30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کمانیں ٹوٹ گئیں ، اگر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم گردن اٹھاکر کفار کی طرف دیکھتے تھے تو وہ کہتے تھے ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں گردن اٹھاکر نہ دیکھیں ، مبادا کوئی تیر لگ جائے میرا سینہ آپ کے سینہ کے سامنے ہے۔
(صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب ’’اِذْ ہَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْکُمْ اَنْ تَفْشَلَا وَاللہُ وَلِیُّہُمَا ‘‘.....الخ ، الحدیث : ۴۰۶۴ ، ج۳ ، ص۳۸)
اس غزوہ میں حضرت شماس بن عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی جاں نثاری کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم دائیں بائیں جس طر ف نگاہ اٹھاکر دیکھتے تھے ان کی تلوار چمکتی ہوئی نظر آتی تھی ، انہوں نے اپنے آپ کو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی سپر بنالیا ، یہاں تک کہ اسی حالت میں شہید ہوئے۔
(الطبقات الکبری ، تذکرۃ شماس بن عثمان رضی اللہ عنہ ، ج۳ ، ص۱۸۶)
اسی غزوہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حضرت سعد بن ربیع انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلاش میں روانہ فرمایا ، وہ لاشوں کے درمیان ان کو ڈھونڈھنے لگے ، تو حضرت سعد بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خود بول اٹھے ، کیا کام ہے؟ جواب دیا کہ رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے مجھے تمہارا ہی پتا لگانے کے لئے بھیجا ہے ، بولے جاؤ ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں میرا سلام عرض کردو ، اور کہہ دو کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم لگے ہیں ، اور اپنے قبیلہ میں اعلان کردو کہ اگر رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم شہید ہوگئے اور ان میں کا ایک متنفس بھی زندہ رہا تو خداعزوجل کے نزدیک ان کا کوئی عذر قابل سماعت نہ ہوگا۔
(الموطالامام مالک ، کتاب الجھاد ، باب الترغیب فی الجھاد ، الحدیث : ۱۰۳۵ ، ج۲ ، ص۲۴)
نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی جاں نثاری کی آرزو رکھتی تھیں ، حضرت طلیب بن عمیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاسلام لائے اور اپنی ماں ارویٰ بنت عبدالمطلب کو اسکی خبردی تو بولیں کہ تم نے جس شخص کی مدد کی وہ اس کا سب سے زیادہ مستحق تھا ، اگر مردوں کی طرح ہم بھی استطاعت رکھتیں تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی حفاظت کرتیں اور آپ کی طرف سے لڑتیں۔ (الاستیعاب ، تذکرۃ طلیب بن عمیر ، ج۲ ، ص۳۲۳)
خدمت ِرسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
صحابہ کرامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمرسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت کو اپنا سب سے بڑا شرف خیال کرتے تھے ، اس لئے متعدد بزرگوں نے اپنے آپ کو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت کے لئے وقف کردیا تھا ، حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ابتداء بعثت ہی سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خانہ داری کے تمام کاروبار کا انتظام اپنے ذمے لے لیا تھا ، اور اس کے لئے طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں برداشت کرتے تھے ، لیکن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے شرف خدمت کا چھوڑنا کبھی گوارا نہیں کرتے تھے حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا معمول تھا کہ جب کوئی غریب مسلمان خدمت مبارک میں حاضر ہوتا اور اس کے بدن پر کپڑے نہ ہوتے تو حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو حکم دیتے اور وہ قرض لیکر اسکی خوراک و لباس کا انتظام کرتے۔
ایک بار کسی مشرک سے اس غرض کے لئے قرض لیا۔ لیکن ایک دن اس نے دیکھا تو نہایت سخت لہجے میں کہا ، او حبشی تجھے معلوم ہے کہ اب مہینے میں کتنے دن رہ گئے ہیں صرف چار دن اسی عرصہ میں قرض وصول کرلوں۔ ورنہ جس طرح تو پہلے بکریاں چرایا کرتا تھا اسی طرح بکریاں چرواؤں گا۔ حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس سے سخت رنج ہوا ، عشاء کے بعد آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ مشرک نے مجھے یہ کچھ کہا ہے ، اور وہ مجھے ذلیل کررہا ہے ، اجازت فرمائیے تو جب تک قرض ادا نہ ہوجائے مسلمان قبائل میں بھاگ کر پناہ لوں ، گھر واپس آئے تو بھاگنے کا تمام سامان بھی کرلیا ، لیکن رزّاق عالم نے صبح تک خود قرض کے ادا کرنے کا تمام سامان کردیا۔
(سنن ابی داود ، کتاب الخراج والفیء والامارۃ ، باب فی الامام یقبل ھدایاالمشرکین ، الحدیث : ۳۰۵۵ ، ج۳ ، ص۲۳۰)
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ شرف حاصل تھا ، کہ جب آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کہیں جاتے تو وہ پہلے آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو جوتے پہناتے ، پھر آگے آگے عصا لیکر چلتے ، آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم مجلس میں بیٹھنا چاہتے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے پاؤں سے جوتے نکالتے ، پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو عصا دیتے ، جب آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اٹھتے ، پھر اسی طرح جوتے پہناتے ، آگے آگے عصا لیکر چلتے ، اور حجرہ مبارکہ تک پہنچ جاتے۔
آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نہاتے تو پردہ کرتے ، آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سوتے تو بیدار کرتے ، آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سفر میں جاتے تو بچھونا ، مسواک ، جوتا اور وضو کا پانی انکے ساتھ ہوتا ، اس لئے وہ صاحب سواد رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یعنی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے میر سامان کہے جاتے تھے ۔
(الطبقات الکبری ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، ج۳ ، ص۱۱۳)
حضرت ربیعہ اسلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبھی شب و روز آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں مصروف رہتے جب آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر دولت سرائے اقدس میں تشریف لے جاتے تو وہ دروازے پر بیٹھ جاتے کہ مبادا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو کوئی ضرورت پیش آجائے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع