30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
لوگ جاسوسی کو آتے ہیں کہ تمہارے دین میں سے کچھ عیب چن کر لے جاویں اپنے سرداروں کے پاس جو یہاں نہیں آتے اور فی الحقیقت عیب کہاں ہے لیکن بات کو
غلط تقریر کرکے ہنر کا عیب کرتے ہیں ۔ یہود میں کئی قصے ہوئے کہ اپنے قضایا ([1] ) لائے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس فیصلے کو وہ سردار یہود آپ نہ آتے بیچ والوں کے ہاتھ بھیجتے اور کہہ دیتے کہ ہمارے معمول کے موافق حکم کریں تو قبول رکھو نہیں تو نہ رکھو۔ غرض یہ تھی کہ حکم تو رات کے خلاف معمول باندھے تھے کہ ایک بھی اگر اس کے موافق حکم کردے تو ہم کو اللّٰہ کے یہاں سند ہوجاوے اور جانتے تھے کہ ان کو تورات کی خبر نہیں جو ہمارا معمول سنیں گے سو حکم کریں گے۔ اللّٰہ تعالٰی نے حضرت کو خبردار کیا۔ موافق تورات ہی کے حکم فرمایااور تورات میں سے ثابت کر کے ان کو قائل کیا۔ ایک قصہ رجم کا تھا کہ وہ منکر ہوئے تھے۔ پھر تورات سے قائل کیااور ایک قصاص کا تھا کہ وہ اشراف اور کم ذات کا فرق کرتے تھے اور تورات میں فرق نہیں رکھا۔ ‘‘
… {3}
مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْْنَا وَاسْمَعْ غَیْْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّام بِاَلْسِنَتِہِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِ ( نسآء، ع۷)
وہ جو یہودی ہیں بدل ڈالتے ہیں بات کو اس کی جگہ سے اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نہ مانا اور سن نہ سنایا جائیو اور راعنا موڑدے کر اپنی زبان کو اورطعن کرکے دین میں ۔ ([2] )
موضح القرآن میں ہے کہ ’’ یہود حضرت کی مجلس میں بیٹھتے اور حضرت کلام فرماتے۔ بعض بات جو نہ سنی ہوتی چاہتے کہ پھر تحقیق کریں تو کہتے: راعنا۔ یعنی ہماری طرف توجہ ہو۔ یہود کو اس لفظ کہنے میں دغا تھی اس کو زبان دبا کر کہتے تو را عینا ہوجاتا یعنی ہمارا چرواہا اور ان کی زبان میں راعنا احمق کو بھی کہتے تھے۔ اسی طرح حضرت فرماتے تو جواب میں کہتے: سنا ہم نے اس کے معنی یہ ہیں کہ قبول کیا لیکن آہستہ کہتے کہ نہ مانا۔ یعنی فقط کان سے سنااور دل سے نہ سنااور حضرت سے خطاب کرتے تو کہتے: سن، نہ سنایا جائیو۔ ظاہر میں یہ دعا نیک ہے کہ تو ہمیشہ غالب رہے کوئی تجھ کو بری بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت رکھتے کہ بہرا ہوجائیو۔ ایسی شرارت کرتے۔ پھر دین میں عیب دیتے کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو ہمارا فریب معلوم کرلیتا۔ وہی اللّٰہصاحب نے واضح کردیا۔ ‘‘
ناظرین کرام! مومنوں کے دلوں کے راز ظاہر کرنا، منافقوں کا بھانڈا پھوڑنا اور یہودیوں کے فریبوں کی قلعی کھولنا، ([3] ) یہ تمام ازقبیل اِخْبَار بِالْمُغَیِّبات ([4] ) ہے جس سے قرآن کا اعجاز ثابت ہے کیونکہ انسان اس سے عاجز ہے۔
بیان بالا سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ قرآن میں صرف غیوب ماضیہ کی خبریں ہیں کیونکہ غیوب مستقبلہ کی خبریں بھی اس میں کثرت سے ہیں جن میں سے بعض ذیل میں درج کی جاتی ہیں :
پیشین گوئی… {1}
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (۲۳) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ۚۖ-اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ (۲۴)
( بقرہ، ع۳)
اور اگر ہوشک میں اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندے پر تولے آؤ ایک سورۃ اس قسم کی اور بلاؤ جن کو حاضر کرتے ہو اللّٰہ کے سوا اگر تم سچے ہو۔ پھر اگرنہ کرواور البتہ نہ کر سکو گے تو بچو آگ سے جس کی چھپٹیاں ہیں آدمی اور پتھر تیار ہے منکروں کے واسطے۔ ([5] )
ان آیتوں میں یہ پیشین گوئی ہے کہ قرآن مجید کی ایک سورت کی مثل بنانے پر کوئی قادر نہ ہوگا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ مبارک میں اور اُس وقت سے اب تک کہ تیرہ سو چھپن ہجری مقدس ہے کثرت سے مخالفین و معاندین اسلام رہے مگر کوئی بھی قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثل بنا کر پیش نہ کرسکا اور نہ آئندہ کرسکے گا۔
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (۹۴) (بقرہ، ع۱۱)
تو کہہ اگر تم کو ملنا ہے گھر آخر کا اللّٰہکے ہاں الگ سوائے اور لوگوں کے تو تم مرنے کی آرزو کرو اگر سچ کہتے ہو۔ ([6] )
اس آیت میں اخبار عن الغیب ہے کہ یہود میں سے کوئی موت کی تمنانہ کرے گا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔ کسی یہودی نے باوجود قدرت کے موت کی تمنانہ کی۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ اگر یہود موت کی تمنا کرتے تو البتہ مرجاتے اور دوزخ میں اپنی جگہ ضرور دیکھ لیتے۔ ([7] )
پیشین گوئی… {3}
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىٕفِیْنَ۬ؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ
[1] جھگڑے۔
[2] ترجمۂکنزالایمان:کچھ یہودی کلاموں کو ان کی جگہ سے پھیرتے ہیں اورکہتے ہیں ہم نے سنا اور نہ مانا اورسنیئے آپ سنائے نہ جائیں اور راعنا کہتے ہیں زبانیں پھیر کراور دین میں طعنہ کے لئے۔(پ۵،النساء:۴۶)۔علمیہ
[3] حقیقت ظاہر کرنا۔
[4] غیب کی خبریں دینا ۔
[5] ترجمۂکنزالایمان:اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے ان خاص بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللّٰہکے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلالو اگر تم سچے ہوپھر اگر نہ لا سکو اور ہم فرمائے دیتے ہیں کہ ہر گز نہ لا سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں تیار رکھی ہے کافروں کے لئے۔(پ۱،البقرۃ:۲۳۔۲۴)۔علمیہ
[6] ترجمۂکنزالایمان:تم فرماؤ اگر پچھلا گھر اللّٰہ کے نزدیک خالص تمہارے لئے ہو نہ اَوروں کے لئے تو بھلا موت کی آرزو تو کرو اگر سچے ہو۔(پ۱،البقرۃ:۹۴)۔علمیہ
[7] اخرج احمد والبـخاری ومسلم والترمذی والنساءی وابن مردویہ وابونعیم عن ابن عباس من رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم قال: لو ان الیھود تمنوا الموت لماتوا ولرأوا مقاعدھم من النار۔ (درمنثور للسیوطی، جلد اول، ص ۸۹)۱۲منہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع