30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کئے ہوئے لشکر کو واپس کرنا ہرگز گوارا نہیں ۔ یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ایسی حالت میں آپ نے لشکر روانہ فرمادیا۔
اس سے حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی حیرت انگیز شجاعت و لیاقت اور کمال دلیری و جوانمردی کے علاوہ ان کے توکل صادق کا پتہ چلتا ہے اور دشمن بھی انصافاً یہ کہنے پر مجبور ہوتاہے کہ قدرت نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعدخلافت و جانشینی کی اعلیٰ قابلیت و اہلیت حضرت صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو عطا فرمائی تھی۔ اب یہ لشکر روانہ ہوا اور جو قبائل مرتد ہونے کے لیے تیار تھے اور یہ سمجھ چکے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کے بعد اسلام کا شیرازہ ضرور درہم برہم ہوجائے گا اور اس کی سَطْوَت وشوکت باقی نہ رہے گی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ لشکر اسلام رومیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوگیا اسی وقت ان کے خیالی منصوبے غلط ہوگئے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ سید عالم عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اپنے عہد مبارک میں اسلام کے لیے ایسا زبردست نظم فرمادیا ہے جس سے مسلمانوں کا شِیْرَازَہ درہم برہم نہیں ہوسکتا اور وہ ایسے غم و اَنْدُ وْہ کے وقت میں بھی اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے سامنے اقوام عالم کو سَرْنِگُوْں کرنے کے لیے ایک مشہور و زبردست قوم پر فوج کَشی کرتے ہیں ۔ لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ اسلام مٹ جائے گا اور اس میں کوئی قوت باقی نہ رہے گی بلکہ ابھی صبر کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ یہ لشکر کس شان سے واپس ہوتاہے۔ فضلِ الٰہی سے یہ لشکرِ ظفر پیکر فتحیاب ہوا ، رومیوں کو ہزیمت ہوئی۔
جب یہ فاتح لشکر واپس آیا وہ تمام قبائل جو مرتد ہونے کا ارادہ کرچکے تھے اس ناپاک قصد سے باز آئے اور اسلام پر صدق کے ساتھ قائم ہوئے۔ بڑے بڑے جلیل القدر صائب الرائے صحابہ علیہم الرضوان جو اس لشکر کی روانگی کے وقت نہایت شدت سے اختلاف فرمارہے تھے اپنی فکر کی خطا اور صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی رائے مبارک کے صائب اور ان کے علم کی وسعت کے معترِف ہوئے۔ ([1])
اسی خلافت مبارکہ کا ایک اہم واقعہ مانعینِ زکوٰۃ کے ساتھ عَزْمِ قِتال ہے جس کا مختصر حال یہ ہے جب حضور اقدس نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی وفات کی خبر مدینہ طیبہ کے حوالی و ا طراف میں مشہو ر ہوئی تو عرب کے بہت گروہ مرتد ہوگئے اور انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُان سے قتال کرنے کے لئے اٹھے ، امیر المؤمنین عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاور دوسرے صحابہ رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْننے وقت کی نزاکت ، اسلام کی نو عمری ، دشمنوں کی قوت ، مسلمانوں کی پریشانی ، پَراگَنْدَہ خاطِری کا لحاظ فرماکر مشورہ دیا کہ اس وقت جنگ کے لئے ہتھیار نہ اٹھائے جائیں مگر حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاپنے ارادہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور آپ نے فرمایا کہ قسم بخدا! جو لوگ زمانہ اقدس میں ایک تسمہ کی قدر بھی ادا کرتے تھے اگر آج انکار کریں گے تو میں ضرور ان سے قتال کروں گا۔ آخر کار آپ قتال کے لئے اٹھے اور مہاجرین و انصار کو ساتھ لیا اور اعراب اپنی ذریتوں کولے کر بھاگے۔ پھر آپ نے حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو امیر لشکر بنایا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح دی اور صحابہ نے خصوصاً حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی صحت ِتدبیر اور اِصابت ِرائے کا اعتراف کیااور کہا : خداکی قسم! اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا سینہ کھول دیا جو انہوں نے کیا حق تھا۔ ([2])
اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اگر اس وقت کمزوری دکھائی جاتی تو ہر قوم اور ہر قبیلہ کو احکامِ اسلام کی بے حرمتی اور ان کی مُخالَفَت کی جرأت ہوتی اور دین حق کا نظم باقی نہ رہتا۔ یہاں سے مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے کہ ہر حالت میں حق کی حمایت اور ناحق کی مخالفت ضروری ہے اور جو قوم ناحق کی مخالفت میں سستی کرے گی جلد تباہ ہوجائے گی۔ آج کل کے سادہ لوح فرق باطلہ کے رد کرنے کو بھی منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت آپس کی جنگ موقوف کرو۔ انھیں حضرت صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے اس طریق عمل سے سبق لینا چاہیے کہ آ پ نے ایسے نازک وقت میں بھی باطل کی سرشِکَنی میں توقف نہ فرمایا۔ جو
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع