شکم مبارک
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Seerat e Rasool e Arabi صلی اللہ تعالی علیہ وسلم | سیرتِ رسُولِ عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

book_icon
سیرتِ رسُولِ عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

وشجاعت کا قاعدہ ([1] ) ہے۔ حضرت ابوہریرہ ([2] )    رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چلنے میں میں نے آنحضرت سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ گویا آپ کے لئے زمین لپٹتی جاتی تھی۔ ہم دوڑا کرتے اور تیز چلنے میں مشقت اٹھاتے اور آپ بآسانی وبے تکلف چلتے مگر پھر بھی سب سے آگے رہتے۔ ([3] )  بعض دفعہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اصحاب کے ساتھ چلنے کا قصد فرماتے تو اس صورت میں اصحاب آپ کے آگے ہوتے اور آپ عمداً ([4] ) ان کے پیچھے ہوتے۔ ([5] ) اور فرماتے ہیں کہ میری پیٹھ فرشتوں کے لئے خالی چھوڑ دو۔ ([6] )

             حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاؤں مبارک وہ قدم مبارک ہیں کہ جب آپ پتھر پر چلتے تو وہ نرم ([7] ) ہو جاتا۔  تا کہ آپ بآسانی اس پر سے گزر جائیں ۔ اور جب ریت پر چلتے تو اس میں پا ئے مبارک کا نشان نہ ہوتا۔ یہ وہی قدم مبارک ہیں جن کی محبت میں کو ہِ احد وکو ہِ ثَبِیر حرکت میں آئے۔ یہ وہی قدم مبارک ہیں کہ قیام شب میں ورم کر آتے تھے۔ یہ وہی قدم مبارک ہیں کہ مکہ اور بیت المقدس کو ان سے شرف زائد حاصل ہوا۔

قد مبارک

            آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نہ بہت درازتھے نہ کو تا ہ قدبلکہ میانہ قد مائل بہ درازی تھے۔ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہٗ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہت درازقد نہ تھے اور مائل بہ درازی ہونے کے سبب اوسط قدسے زیادہ تھے مگر جب لوگوں کے ساتھ ہو تے تو سب سے بلند وسر فراز ہوتے۔ ([8] ) حقیقت میں یہ آپ کا معجزہ تھاکہ جب علیحد ہ ہو تے تو میانہ قدمائل بہ درازی ہو تے اور جب اوروں کے ساتھ چلتے یا بیٹھتے تو سب سے بلند دکھائی دیتے۔ ([9] ) تا کہ باطن کی طرح ظاہر وصورت میں بھی کوئی آپ سے بڑا معلوم نہ ہو۔

             آپ کی قامت زیبا کا سایہ نہ تھا اس کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ آپ کے اسمائے مبارک میں سے ایک اسم شریف نور ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں سورۂ مائد ہ میں ہے:

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ (۱۵)

البتہ تمہارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک نوراور کتاب واضح آئی۔ ([10] )

اور ظاہر ہے کہ نور کا سایہ نہیں ہو تا۔ حکیم ترمذی  (متوفی ۲۵۵ ھ)  نے نوادر الا صول میں بر وایت ذکو ان  (تا بعی)  نقل کیا ہے کہ دھوپ اور چاندنی میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سایہ نظر نہ آتا تھا۔ امام ابن سبع کا قول ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا اور آپ نور تھے۔ لہٰذا جب آپ دھوپ یا چا ند کی روشنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے کہ جس میں مذکور ہے کہ جب آپ نے یہ دعامانگی کہ اللّٰہ میرے تمام اعضاء اور جہات میں نور کر دے تو دعا کو اس قول پر ختم فرمایا:  ([11] )  وَاجْعَلْنِی نُوْراً۔ ([12] )   (اور مجھ کو نور بنا دے ) ۔ زر قانی ([13] ) میں مذکور ہے کہ حدیث ذکوان مر سل ہے۔ مگر ابن مبارک وابن جوزی نے بروایت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نقل کیا ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سایہ نہ تھا۔ جب آپ دھوپ میں کھڑے ہو تے تو آپ کی روشنی سورج کی روشنی پر غالب آتی اور جب چراغ کے سامنے کھڑے ہوتے تو چراغ کی روشنی پر غالب آتی۔بعض کا قول ہے کہ آپ کا سایہ نہ ہو نے میں یہ حکمت تھی کہ آپ کے سایہ کو کوئی کا فر پامال نہ کرے۔ ([14] )      ؎

ماہ فروماند از جمال محمد                         سرو نروید باعتدال محمد

رنگ مبارک

 



[1]     اس طرح کی رفتار ممدوح و مستحسن ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) (فرقان، ع۶)‘‘ اور بندے رحمن کے وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر دبے پاؤں اور جب بات کرنے لگیں ان سے بے سمجھ لوگ، کہیں صاحب سلامت۔(ترجمۂکنز الایمان:اورر حمن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ۱۹،الفرقان:۶۳) علمیہ)

[2]     شمائل ترمذی، باب ماجاء فی مشیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ والہ وسلم۔

[3]     الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی مشیۃ رسول اللّٰہ،الحدیث:۱۱۶،ص۸۶۔ علمیہ

[4]     قصداً۔

[5]     حضور اپنے اصحاب کے مربی و نگہبان تھے۔ اس لئے ان کے حالات کے ملاحظہ کے لئے آپ پیچھے ہوجاتے تاکہ حسب حال ان کی تربیت وتادیب و تکمیل فرمائیں یا آپ کا یہ فعل تواضع پر مبنی تھا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔

[6]     بقول حافظ ابو نعیم فرشتے آپ کی نگہبانی کرتے تھے۔ یہ امر کسی طرح  وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ-۔ (اور اللّٰہ تجھ کو لوگوں سے بچائے گا) کے منافی نہیں ۔ کیونکہ اگر یہ حالت اس آیت کے نزول سے پہلے تھی تو عدم منافات ظاہر ہی ہے ۔ اور اگر نزول کے بعد ہو تو  یوں سمجھنا چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دشمنوں سے آپ کی حفاظت کا یوں انتظام کردیا کہ اظہار شرف کے لئے فرشتوں کی ایک جماعت اس کام پر متعین فرمادی۔ (دیکھو زرقانی علی المواہب، جزء رابع، ص۲۹۱) (المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ،ج۵،ص۵۲۳۔ علمیہ)

[7]     خصائص کبریٰ و شرح ہمزیہ لابن حجرہیتمی۔

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن