30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
استیصال سے محفوظ رکھا ہے لہٰذا ہم نے وہ نشانیاں ان کو عطا نہیں کیں ۔
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ (۵۰) اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠ (۵۱)
اور کہتے ہیں کیوں نہ اتریں اس پر کچھ نشانیاں اس کے رب سے تو کہہ نشانیاں تو ہیں اختیار میں اللّٰہ کے اور میں تو سنا دینے والا ہوں کھول کر کیا ان کو بس نہیں کہ ہم نے تجھ پر اتاری کتاب کہ ان پر پڑھی جاتی ہے۔ بیشک اس میں بڑی رحمت ہے اور سمجھانا ان لوگوں کو جو مانتے ہیں ۔ ([1] )
ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے: اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے کہ کفارِ قریش باوجود ملا حظۂ آیات ([2] ) سر کشی وعناد کے سبب سے ہمارے حبیب پاک کی نسبت کہتے ہیں کہ ان پر ایسی نشانیاں کیوں نہیں اُتریں جیسا کہ ناقۂ صالح اور عصائے موسیٰ اور مائدۂ عیسیٰ ہیں ۔ اے ہمارے حبیب ! ان کفار سے کہہ دیجئے کہ ایسی نشانیاں اللّٰہ کی قدرت و حکم میں ہیں وہ ان کو حسب مقتضائے حکمت نازل کر تا ہے۔میرا کام تو یہ ہے کہ ان آیات کے ساتھ جو مجھے ملی ہیں کفارکو ڈراؤں نہ یہ کہ وہ نشانیاں لاؤں جو وہ عنادو تعنت سے طلب کر تے ہیں ۔ اس کے بعد اللّٰہ تعالٰی ان کفار کی تر دید میں جو ایسی نشانیاں
طلب کر تے ہیں یوں فرماتا ہے: کیا ان کو ایک نشانی کا فی نہیں جو تمام نشانیوں سے مستغنی ([3] ) کر دینے والی ہے یعنی قرآن کریم جو ہم نے تجھ پر اتارا ہے وہ ایک زندہ معجزہ ہے ہر مکان وزمان میں ان پر پڑھا جاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے ان کے ساتھ رہے گا۔ اس میں بڑی رحمت اور تذکرہ ہے ایمان والوں کے لئے نہ ان کے لئے جو عنادر کھتے ہیں ۔
اس تقریر سے واضح ہو گیا کہ آیاتِ بالاسے معجزات کی نفی نہیں پائی جاتی بلکہ ان میں باوجودِ کثرتِ معجزات ان خاص نشانیوں کے نہ ملنے کی وجہ بیان ہو ئی ہے جو کفار نے محض عناد سے طلب کیں ۔لہٰذا عیسا ئیوں کا یہ کہنا کہ قرآن میں کوئی آیت نظر نہیں آتی جس سے ثابت ہو کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے معجزے دکھائے صرف عنا د پر مبنی ہے وہ اپنے منہ سے بڑا بول بو لتے ہیں ۔ (یہودا ہ، ۱۶)
كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُ جُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْؕ-اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا (۵) (کہف، ع۱)
کیا بڑی بات ہو کر نکلتی ہے ان کے منہ سے سب جھوٹ ہے جو کہتے ہیں ۔ ([4] )
’’ علم غیب ‘‘ کے متعلق قرآنی مدنی پھول
’’ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ۪- ‘‘ اور اللّٰہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللّٰہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔ شانِ نزول: رسول کریمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ خلقت و آفرنیش سے قبل جب کہ میری امت مٹی کی شکل میں تھی اسی وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا کون کفر کرے گا یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے براہِ استہزاء کہا کہ محمد مصطفےصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَکا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا کون کفر کرے گا باوجود یکہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں نہیں پہچانتے اس پر سید عالمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَنے منبر پر قیام فرماکر اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن کرتے ہیں آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں ۔ عبداللّٰہ بن حذافہ سہمی نے کھڑے ہو کر کہا : میرا باپ کون ہے یارسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَفرمایا : حذافہ پھر حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے فرمایا: یارسول اللّٰہ! ہم اللّٰہ کی ربوبیت، اسلام کے دین ہونے ، قرآن کے امام ہونے ، آپ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا : کیا تم باز آؤ گے کیا تم باز آؤ گے پھر منبر سے اترآئے۔ (بخاری وغیرہ کتب کثیرہ) قران وحدیث سے ثابت ہوا کہ سید عالمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت تک کی تما م چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا ہے۔ اور حضور کے علم غیب میں طعن کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔ (ماخوذ از: خزائن العرفان، آل عمران، تحت الآیت: ۱۷۹)
آٹھواں باب
آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے فضائل وخصائص کا بیان
حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے فضائل و کمالات کا احاطہ طاقت بشری سے خارج ہے۔ علمائے ظاہر و باطن سب یہاں عاجز ہیں ۔ چنانچہ حضرت خواجہ صالح بن مبارک بخار ی خلیفہ مجاز حضرت خواجہ خواجگان سید بہاؤالدین نقشبندی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ’’ انیس الطالبین ‘‘ ص ۹میں لکھتے ہیں :
اجماع اہل تصوف است کہ صدیقیت نزدیک ترین مقامے و مرتبہ ایست بہ نبوت وسخن سلطان العار فین ابو یزید بسطامی است قُدِّسَ سِرُّہٗ کہ آخرنہایت صدیقان اول احوالِ انبیاء است واز کلمات قدسیہ و ایشانست کہ نہایت مقام عامۂ مومناں بدایت مقامِ اولیا ست ونہایت مقام اولیاء بدایت مقام شہیدان است و نہایت مقام شہیداں بدایت مقام صدیقان است و نہایت مقام صدیقاں بدایت مقام انبیاء است و نہایت مقام انبیاء بدایت مقام رسل است و نہایت مقام رسل بدایت مقام اولوالعزم است و نہایت مقام اولوالعزم بدایت مقام مصطفیٰ است صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم و مقام مصطفیٰ را نہایت پیدا نیست جز حق جَلَّ وَ عَلَاکسے نہایت مقام وے را نداند و در روزِازل مقام ارواح و بروزِ میثاق ہم بریں مراتب بود کہ ذکر کردہ شد ودر روز ِقیامت ہم بریں مراتب باشد۔ ([5] )
صوفیۂ کرام کا اس امر پر اتفا ق ہے کہ نبوت کے سب سے نزدیک مقام و مرتبہ ’’ صدیقیت ‘‘ ہے۔ اور سلطان العارفین ابو یزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہٗ کا قول ہے کہ صدیقوں کے مقام کی نہایت
[1] ترجمۂکنزالایمان:اور بولے کیوں نہ اتریں کچھ نشانیاں ان پر ان کے رب کی طرف سے تم فرماؤ نشانیاں تو اللّٰہ ہی کے پاس ہیں اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے والا ہوں اور کیا یہ انہیں بس نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب اتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے بیشک اس میں رحمت اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔ (پ۲۱،العنکبوت:۵۰۔۵۱)۔علمیہ
[2] نشانیاں دیکھنے کے باوجود۔
[3] بے نیاز۔
[4] ترجمۂکنزالایمان:کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے منہ سے نکلتا ہے نِرا جھوٹ کہہ رہے ہیں ۔ (پ۱۵،الکہف:۵)
[5] انیس الطالبین (مترجم)، قسم اوّل، ولی اور ولایت کی تعریف، ص ۳۴۔علمیہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع