30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
جنازہ سے فارغ ہو ئے اور بیٹھنے کے لئے ایک دیوار کے قریب پہنچے تو میں نے آگے بڑھ کر آپ کی قمیص اور چادر کے دامن پکڑ لیے اور تُند نگاہ ([1] ) سے آپ کی طرف دیکھ کر یوں کہا: ’’ اے محمد ! کیا تو میرا حق ادا نہیں کر تا۔ اے عبد المطلب کے خاندان والو! قسم بخدا ! تم ادائے حق سے گریز کر نے کے لئے حیلے حوالے کیا کر تے ہو۔ ‘‘ حضرت عمر نے تیز نگاہ سے میری طرف دیکھ کر کہا: ’’ او دشمن خدا! کیا تو ر سول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یہ کہتا ہے جو سن رہاہوں اور آپ کے ساتھ یہ سلوک کر تا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں ۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔اگر مجھے مسلمانوں اور تیری قوم کے درمیان صلح کے فوت ہو جانے کا ڈر نہ ہو تا تو اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔ ‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آرام و آہستگی اور تبسم کی حالت میں حضرت عمر کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’ عمر! مجھے اور اسے بجائے اس سختی کے اس بات کی زیادہ ضرورت تھی کہ تم مجھے حسن ادا ئے حق اور اسے حسن تقاضا کا امر کر تے۔ اے عمر! اس کو لے جاؤ اور اس کا حق ادا کر دواور اسے جو تم نے دھمکایا ہے اس کے عوض بیس صاع کھجوریں اور دے دو۔ ‘‘ حضرت عمرمجھے اپنے ساتھ لے گئے اور میرا حق اداکردیااور بیس صاع کھجوریں علاوہ دیں ۔ میں نے پوچھا کہ یہ زائد کیسی ہیں ؟ حضرت عمر نے اس کو جواب دیا پھر میں نے کہا: عمر! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ جواب دیاکہ نہیں ۔ میں نے کہا کہ میں زیدبن سَعْنہ ہوں ۔ فرمایا: وہی زید جو یہودیوں کا عالم ہے؟ میں نے کہا: ہاں ۔ پھر پوچھا کہ تو نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا؟ میں نے کہا: اے عمر! جس وقت میں نے روئے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا وہ تمام علامات جو میں تو رات میں پڑ ھتا تھا موجود پائیں ۔ ان میں صرف دو علامتیں باقی تھیں جو میں نے اب آزمالیں ۔ ’’ اے عمر! میں تجھ کو گو اہ بناتا ہوں کہ میں اللّٰہ کو اپنا پر ور دگار اور اسلام کو اپنا دین اور محمد کو اپنا پیغمبر ماننے پر راضی ہو گیا اور میں تجھے گو اہ بناتاہوں کہ میرا آدھا مال امت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر صدقہ ہے۔ ‘‘ پھر حضرت عمر اور زید دونوں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور حضرت زید نے بارگاہ رسالت میں اظہار اسلام کیا۔ ([2] ) اسلام لانے کے بعد حضرت زید بن سَعْنہ بہت سے غز وات میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ رہے اور غزوہ تبوک میں دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے شہید ہوئے۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ ([3] )
اللّٰہ تعالٰی نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سارے جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ چنانچہ ارشاد ِباری تعالٰی ہے :
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۱۰۷) (انبیاء، ع۷)
اور نہیں بھیجا ہم نے تجھ کو مگر رحمت بنا کر سارے جہاں کے لئے۔ ([4] )
اس لئے تمام مخلوقات آپ کی رحمت سے بہر ہ وَرہے جیسا کہ ذیل کے مختصر بیان سے واضح ہو گا۔
اللّٰہ تعالٰی حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان میں یوں فرماتا ہے:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ (۱۲۸) (تو بہ، اخیر رکوع)
البتہ تحقیق تمہارے میں کا ایک پیغمبر تمہارے پاس آیا ہے تمہاری تکلیف اس پر شاق گزرتی ہے اسکو تمہاری ہدایت و صلاح کی حرص ہے وہ ایمان والوں پر شفقت رکھنے والا اور مہربان ہے ([5] )
اس آیت میں اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اوصاف حمید ہ میں ذکر کر دیا کہ امت کی تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے۔ان کو شب وروز یہی خواہش دامن گیر ہے کہ امت راہ راست پر آجائے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے امت کی ہدایت وبہبودی کے لئے کیا کیا مصیبتیں جھیلیں ۔ سخت سے سخت مصیبت میں بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بددعا نہ فرمائی بلکہ ہدایت کی دعا کی۔ایمان والوں پر آپ کی شفقت ورحمت ظاہر ہے اسی واسطے آپ نے کسی مقام پر امت کو فراموش نہیں فرمایا بغرض توضیح چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
جس روز آند ھی یا آسمان پربادل ہو تارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرہ مبارک میں غم وفکر کے آثا ر نمایاں ہو تے اور آپ کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے جب بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہو تے اور حالت غم جاتی رہتی۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس کا سبب دریافت کیاتو فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ مبادا ([6] ) ( قوم عاد کی طرح) یہ عذاب ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو۔ ([7] )
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا ما نگی :
اَللّٰھُمَّ مَنْ وُّلِّیَ مِنْ اَمْرِ اُمَّتِیْ شَیْئًا فَشَقَّ عَلَیْھِمْ فَاشْقُقْ عَلَیْہِ وَمَنْ وُّلِّیَ مِنْ اَمْرِ اُ مَّتِیْ شَیْئًا فَرَفَقَ بِھِمْ فَارْفُقْ بِہٖ ([8] )
خدا یا جو شخص میری امت کے کسی کام کا وَالی ومُتَصَرِّف بنا یا جائے پس وہ ان کو مشقت میں ڈالے تو اس والی کو مشقت میں ڈال اور جو شخص میری امت کے کسی کا م کا والی بنا یا جائے پس وہ ان
[1] غصہ بھری نگاہ۔
[2] دلائل النبوۃ للحافظ ابی نعیم، مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن۔
[3] اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،زید بن سعنہ:۱۸۴۱،ج۲،ص۳۴۵۔علمیہ
[4] ترجمۂکنزالایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔ (پ۱۷،الانبیاء:۱۰۷)۔علمیہ
[5] ترجمۂ کنزالایمان: بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان (پ۱۱،التوبۃ:۱۲۸)۔علمیہ
[6] کہیں ایسا نہ ہو کہ۔
[7] صحیح مسلم، کتاب صلوۃ الاستسقاء۔ (صحیح مسلم،کتاب صلاۃ الاستسقاء،باب التعوذ عند رؤیۃ الریح۔۔۔الخ،الحدیث: ۸۹۹
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع