30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
تلواروں کے وار کئے اور بنی ہاشم کا مظلوم مسافر ا عداء دین کی بے رحمی سے شہید ہوا۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
دونوں صاحبزادے آپ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے اس بے کسی کی حالت میں اپنے شفیق والد کاسر ان کے مبارک تن سے جدا ہوتے دیکھا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے دل غم سے پھٹ گئے اور اس صدمہ میں وہ بَیْد کی طرح لرزنے اور کانپنے لگے۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کو دیکھتا تھا اور ان کی سرمگیں آنکھوں سے خونی اشک جاری تھے لیکن اس معرکۂ ستم میں کوئی ان نادانوں پر رحم کرنے والا نہ تھا ، ستم گاروں نے ان نونہالوں کو بھی تیغ ستم سے شہید کیا اور ہانی کو قتل کرکے سولی چڑھایا۔ ان تمام شہیدوں کے سر نیزوں پر چڑھاکر کوفہ کے گلی کوچوں میں پھرائے گئے اور بے حیائی کے ساتھ کوفیوں نے اپنی سنگ دلی اور مہمان کُشی کا عملی طور پر اعلان کیا۔([1])
یہ واقعہ ۳ ذی الحجہ ۶۰ھ کا ہے۔ اسی روز مکہ مکرمہ سے حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ([2])
حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی کوفہ کوروانگی
[1] تاریخ الطبری ، سنۃ ستین ، باب مقتل الحسین بن علی۔ ۔ ۔ الخ ، ج۴ ، ص۶۸
والمنتظم لابن جوزی ، سنۃ ستین من الہجرۃ ، باب ذکر بیعۃ یزید بن معاویۃ۔ ۔ ۔ الخ ،
ج۵ ، ص۳۲۶
والکامل فی التاریخ ، سنۃ ستین ، خروج الحسین۔ ۔ ۔ الخ ، مقتل مسلم بن عقیل ، ج۳ ،
ص۳۹۸ملتقطاً
والبدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ ، صفۃ مخرج الحسین الی العراق ، ج۵ ،
ص۶۶۵
[2] آپ کے ہمراہ اس وقت مسطورۂ ذیل حضرات تھے۔ تین فرزند حضرت امام علی اوسط جن کو امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں جو حضرت شہر بانو بنت یزد جرد بن شہریاربن خسرو پرویز بن ہرمز بن نوشیرواں کے بطن سے ہیں ان کی عمراس وقت بائیس سال کی تھی اوروہ مریض تھے۔ حضرت امام کے دوسرے صاحبزادے حضرت علی اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجو یعلی بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی کے بطن سے ہیں جن کی عمر اٹھارہ سال کی تھی (یہ شریک جنگ ہوکر شہید ہوئے) تیسرے شیر خوار جنہیں علی اصغر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں جن کا نام عبد اللہ اور جعفر بھی بتایا گیا ہے اس نام میں اختلاف ہے آپ کی والدہ قبیلہ بنی قضاعہ سے ہیں اور ایک صاحبزادی جن کانام سکینہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا ہے اور جن کی نسبت حضرت قاسم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ ہوئی تھی اور اس وقت آپ کی عمر سات سال کی تھی۔ کربلا میں ان کا نکاح ہونے کی جوروایت مشہور ہے وہ غلط ہے اس کی کچھ اصل نہیں اور کچھ ایسے کم عقل لوگوں نے یہ روایت وضع کی ہے جنھیں اتنی بھی تمیز نہ تھی کہ وہ یہ سمجھ سکتے کہ اہل بیت رسالت کے لیے وہ وقت توجہ الی اللہ اور شوق شہادت اور اتمام حجت کا تھا۔ اس وقت شادی نکاح کی طرف التفات ہونا بھی ان حالات کے منافی ہے۔ حضرت سکینہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی وفات بھی راہِ شام میں مشہور کی جاتی ہے یہ بھی غلط ہے بلکہ وہ واقعۂ کربلا کے بعد عرصہ تک حیات رہیں اور ان کا نکاح حضرت مصعب بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ ہوا۔ حضرت سکینہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی والدہ امراء القیس ابن عدی کی دختر قبیلہ بنی کلب سے ہیں۔ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اپنی ازواج میں سب سے زیادہ ان کے ساتھ محبت تھی اور ان کا بہت زیادہ اکرام و احترام فرماتے تھے۔ حضرت امام کا ایک شعر ہے ؎
لَعُمْرِیْ اِنَّنِیْ لَاُحِبُّ اَرْضًا تَحُلُّ بِھَا سَکِیْنَۃُ وَالرَّبَابُ
اس سے معلوم ہوتاہے کہ امام عالی مقام کو حضرت سکینہ اور ان کی والدہ ماجدہ سے کس قدر محبت تھی۔ حضرت امام کی بڑی صاحبزادی حضرت فاطمہ صغری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاجو حضرت ام اسحٰق بنت حضرت طلحہ کے بطن سے ہیں اپنے شوہر حضرت حسن بن مثنیٰ بن حضرت امام حسن ابن حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ۔ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم)کے ساتھ مدینہ طیبہ میں رہیں کربلا تشریف نہ لائیں۔ امام کے ازواج میں حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ حضرت شہر بانو اور حضرت علی اصغر کی والدہ تھیں۔ حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے چار نوجوان فرزند حضرت قاسم ، حضرت عبد اللہ ، حضرت عمر ، حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمحضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ہمراہ تھے اور کربلا میں شہید ہوئے۔ حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکے پانچ فرزند حضرت عباس ابن علی ، حضرت عثمان ابن علی ، حضرت عبد اللہ ابن علی ، حضرت محمد ابن علی ، حضرت جعفر ابن علی ، رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ہمراہ تھے ۔ سب نے شہادت پائی۔ حضرت عقیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے فرزندوں میں حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُتو حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے کربلا پہنچنے سے پہلے ہی مع اپنے دو صاحبزادوں محمد و ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماکے شہید ہوچکے اور تین فرزند حضرت عبد اللہ و حضرت عبد الرحمن و حضرت جعفر برادران حضرت مسلم علیہم الرضوان امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ہمراہ کربلا حاضر ہو کر شہید ہوئے۔
حضرت جعفر طیار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دو پوتے حضرت محمد اور حضرت عون رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ہمراہ حاضر ہوکر شہید ہوئے ان کے والد کا نام عبد اللہ بن جعفر ہے اور حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے حقیقی بھانجے ہیں۔ ان کی والدہ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی حقیقی بہن ہیں۔ صاحبزادگان اہل بیت میں سے سترہ حضرات حضرت کے ہمراہ حاضر ہوکر رتبۂ شہادت کو پہنچے اور حضرت امام زین العابدین(بیمار)اور عمر بن حسن اور محمد بن عمر بن علی اور دوسرے صغیر السن صاحبزادے علیہم الرضوان قیدی بنائے گئے۔ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی حقیقی ہمشیرہ اور شہر بانو حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی زوجہ اور حضرت سکینہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی دختر اور دوسری اہل بیت کی بیبیاں ہمراہ تھیں۔ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ ۱۲منہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع