30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اور تحقیق ہمارے زمانے میں ۶۵۴ ھ میں مدینہ میں ایک آگ نکلی اور نہایت بڑی آگ تھی جو مدینہ کے شرقی جانب سے حر ّہ کے پیچھے نکلی۔شام اور باقی شہروں کے تمام با شند وں کو بطریق تو اتر اس کا علم ہوا اور مجھے اہل مدینہ میں سے ایک شخص نے خبر دی جس نے اس آگ کو دیکھا۔
علامہ تاج الدین سبکی (متوفی ۷۷۱ ھ ) طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ( جزء خامس، ص ۱۱۲) میں لکھتے ہیں کہ جب ماہ جمادی الا خریٰ ۶۵۴ ھ کی پانچویں تا ریخ ہو ئی تو مدینۃ النبی میں اس آگ کا ظہور ہوا اور اس سے پہلے کی دو راتوں میں ایک بڑی آواز ظاہر ہو ئی پھر ایک بڑا ز لزلہ آیاپھر قریظہ کے قریب حر ّہ میں آگ ظاہر ہوئی۔اہل مدینہ اپنے گھر وں سے اسے دیکھتے تھے۔اس آگ کی روئیں پانی کی طرح جاری ہوئیں اور پہاڑ آگ بن کر رواں ہو ئے۔یہ آگ حاجیوں کے راستۂ عراقی کی طرف روانہ ہو ئی پھر ٹھہر گئی اور زمین کو کھا نے لگی۔رات کے اخیر حصہ سے چاشت کے وقت تک اس میں سے ایک بڑی آواز آتی تھی۔ لوگوں نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مدد طلب کی اور گناہ ترک کر دیئے۔یہ آگ ایک مہینہ سے زیادہ روشن رہی۔یہ وہی آگ ہے جس کی خبر جناب مصطفیٰ صَلَواتُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے دی تھی۔کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ ’’ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سر زمین حجاز سے ایک آگ نکلے گی جس سے بصر یٰ میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی۔ ‘‘ ایک شخص سے جو رات کے وقت بصریٰ میں تھا روایت ہے کہ اس کو اس آگ کی روشنی میں اونٹوں کی گردنیں نظر آگئیں ۔ ([1] )
تاتاریوں کا فتنہ اور حادثۂ بغداد
حضرت ابو بکر ہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ([2] ) سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میری امت کے لوگ ایک پست زمین میں جس کا نام بصر ہ ہوگا ایک دریاکے نزدیک اتریں گے جس کو دجلہ کہتے ہیں ۔ اس دریاپر ایک پل ہو گا۔بصرہ کے باشند ے بکثرت ہوں گے اور وہ شہر مسلمانوں کے بڑے شہروں میں سے ہوگا جب آخر زمانہ آئے گا تو قنطورا کے بیٹے آئیں گے جن کے چہرے فراخ اور آنکھیں چھوٹی ہوں گی یہاں تک کہ وہ اس دریا کے کنارے پر اتریں گے۔اس وقت بصر ہ کے باشندے تین گر وہ ہو جائیں گے۔ ایک گروہ بیلوں کی دموں ([3] ) اور بیابان میں پناہ لے گا اور ہلاک ہو جائے گا اور ایک گروہ اپنی جانوں کے لئے طالب امان ہوگا اور ہلاک ہو جائے گا اور ایک گروہ اپنی اولاد کو پس پشت ڈال دے گا اور ان سے لڑے گا، وہی حقیقی شہید ہوں گے۔اس حدیث کو ابو داؤد ([4] ) نے روایت کیا ہے۔ ([5] )
اس حدیث میں قنطوراء سے مراد تا تاری لوگ یعنی ترک ہیں کیونکہ قنطوراء حضرت ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی ایک لو نڈی کا نام ہے جس کی نسل سے یہ لوگ ہیں ۔ ان کے چہروں کے کشادہ اور آنکھوں کے چھوٹا ہونے میں کسی کو کلام نہیں ۔ البتہ حدیث میں بصر ہ کا لفظ ہے مگر اس سے مراد شہر بغداد ہے کیونکہ دریائے دجلہ اور پل بغداد میں ہیں نہ کہ بصر ہ میں ۔ونیز ترک لڑائی کے لئے اس کیفیت سے جوحدیث میں مذکورہے بصر ہ میں نہیں آئے بلکہ بغداد میں آئے ہیں جیسا کہ مشہور ومعروف ہے۔ حدیث میں بصرہ کا ذکر اس لئے ہے کہ بغداد کی نسبت بصرہ قدیم شہر ہے جس کے مضافات میں سے وہ گاؤں اور مواضع تھے جن میں شہر بغداد بنا۔ علاوہ ازیں بغداد کے نزدیک ایک گاؤں کانام ([6] ) بھی بصرہ ہے۔ ([7] )
یہ پیشین گوئی ماہ محرم ۶۵۶ ھ میں پو ری ہو ئی جب کہ چنگیز خاں تاتا ری کے پوتے ’’ ہلا کو ‘‘ نے شہر بغداد پر لشکر کشی کی۔اس کی مختصر کیفیت ([8] ) یہ ہے کہ اس وقت بغداد میں خاندان عباسیہ کا آخری خلیفہ معتصم باللّٰہ مسند خلافت پر متمکن تھا۔اس کا وز یر مؤید الدین محمد بن علی العلقمیفاضل وادیب مگر رافضی تھا اور اس کے دل میں اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے کینہ وبغض تھا۔وزیر مذکور شہزاد ہ ابو بکر اور امیر کبیر رکن الدین دُوَیدار کابھی دشمن تھاکیونکہ یہ دونوں اہل سنت تھے اور انہوں نے یہ سن کر کہ کرخ ([9] ) کے رافضیوں نے اہل سنت سے تعرض کیا ہے ([10] ) کرخ کو لوٹ لیا تھا اور روافض کوسخت سزائیں دی تھیں ۔ ([11] ) ابن علقمی چو نکہ بظاہر ان کے خلاف کچھ نہ کر سکتا تھا اس لئے اس نے پو شید ہ طور پر بذریعہ کتابت تا تا ریوں کو عراق پر حملہ کر نے کی تر غیب دی۔ ہلاکو کے دربار میں حکیم نصیر الدین طوسی رافضی تھا جس نے ابن علقمی کی ترغیب کو اور سہار اد یا اور آخر کارہلاکو کو بغداد پر چڑھائی کے لئے آمادہ کر دیاچنانچہ ہلا کو بڑی تیاری کے ساتھ بغداد پر چڑھ آیا۔لشکر بغداد بسر کر دگی رکن الدین دُوَید ار مقابلہ کے لئے بڑھا اور بغداد سے دو منزل کے فاصلہ پر ہلا کو کے مقدمہ لشکر سے جس کا سر دار تایجو تھا مٹھ بھیڑ ہوئی۔ ([12] ) بغدادیوں کو شکست ہو ئی کچھ تہ تیغ ([13] ) ہو ئے ، کچھ پا نی میں ڈوب گئے اور باقی بھاگ گئے۔ تا یجو آگے بڑھا اور دریائے دجلہ کے مغر بی کنارہ پرا ترا۔ہلاکو نے مشرق سے حملہ کیا اور بغداد کو گھیر
[1] طبقات الشافعیۃ الکبری، الطبقۃ السادسۃ فیمن توفی۔۔۔إلخ،الجزء ۸، ص ۲۶۶۔علمیہ
[2] سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں اس حدیث کے راوی کانام حضرت ’’ابو بکر صدیق ‘‘لکھا ہے یقینایہ کتابت کی غلطی ہے کیونکہ ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ (جس کا مصنف نے حوالہ دیا ہے )’’ابوداود‘‘اوردیگر کتب میں یہ حدیث حضرت ’’ابو بکرہ ‘‘ سے مروی ہے لہٰذاہم نے یہاں حضرت ’’ابو بکر صدیق ‘‘ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کے بجائے حضرت ’’ابو بکرہ ‘‘ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ )لکھا ہے۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ علمیہ
[3] یعنی اہل و عیال اور مال و اسباب کو بیلوں پر لادکر جنگل کو چلے جائیں گے۔۱۲منہ
[4] ابو داؤد کی ولادت ۲۰۲ھ میں اور وفات ۲۷۵ھ میں ہوئی۔۱۲منہ
[5] مشکوٰۃ، کتاب الفتن،باب الملاحم، فصل ثانی۔۱۲منہ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الفتن،باب الملاحم،الحدیث:۵۴۳۲، ج۲،ص۲۸۹۔علمیہ)
[6] اشعۃ اللمعات ترجمہ مشکوٰۃ، کتاب الفتن، باب الملاحم۔
$&'); container.innerHTML = innerHTML; }
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع