30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حر کو اٹھا کر لائے او ر اس کے سر کو زانوئے مبارک پر رکھ کر اپنے پاک دامن سے اس کے چہرے کا غبار دور فرمانے لگے ، ابھی رَمَقِ جان باقی تھی ، ابنِ زَہرا کے پھول کے مہکتے دامن کی خوشبوحر کے دماغ میں پہنچی ، مَشامِ جاں معطر ہوگیا ، آنکھیں کھول دیں ، دیکھا کہ ابن رسول اللہ کی گود میں ہے۔ اپنے بَخْت ومقدر پر ناز کرتا ہوا فردوس بریں کوروانہ ہوا۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ ۔
حر کے ساتھ اس کے بھائی اور غلام نے بھی نوبت بہ نوبت داد ِشجاعت دے کر اپنی جانیں اہلِ بیترَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر قربان کیں ۔ پچاس سے زیادہ آدمی شہید ہو چکے اب صرف خاندان اہل بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمباقی ہے اور دشمنان بد باطن کی انھیں پر نظرہے یہ حضر ات پروانہ وار حضرت امام ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نثار ہیں ۔ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے اس چھوٹے سے لشکر میں سے اس مصیبت کے وقت میں کسی نے بھی ہمت نہ ہاری ، رُفَقا اور مَوالی میں سے کسی کوبھی تو اپنی جان پیاری نہ معلوم ہوئی ، ساتھیوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جواپنی جان لے کر بھاگتا یادشمنوں کی پناہ چاہتا۔ جان نثار انِ امام نے اپنے صدق و جانبازی میں پروانہ و بلبل کے افسانے ہیچ کردئیے ، ہرایک کی تمنا تھی اور ہر ایک کا اصرار تھا کہ پہلے جاں نثاری کو ان کو موقع دیاجائے ، عشق ومحبت کے متوالے شوق شہادت میں مست تھے ، تنوں کا سر سے جدا ہونا اور راہِ خداعزوجل میں شہادت پانا ان پر وجد کی کیفیت طاری کرتا تھا ، ایک کو شہید ہوتا دیکھ کر دوسرے کے دلوں میں شہادتوں کی امنگیں جوش مارتی تھیں ۔ ([1])
اہل بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے نوجوانوں نے خاک ِکر بلا کے صفحات پر اپنے خون سے شجاعت و جو انمردی کے وہ بے مثال نُقوش ثَبَت فرمائے جن کو تَبَدُّلِ اَزْمِنَہ کے ہاتھ مَحْوکرنے سے قاصر ہیں ۔ اب تک نیاز مندوں اور عقیدت کیشوں کی معرکہ آرائیاں تھیں جنہوں نے عَلَم بردار انِ شجاعت کو خاک و خون میں لِٹا کر اپنی بہادری کے غُلْغُلے دکھائے تھے اب اسد اللہ کے شیرانِ حق کا موقع آیا اور علی مرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے خاندان کے بہادروں کے گھوڑوں نے میدانِ کر بلا کو جولانگاہ بنایا۔
ان حضرات کا میدان میں آنا تھا کہ بہادروں کے دل سینوں میں لرزنے لگے اور ان کے حملوں سے شیردل بہاد ر چیخ اٹھے ، اسد اللہی تلواریں تھیں یا شِہابِ ثاقِب کی آتش باری ، بنی ہاشم کی نبردآزمائی اور جاں شکار حملوں نے کربلا کی تشنہ لب زمین کو دشمنوں کے خون سے سیراب کردیا اور خشک ریگستان سرخ نظر آنے لگا۔ نیزوں کی نوکوں پر صف شکن بہادروں کو اٹھانا اورخاک میں ملانا ہاشمی نوجوانوں کا معمولی کرتب تھا ، ہر ساعت نیا مبارز آتاتھا اور ہاتھ اٹھاتے ہی فنا ہوجاتاتھا ، ان کی تِیغ بے نیام اجل کا پیام تھی اور نوکِ سناں قضا کا فرمان ، تلواروں کی چمک نے نگاہیں خِیْرہ کردیں اورحرب و ضرب کے جوہر دیکھ کر کوہ پیکر ترساں وہراساں ہوگئے۔ کبھی مَیْمَنَہ پر حملہ کیا تو صفیں درہم برہم کر ڈالیں معلوم ہوتا تھا کہ سوار مقتولوں کے سمند ر میں تیر رہا ہے کبھی مَیْسَرَہ کی طرف رخ کیا تومعلوم ہوا کہ مردوں کی جماعت کھڑی تھی جو اشارہ کرتے ہی لوٹ گئی۔ صاعقہ کی طرح چمکنے والی تیغ خون میں ڈوب ڈو ب کرنکلتی تھی اور خون کے قطرات اس سے ٹپکتے رہتے تھے۔ اس طر ح خاندان امام کے نوجوان اپنے اپنے جوہر دکھا دکھا کر امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر جان قربان کرتے چلے جارہے تھے۔ خیمہ سے چلتے تھے تو بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ ([2])
کے چمنستان کی دلکش فضاء ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتی تھی ، میدانِ کربلا کی راہ سے اس منزل تک پہنچنا چاہتے تھے۔
فرزند انِ امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے محاربہ نے دشمن کے ہوش اڑادئیے ، ابنِ سعد نے اعتراف کیا کہ اگر فریب کاریوں سے کام نہ لیاجاتا یا ان حضرات پر پانی بند نہ کیا جاتا تو اہل بیترَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ایک ایک نوجوان تمام لشکر کوبربا د کرڈالتا ، جب وہ مقابلہ کیلئے اٹھتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ قہرالٰہی عزوجل آرہاہے ، ان کا ایک ایک ہُنَرْوَرْ صف شکنی و مبارزفگنی میں فردتھا۔ الحاصل اہلِ بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے نونہالوں اور ناز کے پالوں نے میدان کربلا میں حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر اپنی جانیں فدا کیں اور تیر وسناں کی بارش میں حمایتِ حق سے منہ نہ موڑا ، گردنیں کٹوائیں ، خون بہائے ، جانیں دیں مگر کلمۂ ناحق زبان پر نہ آنے دیا ، نوبت بہ نوبت تمام شہزادے شہید ہوتے چلے گئے۔ اب حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے سامنے ان کے نورِ نظرحضرت علی اکبررَضِیَ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع