30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
مؤرخین نے زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث ابن قیس کی طرف کی ہے اور اس کو حضرت امام کی زوجہ بتایا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ زہر خورانی باغوائے یزید ہوئی ہے اور یزید نے اس سے نکاح کا وعدہ کیا تھا۔ اس طمع میں آکر اس نے حضرت امام کو زہردیا۔ ([1]) لیکن اس روایت کی کوئی سندِ صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر کسی سندِ صحیح کے کسی مسلمان پر قتل کا الزام اور ایسے عظیم الشان قتل کا الزام کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔
قطع نظر اس بات کے کہ روایت کے لئے کوئی سند نہیں ہے اور مؤرخین نے بغیر کسی معتبرذریعہ یا معتمدحوالہ کے لکھ دیاہے۔ یہ خبر واقعات کے لحاظ سے بھی ناقابل اطمینان معلوم ہوتی ہے۔ واقعات کی تحقیق خود واقعات کے زمانہ میں جیسی ہوسکتی ہے مشکل ہے کہ بعد کو ویسی تحقیق ہو خاص کر جب کہ واقعہ اتنااہم ہومگر حیرت ہے کہ اَہل بیتِ اَطہار کے اس امامِ جلیل کا قتل اس قاتل کی خبر غیر کو تو کیا ہوتی خود حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو پتہ نہیں ہے یہی تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے برادر ِمعظم سے زہردہندہ کا نام دریافت فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو زہر دینے والے کا علم نہ تھا۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکسی کانام لیتے۔ انہوں نے ایسانہیں کیاتواب جعدہ کوقاتل ہونے کیلئے معین کرنے والاکون ہے۔ حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکویاامامین کے صاحبزادوں میں سے کسی صاحب کواپنی آخر حیات تک جعدہ کی زہر خورانی کاکوئی ثبوت نہ پہنچانہ ان میں سے کسی نے اس پر شرعی مواخذہ کیا۔
ایک اور پہلو اس واقعہ کاخاص طور پر قابل لحاظ ہے وہ یہ کہ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی بیوی کو غیر کے ساتھ سازباز کرنے کی شنیع تہمت کے ساتھ متہم کیا جاتا ہے یہ ایک بدترین تبرا ہے۔ عجب نہیں کہ ا س حکایت کی بنیاد خارجیوں کی افتراء ات ہوں جب کہ صحیح اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم ہے کہ حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکثیر التزوج تھے اور آپ نے سو(۱۰۰)کے قریب نکاح کیے اور طلاقیں دیں ۔ اکثرایک دو شب ہی کے بعدطلاق دے دیتے تھے اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمباربار اعلان فرماتے تھے کہ امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی عادت ہے ، یہ طلاق دے دیا کرتے ہیں ، کوئی اپنی لڑکی ان کے ساتھ نہ بیاہے۔ مگر مسلمان بیبیاں اور ان کے والدین یہ تمنا کرتے تھے کہ کنیز ہونے کا شرف حاصل ہوجائے اسی کا اثر تھا کہ حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجن عورتوں کو طلاق دیدیتے تھے۔ وہ اپنی باقی زندگی حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی محبت میں شیدا یانہ گزاردیتی تھیں اور ان کی حیات کا لمحہ لمحہ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی یاد اور محبت میں گزرتا تھا۔([2]) ایسی حالت میں یہ بات بہت بعید ہے کہ امام کی بیوی حضرت امام کے فیض صحبت کی قدر نہ کرے اور یزید پلید کی طرف ایک طمعِ فاسد سے اما م جلیلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے قتل جیسے سخت جرم کا ارتکاب کرے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَال
سیدا لشہداء حضرت امام حسین اور انکےرفقاء کی عدیم المثال جانبازیاں
سیدا لشہداء حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی ولادت ۵ شعبان ۴ھکو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ حضور پرنور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے آپ کانام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب سبط رسول اللہ اور رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْلہے اور آپ کے برادرِ معظم کی طرح آپ کو بھی جنتی جوانوں کا سردار اور اپنافرزند فرمایا۔ ([3])
حضور اقدس نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکو آپ کے ساتھ کمال رافت و محبت تھی۔ حدیث شریف میں ا ر شادہوا : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَنْ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع