30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے سناکہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ’’ میری سنت کا پہلا بدلنے والا بنی اُمَیَّہ کاایک شخص ہوگاجس کانام یزید ہوگا۔ ‘‘
ابو یعلی نے اپنی مسند میں حضرت ابو عبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت کی کہ حضور پر نور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ ’’میری امت میں عدل و انصاف قائم رہے گا یہاں تک کہ پہلا رَخْنہ انداز وبانیٔ ستم بنی اُمَیَّہ کا ایک شخص ہوگا جس کانام یزید ہوگا۔ ‘‘ یہ حدیث ضعیف ہے۔ ([1])
امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات اور یزید کی سلطنت
امیرمعاویہ نے رجب ۶۰ھ میں بمقا مِ دِمَشْق لَقْوَہ میں مبتلاہوکروفات پائی۔ آپ کے پاس حضور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے تبرکات میں سے ازارشریف ، ردائے اقدس ، قمیص مبارک ، موئے شریف اور ترا شہائے ناخن ہُمَایوں تھے ، آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے حضو ر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی ازا رشریف وردائے مبارک و قمیص اقدس میں کفن دیاجائے اور میرے ان اعضا پر جن سے سجدہ کیا جاتا ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے موئے مبارک اور ترا شۂ ناخن اقدس رکھ دئیے جائیں اور مجھے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن کے رحم پر چھوڑ دیاجائے۔
کورِباطن یزید نے دیکھا تھاکہ اس کے باپ امیر معاویہ نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے تبرکات اور بدن اقدس سے چھوجانے والے کپڑوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھا تھا اور دمِ آخر تمام زر ومال ثروت وحکومت سب سے زیادہ وہی چیزپیاری تھی اور اسی کو ساتھ لے جانے کی تمنا حضرت امیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دل میں تھی۔ اس کی برکت سے انہیں امید تھی کہ اس ملبوس پاک میں بوئے محبوب ہے۔ یہ مقام غربت میں پیارا رفیق اور بہترین مونس ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے لباس اور تبرکات کے صدقے میں مجھ پر رحم فرمائے گا۔ اس سے وہ سمجھ سکتا تھا کہ جب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے بدن پاک سے چھوجانا ایک کپڑے کو ایسا بابرکت بنا دیتا ہے توحسنین کریمین اور آلِ پاک علیہم الرضوان جو بدن اقدس کا جزو ہیں ان کا کیا مرتبہ ہوگا اور ان کا کیااحترام لازم ہے۔ مگربد نصیبی اور شقاوت کا کیا علاج۔
امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی وفات کے بعد یزید تخت ِسلطنت پر بیٹھا اور اس نے اپنی بیعت لینے کیلئے اطراف و ممالک سلطنت میں مکتوب روانہ کئے ، مدینہ طیبہ کا عامل جب یزید کی بیعت لینے کے لئے حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی خدمت میں حاضر ہواتوآپ نے اس کے فسق و ظلم کی بنا پر اس کونااہل قراردیا اور بیعت سے انکار فرمایا اسی طرح حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بھی۔ ([2])
حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجانتے تھے کہ بیعت کا انکار یزید کے اِشْتِعال کا باعث ہوگا اور نابکار جان کا دشمن اور خون کا پیاسا ہوجائے گالیکن امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دیانت و تقویٰ نے اجازت نہ دی کہ اپنی جان کی خاطر نااہل کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور مسلمانو ں کی تباہی اور شرع واحکام کی بے حرمتی اور دین کی مَضَرَّت کی پرواہ نہ کریں اور یہ امام جیسے جلیلُ الشَّان فرزند ِرسول (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے کس طرح ممکن تھا؟ اگر امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاس وقت یزید کی بیعت کرلیتے تو یزید آپ کی بہت قدر و منزلت کرتا اور آپ کی عافیت وراحت میں کوئی فرق نہ آتا بلکہ بہت سی دولت دنیا آپ کے پاس جمع ہوجاتی لیکن اسلام کا نظام درہم برہم ہوجاتا اور دین میں ایسا فساد برپا ہوجاتا جس کادور کرنا بعد کو ناممکن ہوتا۔ یزید کی ہر بدکاری کے جواز کے لئے امام کی بیعت سند ہوتی اور شریعت اسلامیہ و ملت حنفیہ کا نقشہ مٹ جاتا۔ شیعوں کو بھی آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہیے کہ امام نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیا اور تَقَیَّہ کا تصور بھی خاطِرِ مبارک پر نہ گزرا ، اگرتَقَیَّہ جائز ہوتا تو اس کیلئے اس سے زیادہ ضرورت کا اور کون وقت ہوسکتا تھا؟ حضرت امام وابن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے
[1] تاریخ الخلفاء ، باب یزید بن معاویۃ۔ ۔ ۔ الخ ، ص۱۶۴
وسیر اعلام النبلاء ، ۳۷۵۔ یزید بن معاویۃ۔ ۔ ۔ الخ ، ج۵ ، ص۸۳ملخصاً
والصواعق المحرقۃ ، الباب الحادی عشر ، الخاتمۃ فی بیان اعتقاد اہل السنۃ۔ ۔ ۔ الخ ، ص۲۲۱ملتقطاً
[2] الاکمال فی اسماء الرجال ، حرف المیم ، فصل فی الصحابۃ ، ص۶۱۷
وتاریخ الخلفاء ، باب یزید بن معاویۃ۔ ۔ ۔ الخ ، ص۱۶۴
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع