30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
لئے کوئی چیز نہ ملی تو آپ نے اپنے پاؤں کا انگوٹھا ڈال کر اسکو بند کیا ، پھر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکو بلایا اور حضور تشریف لے گئے اور حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے زانو پر سر رکھ کر آرام فرمانے لگے ، اتنے میں سانپ نے صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے پاؤں کو کاٹ لیا ، مگر صدیق اکبر ، شدتِ الم کے باوجود محض اس خیال سے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے آرام میں خلل نہ واقع ہو ، بدستور ساکن وصامت رہے ، آخر جب پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ، جب آنسو کے قطرے چہرہ اقدس پر گرے تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمبیدار ہوئے ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے واقعہ عرض کیا ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے ڈسے ہوئے حصے پر اپنا لعاب دہن لگادیا فوراً آرام مل گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ سانپ کا یہ زہر ہر سال عود کرتا بارہ سال تک حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاس میں مبتلا رہے پھر آخر اس زہر کے اثر سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت ہوئی۔ (مدارج النبوت ، ج۲ ، ص۵۸)
{۳} رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمذوالقعدہ ۶ھ میں صحابہ کے ساتھ عمرہ کے ارادے سے مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوئے۔ جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمحدیبیہ پہنچے تو قریش پر خوف و ہراس طاری ہوا اس لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو مکہ بھیجا اور ان کو یہ ہدایات دیں کہ تم قریش کویہ بتانا کہ ہم جنگ کے لئے نہیں عمرہ کی ادائیگی کیلئے آئے ہیں اور ان کو اسلام کی دعوت بھی دینا اور وہ مسلمان مردوعورت جو مکہ میں ہیں انکو فتح کی خوشخبری سنانا۔ حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکہ کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ان سے حضرت ابان بن سعد اموی ملے جو ابھی ایمان نہ لائے تھے انھوں نے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اپنی پناہ و ضمانت دی اور اپنے گھوڑے پر سوار کرکے ان کو مکہ مکرمہ لائے۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے لوگوں تک رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکا پیغام پہنچایا ۔ ادھر حدیبیہ میں صحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کہنے لگے کہ عثمان خوش نصیب ہیں کہ ان کو طواف بیت اللہ نصیب ہوچکا ہوگا۔ یہ سن کر رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا : میرا خیال ہے کہ عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیرے بغیر طواف نہ کریں گے۔ اس دوران یہ افواہ اڑ گئی کہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکہ میں قتل کر دیئے گئے اسلئے رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے بیعت لی ، جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے ۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُچونکہ اس وقت مکہ میں تھے اس لئے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے خود اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پررکھ کر ان کو بیعت کے شرف میں داخل کیا۔ اس طرح رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکاہاتھ حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا ہاتھ قرارپایا۔
بیعت رضوان کے بعد جب حضرت عثمان غنیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُواپس تشریف لائے تو مسلمانوں نے ا ن سے کہا آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نے طواف بیت اللہ کرلیا۔ آپ نے جواب دیا تم نے یہ میرے بارے میں درست اندازہ نہ لگایا ، اس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر میں مکہ میں ایک سال تک بھی پڑا رہتا اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمحدیبیہ میں ہوتے تب بھی میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے بغیر طواف نہ کرتا۔ قریش نے مجھ سے طواف کرنے کیلئے کہا تھا مگر میں نے انکار کردیا۔
(مدارج النبوت ، ذکر سال ششم آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم ، فرضیت حج ، ج۲ ، ص۲۰۹)
حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے اندر رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی تعظیم و ادب کا یہ پاس قابل ملاحظہ ہے کہ کفار آپ سے پیشکش کررہے ہیں کہ طواف تنہاکر لو مگر آپ جواب دیتے ہیں مجھ سے ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ میں اپنے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے بغیر طواف کرلوں۔ ادھر مسلمانوں کا یہ تاثر کہ حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خوش نصیب ہیں کہ ان کو طواف کعبہ نصیب ہوگیا۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے سن کر فرمایا عثمان ہمارے بغیر ایسا نہیں کرسکتے۔ گویا حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکو بھی اپنے فدائی پرپورا اعتماد تھا۔ آقا ہو تو ایسا اور غلام ہو تو ایسا۔
رسول اکرمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی اس قسم کی تعظیم اور اس طرح کا ادب صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکااپنا کوئی ایجاد کردہ یا اختراعی نہ تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی تعظیم اور مجلس کے آداب خود بیان فرمائے ہیں۔ دنیا کا شہنشاہ آتا ہے تو اپنے دربار کے آداب خود بناتا ہے اور جب جاتا ہے تو اپنے نظام آداب کو بھی لے جاتا ہے ۔ مگر شہنشاہ اسلام حضو راقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے دربار کا عالم ہی نرالا ہے ، جب آ پ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تشریف لاتے ہیں تو خالق کائنات عزوجل آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے دربار کا ادب نازل فرماتا ہے اور کسی خاص وقت تک کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ادب کے قوانین مقرر فرماتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ۲۶ ، الحجرات : ۱)
ترجمہ کنزالایمان : اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو ، اور اللہ سے ڈرو ، بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔
بعض صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے بقرہ عید سے پہلے ہی قربانی کرلی تھی ، یا کچھ حضرات صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے رمضان المبارک کے روزے ایک دن پہلے ہی سے شروع کردیئے ان کو ہدایت کی گئی کہ ایسا نہ کریں ، رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں ، ایسا کرنا خطرناک ہے ۔ آیت پر غور کرنے سے ایک بات یہ بھی نکلتی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی بے ادبی اللہ عزوجل کی بے ادبی ہے ، جن لوگوں نے پیش قدمی کی تھی انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع