30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت مسلم بن عقیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکاخط آنے کے بعد حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو کوفیوں کی درخواست قبول فرمانے میں کوئی وجہ تامل وجائے عذرباقی نہیں رہتی تھی ، ظاہری شکل تویہ تھی اور حقیقت میں قضاوقدر کے فرمان نافذ ہوچکے تھے شہادت کا وقت نزدیک آچکاتھا ، جذبۂ شوق دل کو کھینچ رہا تھا ، فدا کاری کے ولولوں نے دل کو بیتاب کردیاتھا ، حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے سفر عراق کا ارادہ فرمایا اور اسباب سفر درست ہونے لگا ، نیاز مندان صادق العقیدت کو اطلاع ہوئی۔ اگرچہ ظاہر میں کوئی مُخَوِّف صورت پیش نظر نہ تھی اور حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے خط سے کوفیوں کی عقیدت وارادت اور ہزار ہاآدمیوں کے حلقۂ بیعت میں داخل ہونے کی اطلاع مل چکی ، غَدَر اورجنگ کا بظاہر کوئی قرینہ نہ تھالیکن صحابہ کے دل اس وقت حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے سفر کو کسی طرح گوارانہ کرتے تھے اوروہ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے اصرار کررہے تھے کہ آپ اس سفر کو ملتوی فرمائیں مگر حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُان کی یہ استدعا قبول فرمانے سے مجبور تھے کیونکہ آپ کو خیال تھاکہ کوفیوں کی اتنی بڑی جماعت کا اس قدر اصرار اور ایسی التجاؤں کے ساتھ عرضداشتیں پذیرا ، نہ فرماناا ہلِ بیت کے اَخلاق کے شایاں نہیں ۔ اس کے علاوہ حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے پہنچنے پر اہل کوفہ کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہونا اور امام کی بیعت کے لئے شوق سے ہاتھ پھیلادینا اور ہزاروں کوفیوں کا داخلِ حلقۂ غلامی ہوجانا ، اس پر بھی حضرت امام کا ان کی طرف سے اِغْماض فرمانا اور ان کی ایسی التجاؤں کو جو محض دینی پاسداری کے لیے ہیں ، ٹھکرا دینا اور اس مسلمان قوم کی دل شکنی کرنا حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو کسی طرح گوارانہ ہوا۔ ادھر حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجیسے صفا کِیْش کی استدعا کو بے التفاتی کی نظرسے دیکھنا اور ان کی درخواستِ تشریف آوری کوردفرمادینا بھی حضرت امام پر بہت شاق تھا۔ یہ وجوہ تھے جنہوں نے امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو سفرِ عراق پر مجبور کیااور آپ کو اپنے حجازی عقیدت مندوں سے معذرت کرنا پڑی۔ ([1])
حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر ، حضرت جابر ، حضرت ابو سعید خدری ، حضرت ابو واقدلیثی اور دوسرے صحابہ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو روکنے میں بہت مصر تھے اور آخر تک وہ یہی کوشش کرتے رہے کہ آپ مکہ مکرمہ سے تشریف نہ لے جائیں لیکن یہ کوششیں کار آمد نہ ہوئیں اورحضرت امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ۳ذی الحجہ ۶۰ھ کواپنے اہل بیت موالی وخدام کل بیاسی (۸۲)نفوس کو ہمراہ لے کر راہِ عراق اختیارکی۔ مکہ مکرمہ سے اہل بیت رسالت کا یہ چھوٹا سا قافلہ روانہ ہوتا ہے اور دنیا سے سفر کرنے والے بیت اللہ الحرام کا آخری طواف کرکے خانہ کعبہ کے پردوں سے لپٹ لپٹ کرروتے ہیں ، ان کی گرم آہوں اور دل ہلادینے والے نالوں نے مکہ مکرمہ کے باشندوں کو مغموم کردیا ، مکہ مکرمہ کا بچہ بچہ اہل بیت کے اس قافلہ کو حرم شریف سے رخصت ہوتا دیکھ کر آبدیدہ اور مغموم ہورہاتھا مگر وہ جانبازوں کے میرِ لشکر اور فداکاروں کے قافلہ سالار مردانہ ہمت کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اَثنائے راہ میں ذاتِ عرق کے مقام پر بشیر ابن غالب اسدی بعَزْمِ مکہ مکرمہ کوفہ سے آتے ملے۔ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ان سے اہل عراق کا حال دریافت کیا ، عرض کیا کہ انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ اورخدا جو چاہتا ہے کرتاہے۔ یَفْعَلُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ۠(۲۷) ([2]) حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا سچ ہے۔ ایسی ہی گفتگو فرزدق شاعر سے ہوئی۔ بطن ذی الرمہ (نام مقامے) سے روانہ ہونے کے بعد عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی۔ وہ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے بہت درپے ہوئے کہ آپ اس سفر کوترک فرمائیں اور اس میں انہوں نے اندیشے ظاہر کیے۔ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا : لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ- ([3]) ہمیں وہی مصیبت پہنچ سکتی ہے جو خداوند عالم نے ہمارے لئے مقرر فرمادی۔ ([4])
[1] البدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ ، صفۃ مخرج الحسین الی العراق ، ج۵ ،
ص۶۶۴۔ ۶۶۵
[2] ترجمۂ کنز الایمان : اللہ جو چاہے کرے۔ (۱۳ ، ابرٰہیم : ۲۷)
[3] ترجمۂ کنزالایمان : ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دیا۔ (پ۱۰ ، التوبۃ : ۵۱)
[4] البدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ ، صفۃ مخرج الحسین الی العراق ، ج۵ ،
ص۶۶۸۔ ۶۷۴ملتقطاً و ملخصاً
والکامل فی التاریخ ، سنۃ ستین ، ذکر الخبر عن مراسلۃ۔ ۔ ۔ الخ ، ج۳ ، ص۳۸۱
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع