30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ہوں ، دنیا پوری قوت کے ساتھ مجھ کو جہنم کی طرف کھینچ رہی ہے اور میرا دل اس کی ہیبت سے کانپ رہاہے۔ اسی اثنا ء میں حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی آواز آئی فرماتے ہیں : ’’کوئی ہے جو آج آلِ رسول پر جان نثار کرے اور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی حضوری میں سرخروئی پائے۔ ‘‘
یہ صدا تھی جس نے پاؤں کی بیڑیاں کاٹ دیں ، دلِ بے تاب کو قرار بخشا اور اطمینان ہوا کہ شاہزادۂ کونین حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیری پہلی جرأت سے چشم پوشی فرمائیں توعجب نہیں ، کریم نے کرم سے بشارت دی ہے ، جان فدا کرنے کے ارادہ سے چل پڑو۔ گھوڑا دوڑایا اور امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی خدمت میں حاضر ہوکر گھوڑے سے اتر کر نیاز مندوں کے طریقہ پر رِکاب تھامی اور عرض کیا کہ اے ابن رسول ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم، فرزند بتول!میں وہی حر ہوں جو پہلے آپ کے مقابل آیا اور جس نے آپ کو اس میدان بیابان میں روکا۔ اپنی اس جسارت و مبادرت پر نادم ہوں ، شرمندگی اور خَجالَت نظر نہیں اٹھانے دیتی ، آپ کی کریمانہ صدا سن کر امیدوں نے ہمت بندھائی تو حاضر خدمت ہواہوں ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے کرم سے کیا بعید کہ عفوِ جرم فرمائیں اور غلامانِ بااخلاص میں شامل کریں اور اپنے اہل بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمپر جان قربان کرنے کی اجازت دیں۔
حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حُر کے سر پردست مبارک رکھا اور فرمایا : ’’ اے حر!بارگاہ الٰہی میں اخلاص مندوں کے استغفار مقبول ہیں اور توبہ مستجاب ، عذر خواہ محروم نہیں جاتے وَھُوَالَّذِیْ یَقْبَلُ التََّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ ([1]) شادباش کہ میں نے تیری تقصیر معاف کی اور اس سعادت کے حصول کی اجازت دی۔ ‘‘
حُراجازت پاکر میدان کی طرف روانہ ہوا ، گھوڑا چمکاکرصفِ اعداء پر پہنچا ، حُر کے بھائی مصعب بن یزید نے دیکھا کہ حرنے دولت سعادت پائی اور نعمت آخرت سے بہرہ مند ہوا اور حرصِ دنیا کے غبار سے اس کا دامن پاک ہوا ، اس کے دل میں بھی ولولہ اٹھااور باگ اٹھاکر گھوڑادوڑا تا ہوا چلا۔ عمربن سعد کے لشکر کوگمان ہواکہ بھائی کے مقابلہ کے لئے جاتاہے۔ جب میدان میں پہنچا ، بھائی سے کہنے لگا : بھائی !تو میرے لئے خِضْرِ راہ ہوگیا اور مجھے تونے سخت ترین مَہْلَکَہ سے نجات دلائی ، میں بھی تیرے ساتھ ہوں اور رَفاقَتِ حضرتِ امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ اعدائے بدکیش کو اس واقعہ سے نہایت حیرانی ہوئی۔ یہ واقعہ دیکھ کر عمربن سعد کے بدن پر لرزہ پڑگیااوروہ گھبرا اٹھا اور اس نے ایک شخص کو منتخب کرکے اس کے لئے بھیجا اور کہا کہ رِفق و مدارات کے ساتھ سمجھا بہکا کر حُر کو اپنے موافق کرنے کی کوشش کرے اورا پنی چالبازی اور فریب کاری انتہاکو پہنچادے۔ پھر بھی ناکامی ہو تو اس کا سرکاٹ کر لے آئے۔ وہ شخص چلا او ر حُر سے آکر کہنے لگا ، اے حر! تیری عقل و دانائی پر ہم فخر کیا کرتے تھے مگر آج تونے کمال نادانی کی کہ اس لشکر ِجَرَّار سے نکل کر یزید کے انعام وا کرام پر ٹھوکر مار کر چند بیکس مسافروں کا ساتھ دیا جن کے ساتھ نانِ خشک کا ایک ٹکڑا اور پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے ، تیری اس نادانی پر افسوس آتا ہے۔ حر نے کہا : ’’اے بے عقل ناصح تجھے اپنی نادانی پررنج کرنا چاہیے کہ تو نے طاہر کو چھوڑ کر نجس کو قبول کیا اور دولت باقی کے مقابلہ میں دنیائے فانی کے مَوہُوم آرام کوترجیح دی ، حضور سیدعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اپناپھول فرمایا ہے۔ میں اس گلستانِ رسالت پرجان قربان کرنے کی تمنا رکھتاہوں ، رضائے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے بڑھ کر کونَین میں کونسی دولت ہے۔ ‘‘کہنے لگا : ’’ اے حر! یہ تو میں بھی خوب جانتا ہوں لیکن ہم لوگ سپاہی ہیں اور آج دولت و مال یزید کے پاس ہے۔ ‘‘ حر نے کہا : ’’اے کم ہمت! اس حوصلہ پر لعنت ۔ ‘‘
اب تو ناصح بد باطن کویقین ہوگیا کہ اس کی چَرْب زبانی حُرپر اثر نہیں کرسکتی ، اہلِ بیترَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی محبت اس کے قلب میں اتر گئی ہے اور اس کا سینہ آلِ ر سول علیہ السلام کی وِلا سے مَمْلوہے ، کوئی مکرو فریب اس پر نہ چلے گا۔ باتیں کرتے کرتے ایک تیرحُر کے سینہ پر کھینچ مارا ، حُرنے زخم کھاکر ایک نیزہ کاوار کیاجو سینہ سے پار ہوگیا اور زِین سے اٹھا کر زمین پر پٹک دیا۔ اس شخص کے تین بھائی تھے ، یکبارگی حر پر دوڑ پڑے ، حر نے آگے بڑھ کرایک کا سر تلوار سے اڑادیا۔ دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈال کر زِین سے اٹھا کر اس طرح پھینکا کہ گردن ٹوٹ گئی۔ تیسرا بھاگ نکلا اورحرنے اس کا تعاقب کیا ، قریب پہنچ کر اس کی پشت پر نیزہ مارا وہ سینہ سے نکل گیا ، ا ب حر نے لشکر ِ ابنِ سعد کے مَیْمَنَہ پر حملہ کیا اور خوب زورکی جنگ ہوئی ، لشکر ابن سعد کو حر کے جنگی ہنر کا اعترا ف کرنا پڑا اور وہ جانباز صادق دادِ شجاعت دے کر فرزند ِرسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمپر جان فدا کرگیا۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع