30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
رسالت کے بے گناہ خون کی پیاس بڑھتی گئی۔ آب فرات سے ان کی تشنگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ ابھی اطمینان سے بیٹھنے اور تکان دورکرنے کی صورت بھی نظرنہ آئی تھی کہ حضرت امام کی خدمت میں ابن زیاد کا ایک مکتوب پہنچا جس میں اس نے حضرت امام سے یزید ناپاک کی بیعت طلب کی تھی۔ حضرت امام نے وہ خط پڑھ کر ڈال دیا اورقاصد سے کہا میرے پاس اس کا کچھ جواب نہیں ۔
ستم ہے ، بلایا تو جاتاہے خود بیعت ہونے کے لئے اور جب وہ کریم بادیہ پیمائی کی مشقتیں برداشت فرماکر تشریف لے آتے ہیں تو ان کو یزید جیسے عیب مجسم شخص کی بیعت پر مجبور کیاجاتاہے جس کی بیعت کو کوئی بھی واقف حال دیندار آدمی گوارا نہیں کرسکتاتھا نہ وہ بیعت کسی طرح جائز تھی۔ امام کوا ن بے حیاؤں کی اس جرأت پر حیرت تھی اور اسی لئے آپ نے فرمایا کہ میرے پاس اس کا کچھ جواب نہیں ہے۔ اس سے ابن زیاد کا طیش اور زیاد ہ ہوگیا اور اس نے مزید عسا کر وافواج ترتیب دئیے اور ان لشکر وں کا سپہ سالار عمربن سعد کو بنایا جو اس زمانے میں ملک رے کاوالی (گورنر) تھا۔ رے خراسان کا ایک شہر ہے جو آج کل ایران کادارالسلطنت ہے اور اس کوطہران کہتے ہیں ۔
ستم شعار محار بین سب کے سب حضرت امام کی عظمت و فضیلت کو خوب جانتے پہچانتے تھے اور آپ کی جلالت ومرتبت کا ہردل مُعْتَرِف تھا۔ اس وجہ سے ابن سعد نے حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے مقاتلہ سے گریز کرنی چاہی اور پہلوتہی کی وہ چاہتا تھا کہ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے خون کے الزام سے وہ بچارہے مگر ابن زیاد نے اسے مجبور کیا کہ اب دوہی صورتیں ہیں یا تورے کی حکومت سے دست بردارہوورنہ امام سے مقابلہ کیاجائے۔ دنیوی حکومت کے لالچ نے اس کو اس جنگ پر آمادہ کردیا جس کو اس وقت وہ ناگوار سمجھتا تھا اور جس کے تصور سے اس کا دل کانپتا تھا۔ آخر کار ابن سعد وہ تمام عساکر وافواج لے کر حضرت امام کے مقابلہ کے لئے روانہ ہوا اور ابن زیاد بد نہاد پیہم و متواتر کُمَک پر کُمَک بھیجتا رہایہاں تک کہ عمرو بن سعد کے پاس بائیس ہزار سوار وپیادہ جمع ہوگئے اور اس نے اس جمعیت کے ساتھ کربلا میں پہونچ کر فرات کے کنارے پڑاؤ کیا اور اپنا مرکز قائم کیا۔([1])
حیرت ناک بات ہے اور دنیاکی کسی جنگ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ کُل بیاسی تو آدمی ، ان میں بیبیاں بھی ، بچے بھی ، بیمار بھی ، پھر وہ بھی بارادۂ جنگ نہیں آئے تھے اور انتظام حرب کافی نہ رکھتے تھے۔ ان کے لئے بائیس ہزار کی جرار فوج بھیجی جائے۔ آخر وہ ان بیاسی نفوس مقدسہ کواپنے خیال میں کیا سمجھتے تھے اور ان کی شجاعت وبسالت کے کیسے کیسے مناظر ان کی آنکھوں نے دیکھے تھے کہ اس چھوٹی سی جماعت کے لئے دوگنی چوگنی دس گنی تو کیا سوگنی تعداد کو بھی کافی نہ سمجھا ، بے اندازہ لشکر بھیج دئیے ، فوجوں کے پہاڑ لگاڈالے ، اس پر بھی دل خوف زدہ ہیں اور جنگ آزماؤں ، دلاوروں کے حوصلے پست ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ شیرانِ حق کے حملے کی تاب لانا مشکل ہے مجبوراً یہ تدبیر کرنا پڑی کہ لشکر امام پر پانی بند کیا جائے ، پیاس کی شدت اور گرمی کی حدّت سے قُویٰ مضمحل ہوجائیں ، ضُعْف انتہا کو پہنچ چکے تب جنگ شروع کی جائے۔ ؎
وہ ریگِ گرم اور وہ دھوپ اور وہ پیاس کی شدت
کریں صبر و تحمل میرِ کوثر ایسے ہوتے ہیں
اہل بیت کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم پر پانی بند کرنے اور ان کے خونوں کے دریا بہانے کیلئے بے غیرتی سے سامنے آنے والوں میں زیادہ تعدادانھیں بے حیاؤں کی تھی جنہوں نے حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو صدہادرخواستیں بھیج کر بلایا تھا اور مسلم بن عقیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ہاتھ پر حضرت امام کی بیعت کی تھی مگر آج دشمنان حمیت و غیرت کو نہ اپنے عہد و بیعت کا پاس تھا نہ اپنی دعوت ومیزبانی کالحاظ۔ فرات کا بے حساب پانی ان سیاہ باطنوں نے خاندانِ رسالت پر بند کردیاتھا۔ اہل بیت کے چھوٹے چھوٹے خورْد سال فاطمی چمن کے نونہال خشک لب ، تشنہ َدہان تھے ، نادان بچے ایک ایک قطرہ کے لئے تڑپ رہے تھے ، نور کی تصویریں پیاس کی شدت میں دم توڑرہی تھیں ، بیماروں کے لئے دریاکا کنارا بیابان بنا ہواتھا ، آل رسول کولبِ آب پانی میسر نہ آتاتھا ، سرِچشمہ تیمم سے
[1] البدایۃ والنہایۃ ، سنۃ احدی وستین ، ج۵ ، ص۶۷۸۔ ۶۸۲ملخصاً
والکامل فی التاریخ ، سنۃ احدی وستین ، ذکر مقتل الحسین ، ج۳ ، ص۴۱۲۔ ۴۱۶ملخصاً
والمعجم البلدان ، حرف الرائ ، باب الراء والیاء وما یلیہما ، ج۲ ، ص۴۵۹
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع