30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
راہ میں حضرت امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو کوفیوں کی بد عہدی اورحضرت مسلم کی شہادت کی خبرمل گئی۔ اس وقت آپ کی جماعت میں مختلف رائیں ہوئیں اور ایک مرتبہ آپ نے بھی واپسی کا قصد ظاہر فرمایا لیکن بہت گفتگویوں کے بعد رائے یہی قرار پائی کہ سفر جاری رکھا جائے اور واپسی کا خیال ترک کیاجائے۔
حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بھی اس مشورہ سے اتفاق کیاا ور قافلہ ا ٓگے چل دیا یہاں تک کہ جب کوفہ دو منزل رہ گیا تب آپ کو حربن یزید ریاحی ملا ، حر کے ساتھ ابن زیاد کے ایک ہزارہتھیار بند سوار تھے ، حرنے حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی جناب میں عرض کیا کہ اس کو ابن زیاد نے آپ کی طرف بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ کو اس کے پاس لے چلے ، حر نے یہ بھی ظاہر کیا کہ وہ مجبور انہ بادل نخواستہ آیاہے اور اس کو آپ کی خدمت میں جرأت بہت ناپسند و ناگوار ہے۔ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حر سے فرمایا کہ میں اس شہر میں خودبخودنہ آیا بلکہ مجھے بلانے کے لئے اہل کوفہ کے متواتر پیام گئے اور لگاتار نامے پہونچتے رہے۔ اے اہل کوفہ! اگر تم اپنے عہد وبیعت پر قائم ہواور تمہیں اپنی زبانوں کا کچھ پاس ہو تو تمہارے شہر میں داخل ہوں ورنہ یہیں سے واپس چلا جاؤں ۔ حر نے قسم کھا کر کہا کہ ہم کو اس کا کچھ علم نہیں کہ آپ کے پاس التجا نامے اور قاصد بھیجے گئے اور میں نہ آپ کو چھوڑسکتا ہوں اور نہ واپس ہوسکتا ہوں ۔
حر کے دل میں خاندان نبوت اوراہل بیت کی عظمت ضرور تھی اور اس نے نمازوں میں حضرت اما م رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُہی کی اقتدا کی لیکن وہ ابن زیاد کے حکم سے مجبور تھااور اس کو یہ اندیشہ بھی تھا کہ وہ اگر حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ کوئی مراعات کرے تو ابن زیادپر یہ بات ظاہر ہوکررہے گی کہ ہزار سوار ساتھ ہیں ، ایسی صورت میں کسی بات کا چھپانا ممکن نہیں اور اگر ابن زیاد کو معلوم ہوا کہ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ ذرا بھی فَرُوْگُذاشْت کی گئی ہے تووہ نہایت سختی کے ساتھ پیش آئے گا۔ اس اندیشہ اورخیال سے حر اپنی بات پراڑارہا یہاں تک کہ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو کوفہ کی راہ سے ہٹ کر کربلامیں نزول فرمانا پڑا۔
یہ محرم ۶۱ھ کی دوسری تاریخ تھی۔ آپ نے اس مقام کا نام دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس جگہ کو کربلا کہتے ہیں ۔ حضرت امام کربلا سے واقف تھے اور آپ کو معلوم تھا کہ کربلا ہی وہ جگہ ہے جہاں اہلِ بیتِ رسالت کوراہِ حق میں اپنے خون کی ندیاں بہانی ہوں گی۔ ([1]) آپ کو انہیں دنوں میں حضور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی زیارت ہوئی ، حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات نے آپ کوشہادت کی خبردی اور آپ کے سینۂ مبارک پر دست اقدس رکھ کر دعا فرمائی : اللھُمَّ اَعْطِ الْحُسَیْنَ صَبْرًا وَاَجْرًا عجیب وقت ہے کہ سلطان دارین کے نور نظر کو صدہاتمناؤں سے مہمان بناکر بلایاہے ، عرضیوں اور درخواستوں کے طومارلگا دئیے ہیں ، قاصدوں اور پیاموں کی روز مرہ ڈاک لگ گئی ہے۔ اہل کوفہ راتوں کواپنے مکانوں میں امام کی تشریف آوری خواب میں دیکھتے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے ، جماعتیں مدتوں تک صبح سے شام تک حجاز کی سڑک پر بیٹھ کر امام کی آمد کا انتظار کیاکرتی ہیں اور شام کو بادِلِ مَغْموم واپس جاتی ہیں لیکن جب وہ کریم مہمان۔ ۔ ۔ اپنے کرم سے ان کی زمین میں ورودفرماتا ہے تو ان ہی کوفیوں کا مسلح لشکر سامنے آتاہے اور نہ شہر میں داخل ہونے دیتا ہے نہ اپنے وطن ہی کو واپس تشریف لے جانے پر راضی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس معز ز مہمان کو مع اپنے اہل بیت کے کھلے میدان میں رختِ اقامت ڈالنا پڑتا ہے اور دشمنان حیا کو غیرت نہیں آتی۔ دنیامیں ایسے معزز مہمان کے ساتھ ایسی بے حمیتی کا سلوک کبھی نہ ہواہوگا جو کوفیوں نے حضرت امام کے ساتھ کیا۔
یہاں تو ان مسافر انِ بے وطن کا سامان بے ترتیب پڑاہے اور ادھر ہزار سوار کا مسلح لشکر مقابل خیمہ زن ہے جواپنے مہمانوں کو نیزوں کی نوکیں اور تلواروں کی دھاریں دکھا رہاہے اور بجائے آداب میزبانی کے خونخواری پر تلاہواہے۔ دریائے فرات کے قریب دونوں لشکر تھے اور دریائے فرات کا پانی دونوں لشکر وں میں سے کسی کو سیراب نہ کرسکا۔ امام کے لشکر کو تو اس کا ایک قطرہ پہنچنا ہی مشکل ہوگیا اور یزیدی لشکر جتنے آتے گئے ان سب کواہل بیت
[1] البدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ ، صفۃ مخرج الحسین الی العراق ، ج۵ ،
ص۶۷۵۔ ۶۷۷ملتقطاً
والکامل فی التاریخ ، سنۃ احدی وستین ، ذکر مقتل الحسین ، ج۳ ، ص۴۰۷۔ ۴۱۱
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع