30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
بربا د ہونے کی دعا نہیں فرماتے ، نہ علی مرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُعرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ! عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّماس خبر نے تودل و جگر پارہ پار ہ کردئیے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے قربان! بارگاہِ حق میں اپنے اس فرزند کے لئے دعا فرمائیے۔ نہ خاتون جنت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا التجا کرتی ہیں کہ اے سلطان دارین! آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے فیض سے عالَم فیض یاب ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی دعا مستجاب۔ میرے اس لاڈلے کے لئے دعا فرمادیجئے ، نہ اہل بیت نہ ازواج مطہرات نہ صحابہ کرام علیہم الرضوان۔ سب خبر شہادت سنتے ہیں ، شہر ہ عام ہوجاتا ہے مگر با رگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّممیں کسی طرف سے دعا کی درخواست پیش نہیں ہوتی۔
بات یہ ہے کہ مقامِ امتحان میں ثابت قدمی درکارہے ، یہ محل عذروتا مل نہیں ، ایسے موقع پر جان سے دَرِیْغ جانباز مردوں کا شیوہ نہیں ، اخلاص سے جاں نثاری عین تمنا ہے۔ دعائیں کی گئیں مگر یہ کہ یہ فرزند مقامِ صفاو وفا میں صادق ثابت ہو۔ تو فیقِ الٰہی عزوجل مُساعِدْ رہے ، مصائب کا ہجوم اور آلام کا اَنْبوہ اس کے قدم کو پیچھے نہ ہٹا سکے۔
احادیث میں اس شہادت کی بہت خبریں وارد ہیں ۔ ابن سعد و طبرانی نے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے روایت کی کہ حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا : مجھے جبریل نے خبر دی کہ میرے بعد میر ا فرزند حسینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُزمینِ طَفّ میں قتل کیا جائے گا اور جبریل علیہ السلام میرے پاس یہ مٹی لائے ، انہوں نے عرض کیا کہ یہ (حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) کی خوابگاہ (مَقْتَل) کی خاک ہے۔ طف قریب کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں ۔ ([1])
امام احمد نے روایت کی کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ میری دولت سرائے اقدس میں وہ فرشتہ آیا جو اس سے قبل کبھی حاضر نہواتھا ، اس نے عرض کیا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے فرزند حسین (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) قتل کئے جائیں گے اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمین کی مٹی ملاحظہ کراؤں جہاں وہ شہید ہوں گے۔ پھر اس نے تھوڑی سی سرخ مٹی پیش کی۔ ([2])
اس قسم کی حدیثیں بکثرت وارد ہیں ، کسی میں بارش کے فرشتہ کے خبر دینے کا تذکرہ ہے ، کسی میں ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کو خاک ِکربلا تَفْوِیْض کرنے اور اس خاک کے خون ہوجانے کو علامتِ شہادتِ اما م رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُقراردینے کا تذکرہ ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکو اس شہادت کی بار بار اطلاع دی گئی اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے بھی بارہا اس کا تذکرہ فرمایا اور یہ شہادت حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے عہد ِطُفولِیَّت سے خوب مشہور ہوچکی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکامَشْہَد کربلا ہے۔ ([3])
حاکم نے ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت کی کہ ہم کو کوئی شک باقی نہ رہا اور اہلِ بیت علیہم الرضوان باتفاق جانتے تھے کہ امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکربلا میں شہید ہونگے۔ ([4])
ابو نعیم نے نجی حضرمی سے روایت کی کہ وہ سفرِصِفِّیْن میں حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکے ہمراہ تھے ، جب نِیْنَویٰ کے قریب پہنچے جہاں حضرت یونس علیہ السلام کا مزار ِاقدس ہے تو حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے نداکی کہ اے ابو عبداللہ! فُرات کے کنارے ٹھہرو۔ میں نے عرض کیا : کس لئے؟ فرمایا : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے مجھے خبردی ہے کہ امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرات کے
[1] المعجم الکبیر للطبرانی ، الحسین بن علی۔ ۔ ۔ الخ ، الحدیث : ۲۸۱۴ ، ج۳ ، ص۱۰۷
والصواعق المحرقۃ ، الباب الحادی عشر ، الفصل الثالث فی الاحادیث الواردۃ فی بعض
اہل البیت۔ ۔ ۔ الخ ، ص۱۹۳
[2] المسند للامام احمد بن حنبل ، حدیث ام سلمۃ۔ ۔ ۔ الخ ، الحدیث : ۲۶۵۸۶ ، ج۱۰ ، ص۱۸۰
[3] الصواعق المحرقۃ ، الباب الحادی عشر ، الفصل الثالث فی الاحادیث الواردۃ فی بعض
اہل البیت۔ ۔ ۔ الخ ، ص۱۹۳
[4] المستدرک للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ ، باب استشہد الحسین۔ ۔ ۔ الخ ، الحدیث : ۴۸۷۹ ،
ج۴ ، ص۱۷۵
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع