30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ظلم و جفاسے ذبح کئے گئے ، عزیز واقارب ، دوست واحباب ، خادم ، موالی ، دلبند ، جگرپیوند سب آئین وفااداکرکے دوپہر میں شربت شہادت نوش کرچکے ہیں ۔ اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قافلہ میں سناٹا ہوگیا ہے۔ جن کا کلمہ کلمہ تسکینِ دل و راحت ِجان تھا وہ نور کی تصویریں خاک و خون میں خاموش پڑی ہوئی ہیں ۔ آل رسول نے رضاو صبر کا وہ امتحان دیا جس نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیاہے۔ بڑے سے لے کر بچے تک مبتلائے مصیبت تھے۔
حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے چھوٹے فرزند علی اصغررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجوا بھی کمسن ہیں ، شیر خوار ہیں ، پیاس سے بیتاب ہیں ، شدتِ تشنگی سے تڑپ رہے ہیں ، ماں کا دودھ خشک ہوگیا ہے ، پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے ، اس چھوٹے بچے کی خشک ننھی زبان باہر آتی ہے ، بے چینی میں ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور پیچ کھا کھا کر رہ جاتے ہیں ، کبھی ماں کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کو سوکھی زبان دکھلاتے ہیں ۔ نادان بچہ کیا جانتا ہے کہ ظالموں نے پانی بند کردیاہے۔ ماں کا دل اس بے چینی سے پاش پاش ہوا جاتاہے کبھی بچہ باپ کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ جانتاتھاکہ ہر چیز یہ لاکردیا کرتے تھے۔ میری اس بے کسی کے وقت بھی پانی بہم پہنچائیں گے ، چھوٹے بچے کی بے تابی دیکھی نہ گئی۔ والدہ نے حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے عرض کیا : اس ننھی سی جان کی بے تابی دیکھی نہیں جاتی اس کو گود میں لے جائیے اور اس کا حال ظالمانِ سنگدل کو دکھائیے اس پر تورحم آئے گا۔ اس کو تو چند قطرے دے دیں گے۔ یہ نہ جنگ کرنے کے لائق ہے نہ میدا ن کے لائق ہے۔ اس سے کیا عداوت ہے۔
حضرت اما م رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاس چھوٹے نور نظر کو سینہ سے لگاکر سپاہ ِدشمن کے سامنے پہنچے اور فرمایا کہ اپنا تمام کنبہ تو تمہاری بے رحمی اور جوروجفا کے نذر کرچکااور اب اگر آتش بغض و عناد جوش پر ہے تو اس کے لئے میں ہوں ۔ یہ شیر خواربچہ پیاس سے دم توڑ رہا ہے اس کی بے تابی دیکھو اور کچھ شائبہ بھی رحم کا ہوتو اس کا حلق تر کرنے کو ایک گھونٹ پانی دو۔
جفا کار انِ سنگدل پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا اور ان کو ذرا رحم نہ آیا۔ بجائے پانی کے ایک بدبخت نے تیر مارا جو علی اصغررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا حلق چھیدتا ہوا امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے باز و میں بیٹھ گیا۔ امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے وہ تیر کھینچا ، بچہ نے تڑپ کر جان دی ، باپ کی گود سے ایک نور کا پتلا لپٹا ہواہے ، خون میں نہارہاہے ، ا ہل خیمہ کو گمان ہے کہ سیاہ دلانِ بے رحم اس بچہ کو ضرور پانی دے دیں گے اوراس کی تشنگی دلوں پر ضرور اثر کرے گی لیکن جب امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاس شگوفۂ تمنا کوخیمہ میں لائے اور اس کی والدہ نے اول نظر میں دیکھا کہ بچہ میں بے تابانہ حرکتیں نہیں ہیں ، سکون کا عالم ہے ، نہ وہ اضطراب ہے نہ بے قراری ، گمان ہواکہ پانی دے دیا ہوگا۔ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے دریافت کیا ، فرمایا : وہ بھی ساقی کوثر کے جامِ رحمت و کرم سے سیراب ہونے کے لیے اپنے بھائیوں سے جا ملا ، اللہ تعالیٰ نے ہماری یہ چھوٹی قربانی بھی قبول فرمائی۔ ([1]) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ اِحْسَانِہٖ وَنَوَالِہٖ۔
رضا و تسلیم کی امتحان گاہ میں امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاور ان کے متوسلین نے وہ ثابت قدمی دکھائی کہ عالمِ ملائکہ بھی حیرت میں آگیا ہوگا اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰)([2]) کارازان پر منکشف ہوگیا ہوگا۔
حضرتِ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت
اب وہ وقت آیا کہ جاں نثار ایک ایک کرکے رخصت ہوچکے اور حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر جانیں قربان کرگئے ، اب تنہا حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُہیں اورایک فرزند حضرت امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُوہ بھی بیمارو ضعیف۔ باوجود اس ضعف و ناطاقتی کے خیمہ سے باہر آئے اورحضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو تنہا دیکھ کر مصافِ کا رزار جانے اور اپنی جان نثار کرنے کیلئے نیزہ دست مبارک میں لیا لیکن بیماری ، سفر کی کوفت ، بھوک پیاس ، متواتر فاقوں اور پانی کی تکلیفوں سے ضعف اس درجہ ترقی کرگیا تھا کہ کھڑے ہونے سے بدن مبارک لرزتا تھاباوجود اس کے ہمت مردانہ کایہ حال تھا کہ میدان کا عزم کردیا۔
حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا : جانِ پدر! لوٹ آؤ ، میدان جانے کا قصد نہ کرو ، میں کنبہ قبیلہ ، عزیز و اقارب ، خدا م ، موالی جو ہمراہ تھے راہِ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع