30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : یہ لوگ مجھ سے نفقہ ہی تو مانگ رہی ہیں۔ دونوں بزرگ اٹھے اور حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کی گردن توڑنی چاہی اور کہا رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے وہ چیز مانگتی ہو جو(اس وقت) آپ کے پاس (موجود) نہیں ہے۔
(صحیح مسلم ، کتاب الطلاق ، باب بیان أن تخییرامرأتہ لایکون طلاقا الابالنیۃ ، الحدیث۱۴۷۸ ، ص۷۸۳)
حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے قطع کلام کر لیا اور تمام صحابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو بھی یہی حکم دیا ، تو ان کوسب سے زیادہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی رضا مندی کی فکر تھی۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نماز کے بعد تھوڑی دیر تک مسجد میں بیٹھا کرتے تھے ، اس حالت میں وہ آتے اور سلام کرتے اور دل میں کہتے کہ لبہائے مبارک کو سلام کے جواب میں حرکت ہوئی یا نہیں ؟ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہی کے متصل نماز پڑھتے اورکَن انکھیوں سے آپ کی طرف دیکھتے جاتے۔ (صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب حدیث کعب بن مالک.....الخ ، الحدیث : ۴۴۱۸ ، ج۳ ، ص۱۴۷)
آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم حجۃ الوداع کے لئے تشریف لے گئے تو تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن ساتھ تھیں ، سوء اتفاق سے راستے میں حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا اونٹ تھک کر بیٹھ گیا ، وہ رونے لگیں ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو خبر ہوئی توخود تشریف لائے اور دست مبارک سے ان کے آنسو پونچھے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جس قدران کو رونے سے منع فرماتے تھے اس قدر وہ اور زیادہ روتی تھیں۔ جب کسی طرح چپ نہ ہوئیں ، تو انکوسرزنش فرمائی ، اور تمام لوگوں کو منزل کرنے کا حکم دیا ، اور خود بھی اپنا خیمہ نصب کروایا۔ حضرت ـصفیہ کو خیال ہو ا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ناراض ہوگئے ، اس لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی رضا مندی کی تدبیریں اختیار کیں۔
اس غرض سے حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے پاس گئیں اور کہا کہ آپ کومعلوم ہے کہ میں اپنی باری کا دن کسی چیز کے معاوضے میں نہیں دے سکتی لیکن اگر آپ رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو مجھ سے راضی کردیں تو میں اپنی باری آپ کو دیتی ہوں۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا نے آمادگی ظاہر کی ، اور ایک دوپٹا اوڑھا جو زعفرانی رنگ میں رنگا ہواتھا ، پھر اس پر پانی چھڑکا کہ خوشبو او رپھیلے ، اس کے بعد آپ حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے پاس گئیں ، اور خیمہ کا پردہ اٹھایا ، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ عائشہ!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا یہ تمھارا دن نہیں ہے بولیں :
ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-
(ترجمہ کنزالایمان : یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے۔ (پ۶ ، المائدۃ : ۵۴))
(المسندلامام احمد بن حنبل ، حدیث صفیۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا ، الحدیث : ۲۶۹۳۰ ، ج۱۰ ، ص۲۵۳)
آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اکثر اپنی ناراضگی کا اظہار علانیہ طور پر نہیں فرماتے تھے ، لیکن جب صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو آپ کے چشم و ابرو سے اس کا احساس ہو جاتا تھا تو فوراً آپ کو راضی کرتے تھے۔ ایک بار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ایک راستے سے گزرے ، راہ میں ایک بلند قبہ نظر سے گزرا تو فرمایا یہ کس کا ہے ، لوگوں نے ایک انصاری کا نام بتایا ، آپ کو یہ شان وشوکت ناگوار ہوئی ، مگر اس کا اظہار نہیں فرمایا ، کچھ دیر کے بعد انصاری بزرگ آئے ، اور سلام کیا ، لیکن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے رخ انور پھیر لیا ، باربار یہ واقعہ پیش آیا تو انھوں نے دوسرے صحابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ناراضگی کاذکر کیا ، سبب معلوم ہو ا تو انھوں نے قبہ کو گرا کر زمین کے برابر کردیا۔ (سنن ابی داود ، کتاب الادب ، باب ماجاء فی البنائ ، الحدیث : ۵۲۳۷ ، ج۴ ، ص۴۶۰)
ناراضگی کے بعد اگرحضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم خوش ہوجاتے تو گویا صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو دولت جاوید مل جاتی ، ایک بار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سفر میں تھے ، حضرت ابو رُہم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی اونٹنی آپ کے ناقہ کے پہلو بہ پہلو جارہی تھی ، حضرت ابورہم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے پاؤں میں سخت چمڑے کے جوتے تھے ، اونٹنیوں میں مزاحمت ہوئی تو ان کے جوتے کی نوک سے سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ساق مبارک میں خراش آگئی ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ان کے پاؤں میں کوڑا مارکر فرمایا : تم نے مجھ کو دکھ دیا ، پاؤں ہٹاؤ ، وہ سخت گھبرائے کہ کہیں میرے بارے میں کوئی آیت نازل نہ ہوجائے ۔
مقام جعرانہ میں پہنچے تو گوکہ ان کی اونٹ چرانے کی باری نہ تھی ، تاہم اس خوف سے کہ کہیں رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا قاصد میرے بلانے کے لئے نہ آجائے ، صحرا میں اونٹ چرانے کے لئے نکل گئے ، شام کوپلٹے تو معلوم ہو ا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے طلب فرمایا تھا ، مضطربانہ حاضر خدمت ہوئے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا مجھے تم نے اذیت پہنچائی ، اور میں نے بھی تمہیں کوڑا مارا ، جس سے تمہیں اذیت پہنچی ، اسکے عوض میں یہ بکریاں لو ، ان کا بیان ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی یہ رضامندی میرے لئے دنیاومافیہا سے زیادہ محبوب تھی۔ (الطبقات الکبری ، تذکرۃ ابو رُھم الغفاری ، ج۴ ، ص۱۸۴)
غمِ ہجرِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے ساتھ صحابہ کرامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو جو محبت تھی ، اس کا اثر آپ کی زندگی میں جن طریقوں سے ظاہر ہوتا تھا ،
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع