30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ہے۔ ([1])
ابو یعلی و بزار نے حضرت سعدبن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : جس نے علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی۔ ([2])
بزار اور ابو یعلی اور حاکم نے حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے روایت کی ، آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ تمہیں حضرت عیسیٰ علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک مناسبت ہے ان سے یہود نے یہاں تک بغض کیا کہ ان کی والدہ ماجدہ پر تہمت لگائی۔ نصاریٰ محبت میں ایسے حد سے گزرے کہ ان کی خدائی کے مُعْتَقِد ہوگئے۔ ہوشیار ہوجاؤ میرے حق میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے ایک محب مُفْرِط جو مجھے میرے مرتبہ سے بڑھائے اور حد سے تجاوز کرے ، دوسرا مُبْغِض جو عداوت میں مجھ پر بہتان باندھے۔ ([3])
حضرت امیر المومنین علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ رافضی و خارجی دونوں گمراہ ہیں اور ہلاکت کی راہ چلتے ہیں ، طریق قویم اور صراط مستقیم پر اہلسنت ہیں جو محبت بھی رکھتے ہیں اور حد سے تجاوز بھی نہیں کرتے۔
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ابن سعد کے قول پر حضرت امیر المومنین عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی شہادت کے دوسرے روز امیرالمومنین علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکے دست مبارک پر مدینۂ طیَّبہ میں تمام صحابہعلیہم الرضوان نے جو وہاں موجود تھے بیعت کی۔ ۳۶ ھ میں جنگ جمل کا واقعہ پیش آیا اور صفر ۳۷ھ میں جنگ صفین ہوئی جو ایک صلح پر ختم ہوئی اور حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے کوفہ کی طرف مراجعت فرمائی اور اس وقت خوارج نے سرکشی شروع کی اور لشکر جمع کرکے چڑھائی کی۔ حضرت امیر المومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو ان کے مقابلہ کے لیے بھیجا ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُان پر غالب آئے اور ان میں سے قوم کثیرواپس ہوئی اور ایک قوم ثابت رہی اور انہوں نے نِہْرَوان کی طرف جاکر راہزنی شروع کی۔ حضرت امیر المومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاس فتنہ کی مدافعت کے لئے ان کی طرف روانہ ہوئے۔ ۳۸ھ میں آپ نے ان کو نہروان میں قتل کیا انھیں میں ذِی الثَّدْیَہ کو بھی قتل کیا جس کے خروج کی خبر حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے دی تھی ، خوارج میں سے ایک نامراد عبدالرحمن بن ملجم مرادی تھا۔ اس نے برک بن عبد اللہ تمیمی خار جی اور عمر وبن بکیر تمیمی خارجی کو مکہ مکرمہ میں جمع کرکے حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان اورحضرت عمروبن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے قتل کا معاہدہ کیا اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکے قتل کے لئے ابن ملجم آمادہ ہوا اور ایک تاریخ معین کرلی گئی۔
مستدرک میں سُدی سے منقول ہے کہ عبدالرحمن بن ملجم ایک خارجی عورت قطام نامی پر عاشق تھا۔ اس ناشاد کی شادی کا مہرتین ہزار درہم اورحضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کو قتل کرنا قرار پایا۔ چنانچہ فرزدق شاعر نے کہا ؎
فَلَمْ اَرَ مَھْرًا سَاقَہٗ ذُوْ سَمَاحَۃٍ کَمَھْرِ قِطَامِ بَیْنَا غَیْرِ مُعْجَمٖ
ثَلَاثَۃُ اٰلَافٍ وَّ عَبْدٌ وَّ قِیْنِۃٌ وَ ضَرْبُ عَلِیٍّ بِالْحُسَامِ الْمُصَمَّمٖ
[1] المستدرک للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ ، النظر الی علی عبادۃ ، الحدیث : ۴۷۳۷ ،
ج۴ ، ص۱۱۸
وتاریخ الخلفاء ، علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ ، فصل فی الاحادیث الواردۃ
فی فضلہ ، ص۱۳۶
[2] مسند ابی یعلٰی ، مسند سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ ، الحدیث : ۷۶۶ ، ج۱ ، ص۳۲۵
[3] مسند ابی یعلٰی ، مسند علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ ، الحدیث : ۵۳۰ ، ج۱ ، ص۲۴۷
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع