30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اترکرگھوڑے کو زَجْروتَوبیخ ([1]) کی۔ اس نے چاہا کہ اٹھے مگروہ پاؤں زمین سے نہ نکال سکا۔جب وہ (بمشکل تمام ) سیدھا کھڑا ہو ا تو نا گاہ ([2])
اس کے پاؤوں کے نشان سے دھوئیں کی مانند غبار آسمان کی طرف اٹھا۔ میں نے پھر تیروں سے فال لی مگر خلاف مر ادہی جواب ملا۔میں نے پکارا: امان! امان! یہ سن کر وہ ٹھہر گئے۔میں اپنے گھوڑ ے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچ گیا۔ مُکَرَّر تجربہ ([3]) سے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بول بالا ہوگا۔ میں نے آپ سے قریش کے ارادے اور انعام کا ذکر کیا اور زادو مَتَاع ([4]) پیش کیا۔مگر انہوں نے کچھ نہ لیا اور صرف یہی درخواست کی کہ ہمارا حال پو شید ہ رکھنا۔ اس کے بعد میں نے آپ سے درخواست کی کہ مجھے کتاب اَمن تحریر فرمادیجئے۔آپ کے حکم سے عامر بن فُہَیرہ نے چمڑے کے ٹکڑے پر فرمان امن لکھ ([5]) دیا۔ ‘‘ سراقہ نے فرمان امن اپنی ترکش میں رکھ لیا اور واپس ہوا راستے میں جس سے ملتایہ کہہ کر واپس کر لیتا کہ میں نے بہت ڈھونڈا، آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس طرف نہیں ہیں ۔ حسن اتفاق سے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مسلمانوں کا ایک قافلہ ملاجوشام سے مال تجارت لا رہا تھا۔ اس قافلہ میں حضرت زبیر بن العوام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے جنہوں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سفید کپڑے پہنائے۔ ([6])
قُدَید ہی میں سہ شنبہ ([7]) کو دوپہر کے وقت اُمِّ مَعْبَد عاتِکہ بنت خالد خُزاعِیہ کے ہاں گزر ہوا۔ اُمِّ مَعْبَد کی قوم قحط زدہ تھی وہ ا پنے خیمہ کے صحن میں بیٹھا کر تی اور آنے جانے والوں کو پانی پلاتی اور کھاناکھلاتی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے گوشت اور کھجور یں خرید نے کا قصد کیا مگر اس کے پاس ان میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے خیمہ کی ایک جانب ایک بکری دیکھی، پوچھا: یہ بکری کیسی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ لا غری وکمزوری کے سبب دوسری بکریوں سے پیچھے رہ گئی ہے، پھر پو چھا: کیا دودھ دیتی ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ اسے دوہ لوں ؟ اس نے عرض کی: ’’ میرے ماں باپ آپ پر قربان! اگر آپ اس کے نیچے دودھ دیکھتے ہیں تو دوہ لیں ۔ آپ نے اس کے تھن پر اپنا ہاتھ مبارک پھیر ااور بسم اللّٰہ پڑھی اور اللّٰہ تعالٰی سے دعا مانگی۔ بکری نے آپ کے لئے دونوں ٹا نگیں چوڑی کردیں ، دودھ اتا رلیا اور جُگا لی کی۔ آپ نے برتن طلب کیا جو جماعت کو سیر اب کر دے۔ پس آپ نے اس میں خوب دوہایہاں تک کہ اس پر جھاگ آگئی۔ پھر ام معبد کو پلا یا یہاں تک کہ سیر ہوگئی اور اپنے ساتھیوں کو پلا یا یہاں تک کہ سیر ہوگئے۔ سب کے بعد آپ نے پیا۔ بعد ازاں دوسری بار دوہا یہاں تک کہ بر تن بھر دیا اور اس کو (بطور نشان) ام معبد کے پاس چھوڑا اور اس کو اسلام میں بیعت کیا پھر سب وہاں سے چل دئیے۔ ([8]) تھوڑی دیر کے بعد اُم معبد کا خاوند گھر آیا، اس نے دودھ جو دیکھا تو حیران ہو کر کہنے لگاکہ یہ دودھ کہاں سے آیا؟ حالانکہ گھر میں تو کوئی ایسی بکری نہیں جو دودھ کا ایک قطرہ بھی دے۔ ام معبد نے جواب دیا کہ ایک مبارک شخص آیا تھا کہ جس کا حلیہ شریف ایسا ایسا تھا۔ وہ بولا: وہی تو قریش کے سر دار ہیں جن کا چرچا ہورہا ہے، میں نے قصد کر لیاہے کہ ان کی صحبت میں رہوں ۔
جب مدینہ کے قریب موضَع غَمِیم میں پہنچے جو رابِغ و جُحْفَہکے درمیان ہے تو بُرَیدہ اَسلَمی قبیلہ بنی سَہْم کے ستر سوار لے کر حصولِ انعام کی امید پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو گرفتارکرنے آیا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں بُرَیدہ ہوں ۔ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے بطور تَفاوُل ([9]) فرمایا: ابو بکر! ہمارا کام خوش و خُنک اور دُرست ہو گیا، پھر آپ نے بُرَیدہ سے پوچھاکہ تو کس قبیلہ سے ہے؟ اس نے کہا کہ بنو اسلم سے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا: ہمارے لئے خیروسلامتی ہے۔ پھر پوچھا: کون سے بنواسلم سے؟ اس نے کہا کہ بنوسہم سے۔ آپ نے فرمایا: تونے اپنا حصہ (اسلام سے) پالیا۔ بعد ازاں بریدہ نے حضرت سے پوچھاآپ کون ہیں ؟ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں اللّٰہ کا رسول محمد بن عبد اللّٰہ ہوں ۔ بریدہ نے نام مبارک سن کر کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔ جو سوار بر یدہ کے ساتھ تھے وہ بھی مشرف باسلام ہو ئے۔ بریدہ نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ میں آپ کا داخلہ جھنڈ ے کے ساتھ ہو نا چاہیے پس اپنا عمامہ سرسے اتار کر نیزہ پر باندھ لیا اور حضرت کے آگے آگے روانہ ہوا۔ پھر عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! آپ کس کے ہاں اتریں گے ؟ فرمایا: یہ میرانا قہ مامور ہے جہاں یہ بیٹھ جائے گا وہی میری منزل ہے۔بریدہ نے کہا: الحمد للّٰہ کہ بنوسہم بَطَوع ورَ غبت ([10]) مسلمان ہوگئے۔ ([11])
رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری کی خبر مدینہ پہنچ چکی تھی۔ لوگ ہر روز صبح کو شہر سے نکل کر حَرَّہ میں جمع ہوتے انتظار کرتے کر تے جب دوپہر ہوجاتی تو واپس چلے جاتے۔ایک دن انتظار کرکے گھر وں میں واپس جاچکے تھے کہ ایک یہودی نے ایک قلعہ پر سے کسی مطلب کے لئے نظر دوڑائی، اسے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے ہمراہی سفید
[1] لعنت ملامت۔
[2] اچانک۔
[3] بار بار کے تجربہ۔
[4] سفر کے لیے سامان۔
[5] صحیح بخاری، باب الہجرۃ الی المدینۃ۔ اس موقع پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سراقہ سے فرمایا: کَیْفَ بِکَ اِذَا لَبِسْتَ سُوَارَی کِسْریٰ۔ (تیرا کیا حال ہوگا جب تو کسریٰ کے دو کنگن پہنایا جائے گا) جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ْغزوۂ حنین و طائف سے واپس ہوئے تو جعرانہ میں سراقہ نے وہ فرمان امن پیش کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ آج وفا وا حسان کا دن ہے۔ سراقہ آگے بڑھے اور ایمان لائے۔ جب عہد فاروقی میں ایران فتح ہوااور کسری ہرمز کے کنگن حضرت فاروق کے ہاتھ آئے تو آپ نے قول رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی تصدیق و تحقیق کے لئے وہ کنگن سراقہ کو پہنادئیے اور فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ سَلَبَھُمَا کِسْرٰی وَاَلْبَسَھُمَا سُرَاقَۃ ۔(یعنی سب ستائش اللّٰہکو ہے جس نے کسریٰ جیسے شاہ عجم کے کنگن چھین کر سراقہ جیسے غریب بدوی کو پہنادئیے۔) سراقہ نے ۲۴ھ میں بعہد حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وفات پائی۔۱۲منہ
[6] صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ،الحدیث:۳۹۰۶،ج۲،ص۵۹۳۔ علمیہ
[7] بروز منگل۔
[8] مشکوٰۃ ،باب فی المعجزات، فصل۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات، الحدیث:۵۹۴۳، ج۲،ص۳۹۸۔علمیہ)
[9] اچھی فال لینے کے طور پر۔
[10] خوشی سے۔
[11] استیعاب لابن عبدالبر۔ وفاء الوفاء للسمہودی۔ (وفاء الوفاء للسمہودی،الفصل التاسع فی ہجرۃ النبی الیہا، ج۱، الجزء الاول، ص۲۴۳۔ علمیہ)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع