30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
لباس پہنے ہوئے نظر پڑے جو سراب ([1]) کے آگے حائل تھے۔ وہ یہودی نہایت زور سے بے ساختہ پکار اٹھا: ’’ اے مَعْشَرِعرب! ([2]) لو تمہارا مقصد ومقصود جس کاتم انتظار کر رہے تھے وہ آگیا۔ ‘‘ یہ سن کر مسلمانوں نے فوراً ہتھیار لگا کر حَرَّہِ قُباء کے عقب میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا استقبال کیا اور اظہار مسرت کے لئے نعرۂ تکبیر بلند کیاجس کی آواز بنی عمر وبن عوف میں پہنچی۔یہ قبیلہ مو ضع قُباء میں جو مدینہ سے جنوب کی طرف دو میل کے فاصلہ پر ہے آباد تھا۔اس خاندان کا سر دار کلثوم بن ہِدْم اَنصار ی اَوسی تھا۔ اس سے پہلے اکثر اکابر صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اسی کے ہاں اتر تے تھے۔حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی اسی کو شرفِ نزول بخشا۔
قُباء میں رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نزول ۱۲ رَبیع الا وَّل یوم دو شنبہ ([3]) کو ہوا۔ یہی تاریخ اسلامی کی ابتداء ہے۔ حضرت علی المر تضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمجو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی روانگی کے تین دن بعد مکہ سے چلے تھے یہاں آملے اور یہیں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس مسجد کی بناء ([4]) رکھی جس کی شان میں یہ آیت وارِدہے:
لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ (۱۰۸) (سورۂ توبہ)
البتہ وہ مسجد جسکی بنیاد پہلے دن سے پرہیز گاری پر رکھی گئی ہے زیادہ لائق ہے کہ تو اس میں کھڑا ہو، اس میں وہ مرد ہیں جو پاک رہنے کو دوست رکھتے ہیں اور اللّٰہ پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ([5])
کلثوم بن ہِدْم کی ایک اُفتادہ زمین ([6]) تھی جہاں کھجوریں خشک ہو نے کے لئے پھیلا دی جاتی تھیں ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے یہ زمین لے کر مسجد مذکور کی بنیا در کھی۔اس مسجد کی تعمیر میں دیگر اصحاب کے ساتھ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود بھی بغر ضِ تَشْوِیق وَتر غیب ([7]) کا م کر تے تھے۔ شَمُوس بنت نعمان اَنصار یہ مدنیہ کا بیان ہے کہ میں دیکھ رہی تھی کہ ’’ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اتنا بھاری پتھر اٹھا تے کہ جسم اَطہر خم ہو جاتا اور بطن شریف پر مجھے مٹی کی سفید ی نظر آجا تی۔ ‘‘ آپ کے اصحاب میں سے اگر کوئی عقیدت مند آکر عرض کرتا: ’’ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیرے ماں باپ آپ پر فدا! چھوڑ دیجئے میں اٹھاتا ہوں ۔ ‘‘ تو آپ فرماتے: ’’ نہیں ! تم ایسا اور پتھر اٹھا لو اور خود اسی کو عمارت میں لگا تے۔ ‘‘ اس تعمیر میں حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آپ کو سمت قبلہ بتا رہے تھے۔ اسی واسطے کہا جاتا تھا کہ اس مسجد کا قبلہ اَعْدَل واَقو َم ([8]) ہے۔ ([9])
حضرت عبد اللّٰہ بن رَواحہ خَزر جی شاعر بھی تعمیر مسجد میں شامل تھے اور کام کرتے ہوئے یوں کہتے جاتے تھے:
اَفْلَحَ مَنْ یُّعَالِجُ الْمَسَاجِدَاوَ یَقْرَئُ الْقُرْاٰنَ قَآئِماً وَّ قَاعِدَاوَ لَا یَبِیْتُ اللَّیْلَ عَنْہُ رَاقِدَا
’’ وہ کامیاب ہے جو مسجدیں تعمیر کرتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے اور رات کو جاگتا رہتا ہے۔ ‘‘ ([10]) آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبھی ہر ہر قافیہ کے ساتھ آواز ملاتے جاتے تھے۔ ([11])
قباء میں چار (چودہ یابیس) روز قیام رہا۔ یہاں سے جمعہ کے دن باطن مدینہ ([12]) کو روانہ ہوئے۔ مہاجرین وانصار ساتھ تھے۔انصار کے جس قبیلہ پر سے گز رہو تا اس کے سَربَرآوَردَہ ([13]) عقیدت مند عرض کرتے: ’’ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہماری نصرت وحمایت میں اترئیے۔ ‘‘ آپ اِظہارِ مِنَّت ([14]) و دعائے خیرکے بعد فرماتے کہ ’’ میرا ناقہ مامور ہے، اس کا راستہ چھوڑ دو۔ ‘‘ راستے میں بنو سالم خَزْرَجی کے محلہ میں جمعہ کا وقت آگیا۔ آپ نے وادی ذِی صَلْب کی مسجد میں نما زجمعہ مع خطبہ ادا کی۔ یہ آپ کاپہلا جمعہ اور پہلا خطبہ تھا۔ اس طرح بنی بَیَاضَہ، بنی ساعِدَہ اور بنی حارِث بن خَزْرَج سے گزرتے ہوئے بنی عَدِی بن نَجَّار میں پہنچے جو آپ کے دادا عبدالمُطَّلِب کے نَنِہَال تھے۔ سَلِیط بن قیس نجَّاری خَزْرَجی وغیرہ نے نَنِہَالی ر شتہ کو یاد دلا کر اِقامت کے لئے عرض کیا، مگر ان کو بھی وہی جواب ملا۔ بعد ازاں آپ کا ناقہ محلہ مالک بن نجار میں اس جگہ بیٹھ گیا جہاں اب مسجد نبوی ہے۔ پھر اٹھ کر قدرے آگے بڑھا اور مڑ کر پہلی جگہ بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا: ان شآء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یہی منزل ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری خزرجی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کی اجازت سے آپ کا سامان اٹھا کر اپنے گھر لے گئے اور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہ فرماکر اَلْمَرْئُ مَعْ رَحْلِہِ وہیں تشریف فرما ہوئے۔ ؎
[1] زمین کی وہ چمک جو چاند سورج کی روشنی پڑنے سے پیدا ہوتی ہے اور جس پر پانی کا دھوکا ہوتا ہے۔
[2] اے عرب کے گروہ۔
[3] بروز پیر۔
[4] بنیاد۔
[5] ترجمۂکنز الایمان: بے شک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہواس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللّٰہ کو پیارے ہیں ۔(پ۱۱،التوبۃ:۱۰۸) علمیہ
[6] ناکارہ زمین۔
[7] شوق و ترغیب دلانے کے لیے۔
[8] برابر و درست۔
[9] اصابہ للحافظ ابن حجر، ترجمہ شموس بنت نعمان، نیز وفاء الوفا ئ۔
[10] الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،الشموس بنت النعمان،ج۸،ص۲۰۴ووفاء الوفاء للسمہودی،الفصل العاشر فی دخولہ ارض المدینۃ۔۔۔الخ،ج۱،الجزء الاول، ص۲۴۸ملتقطاً و صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب ہجرۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ،ج۲،ص۵۹۴۔علمیہ
[11] وفاء الوفاء، جزاول ص $&'); container.innerHTML = innerHTML; }
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع