھ دیاتو آپ کی انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی نکلنے لگا۔ ان دونوں معجز وں کا ذکر اس کتاب میں آگے آئے گا۔
اسی اَثنا ء میں بُدَیل ([5] ) بن وَرْ قاء خُزَاعی اپنی قوم کے چند اشخاص کے ساتھ خدمت اقدس میں حاضر ہواکہنے لگا کہ قبائل کَعْب بن لُؤی اور عامر بن لُؤی حُدَیبیہ کے آبِ کثیر پر اتر ے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ دُودھیل ([6] ) اونٹنیاں اور عورتیں بچو ں سمیت ہیں ۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جواب دیا: ’’ ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے بلکہ صرف عمرہ کے ار ادہ سے آئے ہیں۔ لڑائی نے قریش کو کمزور کر دیا ہے اور نقصان پہنچایا ہے اگر وہ چاہیں توہم ایک مدت کے لئے ان سے جنگ کا اِلتوائ ([7] ) کر دیتے ہیں باقی لوگوں سے ہم خود سمجھ لیں گے۔اگر میں غالب آجاؤں اور بصورت غلبہ وہ میری اطا عت میں آنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں اگر انہوں نے انکار کر دیاتو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے ضرور لڑتا رہوں گایہاں تک کہ میں اکیلا رہ جاؤں اللّٰہ تعالٰی اپنے دین کی ضرورمدد کرے گا۔ ‘‘ بُدَیل نے عرض کیا کہ میں آپ کا یہ ارشاد ان تک پہنچا دوں گا۔ چنانچہ وہ قریش میں ا ٓکر کہنے لگاکہ میں اس مرد (رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کا قول سن آیا ہوں اگر چاہو تو گزارش کردوں ۔ ان میں سے ایک نا دان بو لا کہ ہم اس کی کسی بات کے سننے کے لئے تیار نہیں ۔ ایک صاحب الر ائے ([8] ) نے کہا کہ بیان کیجئے جو اس سے سن آئے ہو۔ اس پر بدیل نے بیان کر دیا۔ عُر وَہ بن مسعودنے اٹھ کر کہا کہ اس نے ایک نیک امر پیش کیا ہے وہ قبول کر لو اور مجھے اس کے پاس جانے دو۔ چنانچہ عروہ خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور بد یل کی طرح کلام کیا اور وہی جواب پا یا۔ عر وہ نے یہ الفاظ ( میں ان سے ضرور لڑتا رہوں گا ) سن کر عرض کیا: ’’ اے محمد ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) بتا ئیے اگر آپ نے اپنی قوم کو بالکل ہلا ک کر دیا۔ کیا آپ نے عرب میں کسی کی بابت سنا ہے کہ اس نے آپ سے پہلے اپنے اہل کو ہلاک کر دیا ہو۔ اور اگر قریش غالب آگئے تو آپ ان سے امن میں نہ رہیں گے کیونکہ اللّٰہ کی قسم! میں سردار (مکہ ) ہوں اور اَخلاط کو دیکھتا ہوں جو اس لائق ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں ([9] ) ۔ ‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ سن کر کہا: ’’ امصص بظر اللات ([10] ) کیا ہم آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ! ‘‘ اس پر عروہ بولاکہ یہ کون ہے؟ جو اب ملا: ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ پس وہ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یوں مخاطب ہوا: ’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھ پر تیر ااحسان ([11] ) نہ ہو تا جس کا بدلہ میں نے نہیں دیاتو میں تجھے جواب دیتا۔ ‘‘ پھر عر وہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف متوجہ ہو ا۔ جب وہ آپ سے کلام کر تاتو (حسب عادتِ عرب ) آپ کی رِیش مبارک ([12] ) کو چھوتا۔ اس وقت مُغِیر ہ بن شعبہ خَود سر پر تلوار ہاتھ میں لئے آپ کے سر مبارک پر کھڑے تھے۔ جب عروہ اپنے ہاتھ ریش مبارک کی طرف بڑ ھا تاتو مغیر ہ بغر ض تعظیم نیام شمشیر اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ ریش مبارک سے ہاتھ ہٹا ؤ۔ عر وہ نے آنکھ اٹھا کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جواب ملا کہ (تیر ابھتیجا ) مغیر ہ بن شعبہ۔ عر وہ نے یہ سن کر کہا: او بیو فا ! کیا میں تیری دیت ([13] ) میں کوشش نہ کرتا تھا؟ پھر عروہ اصحاب نبی کی طرف دیکھتا رہا۔ اس نے واپس جا کر اپنی قوم سے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اوصاف بیان کیے اور کہا کہ ایک نیک امر جو پیش کیا جارہاہے اسے قبول کر لو۔ پھر حُلَیس بن علقمہ خدمت اَقدس میں حاضر ہوا اس نے بھی واپس جا کر کہا کہ میری رائے ہے کہ مسلمانوں کو بیت اللّٰہ سے نہ روکا جائے۔ حُلَیس کے بعد مِکرَ ز آیاوہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کلام کر ہی رہا تھاکہ خطیبِ قریش سہیل بن عمرو قریشی عامر ی حاضر ہواآ پ نے بطریقِ تَفَاوُل ([14] ) فرمایا کہ اب تمہارا کام کچھ سہل ([15] ) ہوگیا۔ گفتگو ئے صلح کے بعد قرار پا یا کہ دس سال تک لڑائی بندر ہے۔ سہیل نے عرض کیا کہ معاہدہ تحریر میں آجائے۔ پس نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کا تب یعنی حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ
[1] اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت والی اشیاء۔
[2] حدیبیہ مکہ سے ۹ میل کے فاصلہ پر ہے۔۱۲منہ
[3] دوسری طرف۔
[4] مٹی کا وہ برتن جس میں مسافر پانی بھر کر رکھتے ہیں ۔
[5] بدیل مذکور فتح مکہ کے دن ایمان لایا۔ قبیلہ خزاعہ نے زمانہ جاہلیت میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دادا عبدالمطلب کے عہد سے موالات کیا تھا اسی کی رو سے بدیل کا اس موقع پر خدمت اقدس میں حاضر ہونا بغرض خیر خواہی تھا۔۱۲منہ
[6] بہت دودھ دینے والی۔
[7] جنگ کو ملتوی۔
[8] اچھا مشورہ دینے والا ، عقل مند۔
[9] اَخلاط جمع ہے خلط کی یعنی ملے ہوئے مراد یہ کہ آپ کے اصحاب میں ایسے بھی ہیں جو وقت پڑنے پر آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
[10] عربی میں ’’ امصص بظر الام‘‘گالی ہے حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بجائے ام کے لات کہہ دیا۔ اس میں عروہ اور اس کے معبود کی تحقیر ہے۔ وہ لات کو خدا کی بیٹی کہا کرتے تھے، لہٰذا عروہ پر چوٹ ہے کہ لات اگر خدا کی بیٹی ہے تو اس کے لئے وہ چاہئے جو عورتوں میں ہے۔۱۲منہ
[11] ایک دفعہ عروہ کو دِیَت دینی پڑی تھی اس میں حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عروہ کو مدد دی تھی یہ اس کی طرف اشارہ ہے۔۱۲منہ
[12] داڑھی مبارک۔
[13] مغیرہ اور ثقیف کے تیرہ آدمی تحائف لے کر مُقَوْقِس والی مصر کے ہاں گئے تھے جو انعام ملا وہ تیرہ نے لے لیا اور مغیرہ کو کچھ نہ دیا= واپسی پر راستے میں وہ تیرہ شراب پی کر سوگئے۔ مغیرہ نے سب کو قتل کر دیااور مال لے کر مدینہ میں حاضر ہوا اور اسلام لایا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ تیرا اسلام ہم قبول کرتے ہیں مگر مال میں دخل نہیں دیتے۔ اس پر فریقین$&'); container.innerHTML = innerHTML; }
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع