30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پسینہ مبارک کو اس میں نچوڑنے لگیں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آنکھ کھلی تو پوچھا کہ ام سلیم ! تم کیا کر رہی ہو؟ ام سلیم نے عرض کیا کہ ہم اپنے بچوں کے لئے آپ کے پسینے کی برکت کے امیدوار ہیں ۔ آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تم نے سچ کہا۔ ([1] ) (صحیح مسلم، باب طیب عرقہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم والتبرک بہ)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پسینۂ مبارک کو بچوں کے چہرے اور بدن پر مل دیا کرتے تھے جس سے وہ تمام بلاؤں سے محفوظ رہاکرتے تھے۔
{10} حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خادم حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھ سے کہا کہ یہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بالوں میں سے ایک بال ہے جب میں مرجاؤں تو اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ چنانچہ میں نے حسب وصیت ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور وہ اسی حالت میں دفن کیے گئے۔ (اصابہ، ترجمہ انس بن مالک) ([2] )
{11} جب حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کچھ بال اور ناخن منگوائے اور وصیت کی کہ یہ میرے کفن میں رکھ دیئے جائیں ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ([3] )
(طبقات ابن سعد، جزء خامس، ص۳۰۰)
{12} حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینہ کے خدام اپنے برتن (جن میں پانی ہوتا) لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوتے۔آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر ایک برتن میں اپنا دست مبارک ڈبو دیتے۔بعض وقت سردی ہوتی تو بھی اسی طرح کرتے۔ ([4] )
(صحیح مسلم، باب قربہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم من الناس وتبرکہم بہ وتواضعہ لہم)
{13} جب رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وضو فرماتے تووضوکے پانی کے لئے حاضرین میں لڑائی تک نوبت پہنچنے لگتی۔ (صحیح بخاری، کتاب الوضوئ، باب استعمال فضل وضوء الناس) ([5] )
{14} حضرت ابوجُحَیْفَہ (وہب بن عبد اللّٰہ سوائی) کا بیان ہے کہ میں رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چرمی سرخ قبہ میں تھے۔ میں نے حضرت بلال کو دیکھاکہ انہوں نے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وضو کا پانی لیا اور لوگ اس پانی کو لینے کے لئے دوڑ رہے تھے۔ جس کو اس میں سے کچھ ملتا وہ اسے اپنے ہاتھوں پر ملتا اور جس کو کچھ نہ ملتا وہ دوسرے کے ہاتھ کی تری لے کر مل لیتا۔ ([6] ) (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب القبۃ الحمراء من ادم)
{15} حضرت طلق بن علی یمامی کا بیان ہے کہ ہم اپنے وطن سے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف نکلے۔ حاضر خدمت ہوکر ہم نے آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بیعت کی اور آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نماز پڑھی اور عرض کیا کہ ہمارے وطن میں ہمارا ایک گرجا ہے۔پھر ہم نے آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے درخواست کی کہ آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے وضو کا بچا ہوا پانی عنایت فرمائیں ۔آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پانی طلب فرمایا اوروضو کر کے بقیہ آب کی ایک کلی ہمارے واسطے چھاگل میں ڈال دی اور روانگی کی اجازت دے کر فرمایا کہ جب تم اپنے وطن میں پہنچ جاؤ تو اپنے گرجا کو توڑ ڈالو اور اس کی جگہ پر اس پانی کو چھڑک دو اور گرجا کی جگہ پر مسجد بنالو۔ہم نے عرض کیا کہ ہمارا شہر مدینہ منورہ سے دور ہے گرمی سخت ہے یہ پانی خشک ہو جائے گا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس میں اور پانی ڈال لینا برکت زیادہ ہوجائے گی۔ ([7] )
(مشکوٰۃ بحوالہ نساءی، باب المساجدومواضع الصلوٰۃ)
{16} ایک روز حضرت خداش بن ابی خداش مکی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ایک پیالے میں کھانا کھاتے دیکھا۔انہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے وہ پیالہ بطور تبرک لے لیا۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب حضرت خداش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاں تشریف لے جاتے تو ان سے وہی پیالہ طلب فرماتے۔اسے آب زمزم سے بھر کر پیتے اور چہرے پر چھینٹے مارتے۔ (اصابہ، ترجمہ خداش) ([8] )
{17} حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بیان کرتی ہیں کہ ہم نے بعض ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاں بطور عروس بھیجا۔ جب ہم خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک بڑا پیالہ دودھ کا نکالا اور اس میں سے پی کر اپنی بیوی کو دیا۔ وہ بولیں کہ مجھے اشتہاء نہیں ۔ ([9] ) حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تو بھوک اور جھوٹ کو جمع نہ کر۔ پھر مجھے عنایت فرمایامیں اس پیالہ کو اپنے ہونٹوں پر پھرانے لگی حالانکہ میں پیتی نہ تھی محض بدیں غرض ([10] ) پھراتی تھی کہ میرے ہونٹ اس جگہ سے لگ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع