دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Seerat e Rasool e Arabi صلی اللہ تعالی علیہ وسلم | سیرتِ رسُولِ عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

book_icon
سیرتِ رسُولِ عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

بہترین تفسیر ہے۔

و جہ چہارم: حدیث زیر بحث کی شرح میں جمہور محدثین و شراح اور اکابر فقہائے حنفیہ و شافعیہ کے اقوال ہیں جو ہمارے  مدعا کے مؤید ہیں ۔ نظر براختصار ہم ان کو یہاں نقل نہیں کرتے جسے شوق ہووہ فتح الباری ،  عمدۃ القاری،  ارشاد الساری،  نووی علی المسلم،  احیاء العلوم للغزالی اور جذب القلوب للشیخ عبدالحق الدہلوی وغیرہ میں دیکھ لے۔

            خلاصۂ مضمون یہ ہوا کہ حدیث ’’  لا تشد الرحال ‘‘ مساجد کے بارے میں ہے۔ اس کی روسے مساجد ثلاثہ کی طرف بدیں غرض سفر کرنا کہ ان میں نماز ادا کرنے سے تضاعف ثواب حاصل ہوجائز ہے۔ دنیا کی کسی اور مسجد کی طرف اس غرض کے لئے سفر کرنانہ چاہیے کیونکہ وہ درجہ میں مُتَساوی ہیں کسی کو کسی پر باعتبارِ کثرتِ ثواب فضیلت نہیں ۔ ہاں کسی اور مطلب کے لئے دوسری مساجد کی طرف بھی سفر کرنا جائز ہے۔ مثلاً کسی مسجد میں کوئی بزرگ رہتے ہیں ان کی زیارت یاان سے استفاضہ کے لئے اس مسجد کی طرف سفر کرنا جائز ہے۔ اسی طرح کسی مسجد کے صنائع غریبہ ([1] )   کو دیکھنے کے لئے سفر کرنا بھی ممنوع نہیں ۔ مقابرو مشاہد انبیاء کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِمُ السَّلَام و اولیاء عظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَامکی زیارت کے لئے سفر کرنا حدیث زیر بحث کی نہی کے تحت میں داخل نہیں بلکہ جائزو مشروع و مستحب اور موجب خیر و برکت ہے۔ جب حوائج دنیا کے لئے سفر کرنا بالاتفاق جائزہے تو حوائج آخرت بالخصوص ان میں سے جو اَکد ہے ([2] ) یعنی حضور سید الاوّلین و الآخرین،  امام المرسلین،  خاتم النبیین،  سیدناو مولیٰنا محمد  مصطفیٰ احمد مجتبیٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّم کے روضہ منورہ کی زیارت کے لئے سفر کرنا بطریق اَولیٰ جائز و مستحسن ہے۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنکے عہد مبارک سے اس وقت تک مسلمانوں کا اسی پر عمل رہا ہے۔ اس کا انکار حرمان و شقاوت ([3] )  کی علامت ہے۔

خاتمہ دَر بحث اِستِغاثہ و توسل

 آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وسیلہ سے بارگاہ الٰہی میں دعا کرنا مستحسن ہے۔ اس کو مختلف الفاظ،  توسل و استغاثہ و تشفع و توجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بعض وقت توسل بالنبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یوں ہوتا ہے کہ آپ سے کوئی چیز طلب کی جائے بدیں معنی کہ آپ اس میں تسبب پر قادر ہیں کہ اللّٰہ تعالٰی سے سوال کریں یا شفاعت فرمائیں ۔ اس کا مطلب بھی حضور سے طلب دعاہے۔

حضور عَلَیْہِ السَّلام سے توسل واستغاثہ فعل انبیاء ومر سلین عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور سیر تِ سلف صالحین ہے اور یہ توسل حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادت شریف سے پہلے،  ولادت شریف کے بعد عالم برزخ میں اور عرصاتِ قیامت میں ثابت ہے جس کی توضیح ذیل میں کی جاتی ہے۔

 {1}  ولادت شریف سے پہلے توسل:

            جب حضرت آدمعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے لغزش سر زد ہوئی تو انہوں نے آخر کاریوں دعاکی: یَارَبِّ اَسْاَلُکَ بِحَقِّ محمد  لَمَا غَفَرْتَ لِیْ۔ اے میرے پروردگار!  میں تجھ سے بحق محمد  سوال کرتاہوں کہ میری خطا معاف کر دے۔

            اللّٰہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ اے آدم !  تو نے محمد   (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )  کو کس طرح پہچانا حالانکہ میں نے ان کو پیدا نہیں کیا۔ حضرت آدم نے عرض کیا: اے میرے پروردگار!  جب تونے مجھ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے سراٹھایااور عرش کے پایوں پر لکھا ہوا دیکھا۔ لَا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ محمد  رَّسُوْلُ اللّٰہ ۔ پس میں جان گیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اسی کو ذکر کیاہے جو تیرے نزدیک محبوب ترین خلق ہے۔ اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا: اے آدم !  تو نے سچ کہا وہ میرے نزدیک احب الخلق ہیں چونکہ تم نے ان کے وسیلہ سے دعاء مانگی ہے میں نے تم کو معاف کردیا۔ اگر محمد   (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )  نہ ہوتے میں تم کو پیدا نہ کرتا۔ ([4] )   (حاکم و طبرانی )

 آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بعثت سے پہلے یہود اپنے دشمنوں پر فتح پانے کیلئے دعا میں حضور انور ہی کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں وارد ہے:

وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْاۚ-  (بقرہ،  ع۱۱)

اور وہ اس سے پہلے کا فروں پر فتح مانگا کرتے تھے۔ ([5] )

            حافظ ابو نعیم نے دلائل میں عطا ء و ضحاک کے طریق سے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا یہ قول نقل  کیاہے کہ حضرت محمد  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بعثت سے پہلے یہودِ بنی قریظہ و نضیر کافروں پر فتح کی دعا مانگا کرتے تھے اور دعامیں یوـں کہا کرتے تھے: اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْتَنْصِرُکَ بِحَقِّ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ اَنْ تَنْصُرَنَا عَلَیْہِم۔ ([6] ) خدایا!  ہم تجھ سے بحق نبی امی دعا مانگتے ہیں کہ توہم کو ان پر فتح دے،  اور فتح پایا کرتے تھے۔ ( تفسیر درمنثور للسیوطی)  

 {2}  حیات شریف میں توسل:

            صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حیات شریف میں دیگر حاجات کی طرح آپ سے طلب دعائ،  طلب شفاعت بروز قیامت یا طلب دعاء مغفرت بھی کیا کرتے تھے۔ صرف چند مثالیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں ۔ اگر زیادہ مطلوب ہوں تو ’’ شفاء السقام ‘‘  کا مطالعہ کیجئے!

 {۱} عَنْ اَنَسٍرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ قَالَ سَاَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَشْفَعَ لِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَقَالَ اَنَا فَاعِلٌ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ !  فَاَیْنَ اَطْلُبُکَ قَالَ اطْلُبْنِیْ اَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِیْ عَلَی الصِّرَاطِ قُلْتُ فَاِنْ



[1]     مسجد کی منفرد بناوٹ یا اس کی نقش و نگاری وغیرہ یا خود وہ مسجد جو فن تعمیر کا کوئی شاہکارہو۔

[2]     یعنی جن کی تاکید آئی ہے۔

[3]     بدبختی و محرومی۔

[4]     وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۷۱- ۱۳۷۲۔علمیہ

[5]     ترجمۂکنزالایمان:اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے۔ (پ۱،البقرۃ:۸۹)۔علمیہ

[6]     الدر المنثور فی التفسیر الماثور،سورۃ التوبۃ، تحت الآیۃ :۸۹،ج۱،$&'); container.innerHTML = innerHTML; }

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن