30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پانچ سو آدمی تھے اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کے ساتھ ایک بھی نہ تھا۔ تمناؤں کے اظہار اور التجاؤں کے طومار سے جس عزیز مہمان کو بلایا تھا اس کے ساتھ یہ وفاہے کہ وہ تنہا ہیں اور ان کی رَفاقت کے لئے کوئی ایک بھی موجود نہیں ، کوفہ والوں نے حضرت مسلمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو چھوڑنے سے پہلے غیرت و حمیت سے قطع تعلق کیا اور انہیں ذرا پرواہ نہ ہوئی کہ قیامت تک تمام عالَم میں ان کی بے ہمتی کا شُہْرہ رہے گا اور ا س بزدلانہ بے مروتی اور نامردی سے وہ رسوائے عالَم ہوں گے۔ حضرت مسلمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاس غربت و مسافرت میں تنہا رہ گئے ، کدھر جائیں ، کہاں قیام کریں ، حیرت ہے کوفہ کے تمام مہمان خانوں کے دروازے مقفل تھے جہاں سے ایسے محترم مہمانوں کو مدعو کرنے کے لئے رسل و رسائل کا تانتاباندھ دیا گیاتھا ، نادان بچے ساتھ ہیں ، کہاں انہیں لٹائیں ، کہا ں سلائیں ، کوفہ کے وسیع خطہ میں دوچار گز زمین حضرت مسلم کے شب گزارنے کے لئے نظر نہیں آتی۔ اس وقت حضرت مسلمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی یاد آتی ہے اور دل تڑپادیتی ہے ، وہ سوچتے ہیں کہ میں نے امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی جناب میں خط لکھا ، تشریف آوری کی التجا کی ہے اور اس بد عہد قوم کے اخلاص و عقیدت کاایک دل کش نقشہ امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے حضور پیش کیا ہے اور تشریف آوری پر زوردیاہے۔ یقیناحضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیری التجا ردنہ فرمائیں گے اور یہاں کے حالات سے مطمئن ہوکر مع اہل و عیال چل پڑے ہوں گے یہاں انھیں کیا مصائب پہنچیں گے اور چمن زہرا کے جنتی پھولوں کو اس بے مِہْری کی طَپِش کیسے گَزَنْد پہنچائے گی۔ یہ غم الگ دل کو گھائل کررہاتھا اور اپنی تحریر پر شرمندگی و انفعال اور حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے لئے خطرات علیحدہ بے چین کررہے تھے اور موجودہ پریشانی جداد امن گیر تھی۔
اس حالت میں حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو پیاس معلوم ہوئی ، ایک گھر سامنے نظر پڑا جہاں طوعہ نامی ایک عورت موجود تھی اس سے آپ نے پانی مانگا ، اس نے آپ کو پہچان کر پانی دیا اور اپنی سعادت سمجھ کر آپ کو اپنے مکان میں فَروکَش کیا۔ اس عورت کا بیٹا محمد ابن اشعث کا گُرگا تھا ، اس نے فوراً ہی اس کو خبردی اور اس نے ابن زیاد کو اس پر مطلع کیا۔ عبیداللہ ابن زیاد نے عمرو بن حریث( کو توال کوفہ) اور محمد بن اشعث کو بھیجا ان دونوں نے ایک جماعت ساتھ لے کر طوعہ کے گھر کا احاطہ کیا اور چاہا کہ حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو گرفتار کرلیں ۔ حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاپنی تلوارلے کر نکلے اور بناچاری آپ نے ان ظالموں سے مقابلہ شروع کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس جماعت پر اسطرح ٹوٹ پڑے جیسے شیرِ ببر گلۂ گوسْپَنْد پرحملہ آور ہو۔ آپکے شیرانہ حملوں سے دل آوروں نے دل چھوڑ دئیے اور بہت آدمی زخمی ہوگئے ، بعض مارے گئے۔ معلوم ہوا کہ بنی ہاشم کے اس ایک جوان سے نامردانِ کوفہ کی یہ جماعت نَبْرَد آزما نہیں ہوسکتی۔ اب تجویز کی کہ کوئی چال چلنی چاہیے اور کسی فریب سے حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔ یہ سوچ کر امن و صلح کا اعلان کردیا اور حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے عرض کیا کہ ہمارے آپ کے درمیان جنگ کی ضرورت نہیں ہے نہ ہم آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے لڑنا چاہتے ہیں مدعا صرف اس قدر ہے کہ آپ ابن زیاد کے پاس تشریف لے چلیں اور اس سے گفتگو کرکے معاملہ طے کرلیں ۔ حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ میراخود قصدِجنگ نہیں اور جس وقت میرے ساتھ چالیس ہزار کا لشکر تھااس وقت بھی میں نے جنگ نہیں کی اور میں یہی انتظار کرتا رہاکہ ابن زیاد گفتگو کرکے کوئی شکلِ مُصالَحَت پیدا کرے تو خونریزی نہ ہو۔ ([1])
چنانچہ یہ لوگ حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو مع ان کے دونوں صاحبزادوں کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے کر روانہ ہوئے۔ اس بدبخت نے پہلے ہی سے دروازہ کے دونوں پہلوؤں میں اندر کی جانب تیغ زن چھپا کر کھڑے کردئیے تھے اور انہیں حکم دے دیا تھا کہ حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُدروازہ میں داخل ہوں تو ایک دم دونوں طرف سے ان پروار کیاجائے۔ حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اس کی کیا خبر تھی اور آپ اس مکاری اور کَیَّادی سے کیا واقف تھے ، آپ آیۂ کریمہ : رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ ([2]) الآیۃ پڑھتے ہوئے دروازہ میں داخل ہوئے۔ داخل ہونا تھا کہ اشقیا نے دونوں طرف سے
[1] الکامل فی التاریخ ، سنۃ ستین ، خروج الحسین۔ ۔ ۔ الخ ، دعوۃ اہل الکوفۃ ۔ ۔ ۔ الخ
ومقتل مسلم بن عقیل ، ج۳ ، ص۳۹۳۔ ۳۹۵ملتقطاً
والبدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ ، قصۃ الحسین بن علی۔ ۔ ۔ الخ ، ج۵ ،
ص۶۶۰ ، ۶۶۱ملتقطاً
[2] ترجمۂ کنز الایمان : اے رب ہمارے ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر۔ (پ۹ ، الاعراف : ۸۹)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع