30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
آخر دکھایا رنگ شہیدوں کے خون نے سر کٹ گئے اماں نہ تمہیں اک ذرا ملی
پائی ہے کیا نعیم انہوں نے ابھی سزا دیکھیں گے وہ جحیم میں جس دم سزا ملی
اس کے بعد مختار نے ایک حکمِ عام دیا کہ کربلا میں جوجو شخص عمر بن سعد کا شریک تھا وہ جہاں پایا جائے مارڈالا جائے۔ یہ حکم سن کر کوفہ کے جفا شعار سورمابصرہ بھاگنا شروع ہوئے ، مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیاجس کو جہاں پایا ختم کردیا ، لاشیں جلاڈالیں ، گھرلوٹ لیے۔ خولی بن یزیدوہ خبیث ہے جس نے حضرت امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا سرِ مبارک تنِ اقدس سے جدا کیا تھا ، یہ روسیاہ بھی گرفتار کرکے مختار کے پاس لایا گیا۔ مختار نے پہلے اس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے پھر سولی چڑھایا ، آخر آگ میں جھونک دیا۔ اس طرح لشکر ِابن سعد کے تمام اشرار کو طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا۔ چھ ہزار کوفی جو حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے قتل میں شریک تھے ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کردیا۔ ([1])
عبیداللہ ابن زیاد ، یزید کی طرف سے کوفہ کاوالی (گورنر) کیاگیاتھا۔ اسی بدنہاد کے حکم سے حضرت امام اور آپ کے اہل بیت علیہم الرضوان کو یہ تمام ایذا ئیں پہنچائی گئیں ، یہی ابن زیاد موصل میں تیس ہزار فوج کے ساتھ اترا۔ مختار نے ابراہیم بن مالک اشترکو اس کے مقابلہ کیلئے ایک فوج کولے کر بھیجا موصل سے پندرہ کوس کے فاصلہ پر دریائے فرات کے کنارے دونوں لشکروں میں مقابلہ ہوا اور صبح سے شام تک خوب جنگ رہی۔ جب دن ختم ہونے والا تھا اور آفتاب قریب غروب تھا اس وقت ابراہیم کی فوج غالب آئی ، ابن زیادکوشکست ہوئی ، اس کے ہمراہی بھاگے۔ ابراہیم نے حکم دیا کہ فوجِ مخالف میں سے جو ہاتھ آئے اس کوزندہ نہ چھوڑا جائے۔ چنانچہ بہت سے ہلاک کیے گئے۔ اسی ہنگامہ میں ابن زیاد بھی فرات کے کنارے محرم کی دسویں تاریخ ۶۷ھ میں مارا گیا اور اس کا سر کا ٹ کر ابراہیم کے پاس بھیجا گیا ، ابراہیم نے مختار کے پاس کوفہ میں بھجوایا ، مختار نے دار الامارت کوفہ کو آ راستہ کیا اوراہل کوفہ کو جمع کرکے ابن زیاد کا سرناپاک اسی جگہ رکھوایا جس جگہ اس مغرورِحکومت و بندۂ دنیانے حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا سرِ مبارک رکھا تھا۔ مختار نے اہل کوفہ کو خطاب کرکے کہا کہ اے اہل کوفہ! دیکھ لوکہ حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے خونِ ناحق نے ابن زیادکو نہ چھوڑا ، آج اس نامراد کا سر اس ذلت و رسوائی کے ساتھ یہاں رکھا ہوا ہے ، چھ سال ہوئے ہیں وہی تاریخ ہے ، وہی جگہ ہے ، خدواند ِ عالَم نے ا س مغرور ، فرعون خصال کو ایسی ذلت و رسوائی کے ساتھ ہلاک کیا ، اسی کوفہ اور اسی دار الامارت میں اس بے دین کے قتل وہلاک پر جشن منایا جارہاہے۔ ([2])
ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ جس وقت ابن زیاد اور اس کے سرداروں کے سر مختار کے سامنے لاکر رکھے گئے توایک بڑاسانپ نمودار ہوا ، اس کی ہیبت سے لوگ ڈر گئے وہ تمام سروں پر پھرا جب عبیداللہ ابن زیاد کے سر کے پاس پہنچا اس کے نتھنے میں گھس گیا اور تھوڑی دیر ٹھہر کر اس کے منہ سے نکلا ، اس طرح تین بار سانپ اس کے سر کے اندر داخل ہوا اور غائب ہوگیا۔([3])
ابن زیاد ، ابن سعد ، شمر ، قیس ابن اشعث کندی ، خولی ابن یزید ، سنان بن انس نخعی ، عبداللہ بن قیس ، یزید بن مالک اور باقی تمام اشقیا جو حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے قتل میں شریک تھے اور ساعی تھے طرح طرح کی عقوبتوں سے قتل کیے گئے اور ان کی لاشیں گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کرائی گئیں۔([4])
حدیث شریف میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ خونِ حضرتِ امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے بدلے سترہزار شقی مارے جائیں گے۔ ([5]) وہ
[1] الکامل فی التاریخ ، سنۃ ست وستین ، ج۴ ، ص۲۷۔ ۴۹ملخصاً
[2] الکامل فی التاریخ ، سنۃ سبع وستین ، ذکر مقتل ابن زیاد ، ج۴ ، ص۶۰۔ ۶۲ملخصاً
والبدایۃ والنہایۃ ، سنۃ سبع وستین ، وترجمۃ ابن زیاد ، ج۶ ، ص۳۷۔ ۴۳ ملخصاً
وروضۃ الشہداء (مترجم) ، دسواں باب ، فصل دوم ، ج۲ ، ص۴۵۷
[3] سنن الترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب ابی محمد الحسن۔ ۔ ۔ الخ ، الحدیث : ۳۸۰۵ ،
ج۵ ، ص۴۳۱
[4] روضۃ الشہداء (مترجم) ، دسواں باب ، فصل دوم ، ج۲ ، ص۴۵۵ ماخوذاً
[5] المستدرک للحاکم ، کتاب تواریخ المتقدمین ۔ ۔ ۔ الخ ، قصۃ قتل یحیی علیہ السلام ،
الحدیث : ۴۲۰۸ ، ج۳ ، ص۴۸۵
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع