30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
عَنْہُکی اس رائے سے متفق نہ تھے اورا نہیں کوفیوں کے عہد ومَواثِیْق کا اعتبار نہ تھا ، امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی محبت اور شہادتِ امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی شہرت ان سب کے دلوں میں اِخْتِلاج پیدا کر رہی تھی ، گوکہ یہ یقین کرنے کی بھی کوئی وجہ نہ تھی کہ شہادت کا یہی وقت ہے اور اسی سفر میں یہ مرحلہ درپیش ہوگالیکن اندیشہ مانع تھا۔ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے سامنے مسئلہ کی یہ صورت در پیش تھی کہ اس استدعا کو روکنے کے لئے عذر شرعی کیاہے۔ ادھر ایسے جلیل القدر صحابہ علیہم الرضوان کے شدید اصرار کا لحاظ ، ادھر اہل کوفہ کی استدعا ردنہ فرمانے کے لئے کوئی شرعی عذر نہ ہوناحضرت امام کے لئے نہایت پیچیدہ مسئلہ تھا جس کا حل بجزا س کے کچھ نظر نہ آیا کہ پہلے حضرت امام مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو بھیجاجائے اگر کوفیوں نے بد عہدی وبے وفائی کی تو عذر شرعی مل جائے گا اور اگر وہ اپنے عہد پر قائم رہے توصحابہ کو تسلی دی جاسکے گی۔ ([1])
کوفہ کوحضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی روانگی
اس بنا پر آپ نے حضرت مسلم بن عقیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو کوفہ روانہ فرمایا اور اہل کوفہ کو تحریر فرمایا کہ تمہاری استدعا پر ہم حضرت مسلمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکوروانہ کرتے ہیں ان کی نصرت و حمایت تم پر لازم ہے۔ حضرت مسلم کے دو فرزند محمد اور ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما جو اپنے باپ کے بہت پیارے بیٹے تھے اس سفر میں اپنے پدر مشفق کے ہمراہ ہوئے۔ حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کوفہ پہنچ کر مختار بن ابی عبید کے مکان پر قیام فرمایا آپ کی تشریف آوری کی خبر سن کرجُوْق جُوْق مخلوق آپ کی زیارت کو آئی اور بارہ ہزار سے زیادہ تعداد نے ا ٓپ کے دست مبارک پر حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی بیعت کی۔
حضرت مسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اہلِ عراق کی گَرْوِیْدَ گی وعقیدت دیکھ کر حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی جناب میں عریضہ لکھا جس میں یہاں کے حالات کی اطلاع دی اور التماس کی کہ ضرورت ہے کہ حضرت جلد تشریف لائیں تاکہ بندگان خدا ، ناپاک کے شر سے محفوظ رہیں اور دین حق کی تائید ہو ، مسلمان امام حق کی بیعت سے مشرف و فیض یاب ہوسکیں ۔ اہل کوفہ کا یہ جوش دیکھ کر حضرت نعمان بن بشیر صحابی نے جواس زمانے میں حکومت شام کی جانب سے کوفہ کے والی (گورنر) تھے۔ اہل کوفہ کو مطلع کیا کہ یہ بیعت یزید کی مرضی کے خلاف ہے اور وہ اس پر بہت بھڑ کے گا لیکن اتنی اطلاع دے کر ضابطہ کی کارروائی پوری کرکے حضرت نعمان بن بشیرخاموش ہوبیٹھے اور اس معاملہ میں کسی قسم کی دست اندازی نہ کی۔ ([2])
مسلم بن یزید حضرمی اور عمارہ بن ولید بن عقبہ نے یزید کو اطلاع دی کہ حضرت مسلم بن عقیلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُتشریف لائے ہیں اور اہل کوفہ میں ان کی محبت و عقیدت کا جوش دَم بدَم بڑھ رہا ہے۔ ہزارہا آدمی ان کے ہاتھ پر امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی بیعت کرچکے ہیں اور نعمان بن بشیر نے اب تک کوئی کارروائی انکے خلاف نہیں کی نہ اِنْسِدادی تدابیر عمل میں لائے۔
یزید نے یہ اطلاع پاتے ہی نعمان بن بشیر کو معزول کیا اور عبید اللہ بن زیاد کو جواس کی طرف سے بصرہ کا والی تھاان کا قائم مقام کیا۔ عبید اللہ بن زیاد بہت مکار وکَیَّاد تھا ، وہ بصرہ سے روانہ ہوا اور اس نے اپنی فوج کو قادِسِیَّہ میں چھوڑا اور خود حجازیوں کا لباس پہن کر اونٹ پر سوار ہوا اور چند آدمی ہمراہ لے کر شب کی تاریکی میں مغرب و عشاء کے درمیان اس راہ سے کوفہ میں داخل ہوا جس سے حجازی قافلے آیا کرتے تھے۔ اس مکاری سے اس کا مطلب یہ تھا کہ اس
[1] تاریخ الخلفاء ، باب یزید بن معاویۃ ابوخالد الاموی ، ص۱۶۴۔ ۱۶۵ملتقطاً
والکامل فی التاریخ ، سنۃ ستین ، خروج الحسین۔ ۔ ۔ الخ ، دعوۃ اہل الکوفۃ ۔ ۔ ۔ الخ ،
ج۳ ، ص۳۸۵ ، ۳۸۶ملتقطاً
والبدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ ، صفۃ مخرج الحسین الی العراق ، ج۵ ،
ص۶۶۷ملتقطاً وملخصاً
[2] الکامل فی التاریخ ، سنۃ ستین ، خروج الحسین۔ ۔ ۔ الخ ، دعوۃ اہل الکوفۃ۔ ۔ ۔ الخ ، ج۳ ،
ص۳۸۵ ، ۳۸۶ ملخصاً
والبدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ستین من الہجرۃ النبویۃ ، قصۃ الحسین بن علی۔ ۔ ۔ الخ ، ج۵ ،
ص۶۵۷ملخصاً
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع