30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ہوا۔فرشتے نظر نہ آتے تھے مگر ان کے افعال نمایاں تھے۔ کہیں کسی مشرک کے منہ اور ناک پر کوڑے کی ضرب کا نشان پا یا جاتا کہیں بے تلوار سر کٹتا نظر آتا کہیں آواز آتی: ([1]) اُ قْدُمْ حَیْزُوْم۔ آخر کفار کو شکست ہو ئی اور وہ بھاگ نکلے۔ خود حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمعریش سے ننگی تلوار عَلم ([2]) کیے یہ پکارتے ہوئے نکلے: ([3]) سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ (۴۵) (قمر، ع۳) ([4])
حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے لڑائی شروع ہو نے سے پہلے ارشاد فرمایا ([5]) تھاکہ ’’ مجھے معلوم ہے کہ بنوہاشم وغیرہ میں سے چند لوگ بجَبْر واِکراہ ([6]) کفار کے ساتھ شامل ہو کر آئے ہیں جو ہم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ اگر ان میں سے کوئی تمہارے مقابل آجائے تو تم اسے قتل نہ کرو۔ ‘‘ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان لوگوں کے نام بھی بتا دیئے تھے۔ازاَنجملہ ([7]) ابو البختری عاص بن ہشام تھا جو مکہ میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو کسی قسم کی اذیت نہ دیا کر تا تھا۔ ابو البختری کے ساتھ جُنادَہ بن مُلَیحہ بھی اس کا رَدِیف ([8]) تھا۔ مُجَذّر بن ذِیاد کی نظر جو ابو البختری پر پڑی تو کہا کہ ’’ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہمیں تیرے قتل سے منع فرمایا ہے اس لئے تجھے چھوڑ تا ہوں ۔ ‘‘ ابو البختری نے کہا: میرے رفیق کو بھی۔ مُجَذّر نے کہا: ’’ اللّٰہکی قسم! ہم تیرے رفیق کو نہیں چھوڑ نے کے، ہمیں رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فقط تیرے چھوڑ نے کا حکم دیا ہے ۔ ‘‘ ابولبختری نے کہا: ’’ تب اللّٰہکی قسم! میں اور وہ دونوں جان دیں گے، میں مکہ کی عورتوں کا یہ طعنہ نہیں سن سکتا کہ ابو البختری نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے رفیق کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ‘‘ جب مُجَذّر نے حملہ کیا توابوالبختری بھی یہ رجز پڑھتا ہو احملہ آور ہوااور مار اگیا۔ ؎
لن یسلم ابن حرۃ زمیلہ حتی یموت او یری سبیلہ ([9])
شریف زادہ اپنے رفیق کو نہیں چھوڑ سکتا جب تک مرنہ جائے یا اپنے رفیق کے بچاؤکی راہ نہ دیکھ لے۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا بڑا دشمن اُمَیَّہ بن خلف بھی جنگ بَدْر میں شریک تھا اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پہلے اسی اُمَیَّہ کے غلام تھے۔اُمَیَّہ ان کو اذیت دیا کر تا تھاتاکہ اسلام چھوڑ دیں ۔ مکہ کی گرم ریت پر پیٹھ کے بل لٹا کر ایک بھاری پتھر ان کے سینے پر رکھ دیا کر تا تھا پھر کہا کر تا تھا: تمہیں یہ حالت پسند ہے یا تر ک اسلام؟ حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس حالت میں بھی ’’ اَحَد ! اَحَد ! ‘‘ پکار اکر تے تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کسی زمانہ میں مکہ میں اُمَیَّہ سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ مدینہ میں آئے گاتو یہ اس کی جان کے ضامن ہوں گے۔ عہد کی پابندی کو ملحوظ رکھ کر حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چاہاکہ وہ میدان جنگ سے بچ کرنکل جائے۔اس لئے اس کو اور اس کے بیٹے کو لے کر ایک پہاڑ پر چڑھے۔ اتفاق یہ کہ حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھ لیا اور انصار کو خبر کر دی۔لوگ دفعۃً ٹوٹ پڑے۔ حضرت عبد الرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُمَیَّہ کے بیٹے کو آگے کر دیا لوگوں نے اسے قتل کر دیا لیکن اس پر بھی قناعت نہ کی اور اُمَیَّہ کی طرف بڑھے۔ اُمَیَّہ چونکہ جسیم وثقیل ([10]) تھااس لئے حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا تم زمین پر لیٹ جاؤ۔ وہ لیٹ گیا تو آپ اس پر چھاگئے تاکہ لوگ اس کو مار نے نہ پائیں مگر لوگوں نے حضرت عبدالرحمنرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ٹانگوں کے اندر سے ہاتھ ڈال کر اس کو قتل کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن کی بھی ایک ٹانگ زخمی ہوئی اور زخم کا نشان مدتوں باقی رہا۔ ([11])
جب میدان کا رزار سر دہو گیا تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ایسا کون ہے جو ابوجہل کی خبر لائے؟ یہ سن کر حضرت عبداللّٰہبن مسعودرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ گئے اور ا سے اس حال میں پایا کہ عَفْراء کے بیٹوں معاذ اور معوذ نے اسے ضرب شمشیر سے گر ایاہوا تھا اور اس میں ابھی رمق حیات باقی تھا۔ ([12]) حضرت ابن مسعودرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس لعین کے سینے پر بیٹھ گئے اور اس کی ناپاک ڈاڑھی کوپکڑکر کہا: کیا تو ابوجہل ہے؟ بتا آج تجھے اللّٰہنے رسواکیا؟ اس لعین نے جواب دیا: ’’ رسواکیا کیا! تمہارا مجھے قتل کر نا اس سے زیادہ ([13]) نہیں کہ ایک شخص کو اس کی قوم نے قتل کرڈالا۔ کاش! مجھے کسان کے سوا کوئی اور قتل کر تا۔ ‘‘ اس جواب میں اس لعین کا تکبر اورانصار کی تحقیر پائی جاتی ہے کیونکہ حضرت معاذ اور معوذرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا انصار میں سے تھے اور انصا رکھیتی باڑی کا کام کیا کرتے تھے۔ پھر حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس لعین کا کام تمام کر دیا اور یہ خبر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت اقدس میں لائے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ سن کر تین بار ’’ اَللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو ‘‘ پڑھا۔ چوتھی باریوں فرمایا: ’’ اَللّٰہُ اَکْبَر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَّقَ وَعْدَہٗ وَ نَصَرَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ ‘‘ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت
[1] حیزوم حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامکے گھوڑے کا نام ہے۔ یعنی اے حیزوم آگے بڑھو۔۱۲منہ
[2] بلند۔
[3] ترجمہ: شتاب شکست کھاوے گی جماعت اور بھاگیں گے پیٹھ دے کرانتہیٰ۔ اس آیت میں نبوت کا ایک نشان ہے کیونکہ مکہ مشرفہ میں نازل ہوئی جس میں پہلے یہ بتایا گیاتھا کہ کفار کو ہزیمت ہوگی۔۱۲منہ
[4] ترجمۂکنز الایمان:اب بھگائی جاتی ہے یہ جماعت اور پیٹھیں پھیر دیں گے۔ (پ۲۷، القمر:۴۵) علمیہ)
[5] سیرت ابن ہشام، غزوۂ بَدْر۔
[6] اپنی مرضی کے خلاف،مجبوراً۔
[7] ان میں سے۔
[8] سوار کے پیچھے بیٹھنے والا۔
[9] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدرالکبری،ص۲۶۰ملتقطاً۔ علمیہ
[10] بھاری بدن والا۔
[11] صحیح بخاری، کتاب الوکالۃ۔ (صحیح البخاری،کتاب الوکالۃ،باب اذا وکل المسلم حربیاً۔۔۔الخ،الحدیث:۲۳۰۱، ج۲،ص۷۸ و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدر الکبری، ص۲۶۰۔ علمیہ)
[12] کچھ سانسیں باقی تھیں ۔
[13] اس لعین کا مطلب یہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع