30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
وقت اہلِ کوفہ میں بہت جوش ہے ، ایسے طور پر داخل ہونا چاہیے کہ وہ ابنِ زیاد کو نہ پہچانیں اور یہ سمجھیں کہ حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُتشریف لے آئے تاکہ وہ بے خطرہ و اندیشہ امن و عافیت کے ساتھ کوفہ میں داخل ہوجائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ، اہلِ کوفہ جن کو ہر لمحہ حضرت امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی تشریف آوری کا انتظار تھا ، انہوں نے دھوکا کھایا اور شب کی تاریکی میں حجازی لباس اور حجازی راہ سے آتا دیکھ کر سمجھے کہ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُتشریف لے آئے ، نعرہ ہائے مسرت بلند کئے ، گردو پیش مرحبا کہتے چلے مَرْ حَبًا بِکَ یَا اِبْنَ رَسُوْلِ اللہِ اور قَدِمْتَ خَیْرَ مَقْدَمٍ کا شور مچایا۔ یہ مردود دل میں تو جلتا رہا اور اس نے اندازہ کرلیا کہ کوفیوں کو حضرت اما م رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی تشریف آوری کاانتظار ہے اور ان کے دل ان کی طرف مائل ہیں مگر اس وقت کی مصلحت سے خاموش رہا تاکہ ان پر اس کا مکر کھل نہ جائے یہاں تک کہ دارالامارہ (گورنمنٹ ہاؤس) میں داخل ہوگیا۔ اس وقت کوفی یہ سمجھے کہ یہ حضرت نہ تھے بلکہ ابن زیاد اس فریب کاری کے ساتھ آیااور انھیں حسرت و مایوسی ہوئی۔ رات گزار کر صبح کو ابن زیاد نے اہل کوفہ کو جمع کیا اور حکومت کا پروانہ پڑھ کر انہیں سنایا اور یزید کی مخالفت سے ڈرایا دھمکایا ، طرح طرح کے حیلوں سے حضرت مسلم کی جماعت کو منتشر کردیا ، حضرت مسلم نے ہانی بن عروہ کے مکان میں اقامت فرمائی ، ابن زیاد نے محمد بن اشعث کو ایک دستہ فوج کے ساتھ ہانی کے مکان پر بھیج کر اس کوگرفتار کرامنگایا اور قید کرلیا ، کوفہ کے تمام رؤسا وعمائد کو بھی قلعہ میں نظر بند کرلیا۔ ([1])
حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُیہ خبر پاکر برآمد ہوئے اور آپ نے اپنے متوسلین کو ندا کی ، جوق جوق آدمی آنے شروع ہوئے اور چالیس ہزارکی جمعیت نے آپ کے ساتھ قصر شاہی کا احاطہ کرلیا ، صورت بن آئی تھی حملہ کرنے کی دیر تھی۔ اگرحضرت مسلم حملہ کرنے کا حکم دیتے تو اسی وقت قلعہ فتح پاتا اور ابن زیاد اور اس کے ہمراہی حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ہاتھ میں گرفتار ہوتے اور یہی لشکر سیلاب کی طرح امنڈ کر شامیوں کوتاخت و تاراج کرڈالتا اور یزید کو جان بچانے کے لیے کوئی راہ نہ ملتی۔ نقشہ تو یہی جما تھا مگر کار بدست کار کنان قدرست ، بندوں کا سوچا کیا ہوتاہے۔ حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے قلعہ کا احاطہ تو کرلیا اور باوجود یکہ کوفیوں کی بد عہدی اور ابن زیاد کی فریب کاری اور یزید کی عداوت پورے طو ر پر ثابت ہو چکی تھی۔ پھر بھی آپ نے اپنے لشکر کوحملہ کا حکم نہ دیااور ایک بادشاہ داد گُسْتَرکے نائب کی حیثیت سے آپ نے انتظار فرمایا کہ پہلے گفتگو سے قطع حجت کرلیا جائے او رصلح کی صورت پیدا ہوسکے تو مسلمانوں میں خونریزی نہ ہونے دی جائے۔ آپ اپنے اس پاک ارادہ سے انتـظار میں رہے اور اپنی احتیاط کو ہاتھ سے نہ دیا ، دشمن نے اس وقفہ سے فائدہ اٹھا یا اور کوفہ کے رؤساو عمائد جن کو ابن زیاد نے پہلے سے قلعہ میں بند کر رکھا تھا انھیں مجبور کیا کہ وہ اپنے رشتہ داروں اور زیراثر لوگوں کو مجبور کرکے حضرت مسلمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی جماعت سے علیحدہ کردیں ۔
یہ لوگ ابن زیاد کے ہاتھ میں قید تھے اور جانتے تھے کہ اگرا بن زیا د کوشکست بھی ہوئی تو وہ قلعہ فتح ہونے تک ان کاخاتمہ کردیگا۔ اس خوف سے وہ گھبراکر اٹھے اور انہوں نے دیوار قلعہ پر چڑھ کر اپنے متعلقین و متوسلین سے گفتگو کی اور انھیں حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی رَفاقَت چھوڑدینے پر انتہادرجہ کا زوردیا اور بتایا کہ علاوہ اس بات کے کہ حکومت تمہاری دشمن ہوجائے گی یزید ناپاک طِیْنَت تمہارے بچہ بچہ کو قتل کرڈالے گا ، تمہارے مال لٹوادے گا ، تمہاری جاگیریں اور مکان ضبط ہوجائیں گے ، یہ اور مصیبت ہے کہ اگر تم امام مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ رہے تو ہم جوابن زیاد کے ہاتھ میں قید ہیں قلعہ کے اند رمارے جائیں گے ، اپنے انجام پر نظر ڈالو ، ہمارے حال پر رحم کرو ، اپنے گھروں پر چلے جاؤ۔ یہ حیلہ کامیاب ہوا اور حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا لشکر منتشر ہونے لگا یہاں تک کہ تابوقتِ شام حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے مسجد کوفہ میں جس وقت مغرب کی نماز شروع کی تو آپ کے ساتھ
[1] الکامل فی التاریخ ، سنۃ ستین ، خروج الحسین۔ ۔ ۔ الخ ، دعوۃ اہل الکوفۃ۔ ۔ ۔ الخ ، ج۳ ،
ص۳۸۷۔ ۳۸۸ملتقطاً
والبدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ ، قصۃ الحسین بن علی۔ ۔ ۔ الخ ، ج۵ ،
ص۶۵۶۔ ۶۵۸ملتقطاً
وتاریخ الطبری ، سنۃ ستین ، باب مقتل الحسین بن علی۔ ۔ ۔ الخ ، ج۴ ، ص۶۶
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع