30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
شہر میں میرا آنا نہیں چاہتے ہوتو مجھے واپس جانے دو ، تم سے کسی چیز کا طلب گار نہیں ، تمہارے درپے آزارنہیں ، تم کیوں میری جان کے درپے ہو اور تم کس طرح میرے خون کے الزام سے بری ہوسکتے ہو؟ روزِ محشر تمہارے پاس میرے خون کا کیاجواب ہوگا؟ اپنا انجام سو چو اور اپنی عاقبت پر نظر ڈالو ، پھر یہ بھی سمجھو کہ میں کون اور بارگاہِ رسالت میں کس چشمِ کرم کا منظور نظرہوں ، میرے والد کون ہیں اور میری والدہ کس کی لخت جگرہیں ؟میں انھیں بتولِ زہرا کا نور ِدید ہ ہوں جن کے پل صراط پر گزرتے وقت عرش سے ندا کی جائے گی کہ اے اہل محشر! سر جھکاؤاور آنکھیں بندکروکہ حضرت خاتون جنت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاپل صراط سے ستر (۷۰) ہزار حوروں کو رکابِ سعادت میں لے کر گزرنے والی ہیں ۔ میں وہی ہوں جس کی محبت کو سرورِعالم عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اپنی محبت فرمایاہے ، میرے فضائل تمہیں خوب معلوم ہیں ، میرے حق میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں اس سے تم بے خبر نہیں ہو۔ ‘‘
اس کا جواب یہ دیا گیا کہ آپ کے تمام فضائل ہمیں معلوم ہیں مگر اس وقت یہ مسئلہ زیربحث نہیں ہے ، آپ جنگ کے لئے کسی کو میدان میں بھیجئے اور گفتگوختم فرمائیے۔
حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایاکہ’’ میں حجتیں ختم کرنا چاہتاہوں تاکہ اس جنگ کو دفع کرنے کی تدابیر میں سے میری طرف سے کوئی تدبیر رہ نہ جائے اور جب تم مجبور کرتے ہوتو بمجبوری وناچاری مجھ کوتلوار اٹھاناہی پڑے گی۔ ‘‘ ([1])
ہُنوزگفتگو ہوہی رہی تھی کہ گروہِ اعداء میں سے ایک شخص گھوڑا دوڑاکر سامنے آیا (جس کانام مالک بن عروہ تھا) جب اس نے دیکھا کہ لشکر امام کے گرد خند ق میں آگ جل رہی ہے اور شعلے بلند ہورہے ہیں اور اس تدبیر سے اہلِ خیمہ کی حفاظت کی جاتی ہے تو اس گستاخ بدباطن نے حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے کہا کہ اے حسین !رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُتم نے وہاں کی آگ سے پہلے یہیں آگ لگالی۔ حضرت امام عالی مقام علی جدہ وعَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا : کَذَبْتَ یَا عَدُوَّاللہِاے دشمن خدا! توکاذب ہے۔ تجھے گمان ہے کہ میں دوزخ میں جاؤں گا۔
مسلم بن عوسجہ کو مالک بن عروہ کا یہ کلمہ بہت ناگوار ہوااور انہوں نے حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے اس بدزبان کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت چاہی۔ صبر وتحمل اور تقویٰ اورراست بازی اور عدالت و انصاف کا ایک عدیم ُالمثال منظرہے کہ ایسی حالت میں جب کہ جنگ کیلئے مجبور کئے گئے تھے۔ خون کے پیاسے تلواریں کھینچے ہوئے جان کے خواہاں تھے ۔ بے باکوں نے کمال بے ادبی و گستاخی سے ایسا کلمہ کہا اور ایک جاں نثار اس کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت چاہتا ہے تو اس وقت اپنے جذبات قبضہ میں ہیں طیش نہیں آتا۔ فرماتے ہیں کہ خبردار! میری طرف سے کوئی جنگ کی ابتداء نہ کرے تاکہ اس خونریزی کا وبال اعداء ہی کی گردن پر رہے اور ہمارا دامن اقدام سے آلودہ نہ ہو لیکن تیرے جراحتِ قلب کا مرہم بھی میرے پاس ہے اورتیرے سوزِ جگر کی تشفی کی بھی تدبیر رکھتا ہوں ، اب تو دیکھ ! یہ فرماکر دست دعا دراز فرمائے اور بارگاہ الٰہی عزوجل میں عرض کیا کہ یارب! عزوجل عذاب نار سے قبل اس گستاخ کو دنیا میں آتشِ عذاب میں مبتلا کر۔ امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا ہاتھ اٹھانا تھا کہ اس کے گھوڑے کا پاؤں ایک سوراخ میں گیا اور وہ گھوڑے سے گرا اور اس کا پاؤں رِکاب میں الجھا اورگھوڑاا سے لے کر بھاگا اور آگ کی خندق میں ڈال دیا۔
حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے سجدۂ شکر کیا اوراپنے پروردگارعزوجل کی حمدو ثناء کی اور فرمایا : ’’اے پروردگار!عزوجل تیر ا شکر ہے کہ تو نے اہلِ بیت ِرسالت کے بدخواہ کو سزادی۔ ‘‘ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی زبان سے یہ کلمہ سن کر صفِ اعدا ء میں سے ایک اور بے باک نے کہاکہ آپ کو پیغمبرِ خدا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے کیا نسبت؟ یہ کلمہ تو امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے لئے بہت تکلیف دہ تھا۔ آپ نے اس کے لئے بھی بددعا فرمائی اور عرض کیا یارب!عزوجل اس بدزبان کو فوری عذاب میں گرفتار کر۔ امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے یہ دعا فرمائی اور اس کو قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی ، گھوڑے سے اتر
[1] الکامل فی التاریخ ، سنۃ احدی وستین ، ذکر مقتل الحسین ، المعرکۃ ، ج۳ ، ص۴۱۸۔ ۴۱۹ملتقطاً
واللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ، کتاب المناقب ، باب مناقب اہل البیت ،
ج۱ ، ص۳۶۸
والمستدرک للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم ، باب ذکر شان الاذان ،
الحدیث : ۴۸۵۲ ، ج۴ ، ص۱۶۳
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع