30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
خود فرط ادب سے پیچھے ہٹ گئے اور آپ کو آگے سوار کرنا چاہا ، لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلمنے فرمایا تم آگے بیٹھنے کے زیادہ مستحق ہو ، البتہ اگر تمہاری اجازت ہوتو میں آگے بیٹھ سکتا ہوں۔ (سنن ابی داود ، کتاب الجھاد ، باب رب الدابۃ أحق بصدرھا ، الحدیث : ۲۵۷۲ ، ج۳ ، ص۴۰)
اگر کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے ساتھ کھانا کھانے کا اتفاق ہوتا تو جب تک آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کھانا شروع نہ کرتے تمام صحابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمفرطِ ادب سے کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتے ۔ (سنن ابی داود ، کتاب الأطعمۃ ، باب التسمیۃ علی الطعام ، الحدیث : ۳۷۶۶ ، ج۳ ، ص۴۸۷)
ادب کے باعث آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے آگے چلنا پسند نہیں کرتے۔
ایک سفر میں حضرت ابن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُایک سرکش اونٹ پر سوار تھے جو رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے آگے نکل جاتا تھا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کو ڈانٹا کہ کوئی آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے آگے نہ بڑھنے پائے۔
(صحیح البخاری ، کتاب الھبۃ ، باب من أھدی لہ ھدیۃٌ وعندہٗ جلساؤہ.....الخ ، الحدیث : ۲۶۱۰ ، ج۲ ، ص۱۷۹)
کسی چیز میں آپ سے مقابلہ کی جرأ ت نہ کرتے ، ایک بار چند صحابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمجو قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے باہم تیر اندازی میں مقابلہ کررہے تھے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : اے بنو اسمٰعیل تیر پھینکو کیونکہ تمہارے باپ تیر انداز تھے اور میں فلاں قبیلہ کے ساتھ ہوں۔ دوسرے گروہ کے لوگ فوراً رک گئے۔ آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ تیر کیوں نہیں پھینکتے ؟ بولے اب کیونکر مقابلہ کریں جبکہ آپ ان کے ساتھ ہیں۔ فرمایا : تیرپھینکو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔
(صحیح البخاری ، کتاب الجھاد والسیر ، باب التحریض علی الرمی ، الحدیث : ۲۸۹۹ ، ج۲ ، ص۲۸۲)
علامہ ابن حجررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ اس لئے رک گئے کہ اگروہ اپنے فریق پر غالب آگئے اور رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بھی اس کے ساتھ ہیں تو آپ بھی مغلوب ہوجائیں گے۔ اس لئے انہوں نے ادب سے مقابلہ ہی کرنا چھوڑدیا ، اس ادب و احترام کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی نسبت کسی قسم کا سوء ادب گوارا نہ کرتے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری ، کتاب الجھاد والسیر ، باب التحریض علی الرمی ، تحت الحدیث : ۲۸۹۹ ، ج۷ ، ص۷۷)
آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مکان میں قیام فرمایا ، اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نیچے کے حصے میں اوران کے اہل و عیال اوپر کے حصے میں رہنے لگے۔ ایک رات حضرت ابوایوب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیدار ہوئے تو کہا کہ ہم اوررسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے اوپر چلیں پھریں۔ اس خیال سے تمام اہل و عیال کو ایک کونے میں کردیا۔ صبح کو آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں گزارش کی کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اوپر قیام فرمائیں۔ ارشاد ہوا کہ نیچے کا حصہ ہمارے لئے زیادہ موزوں ہے۔
ایک روایت میں ہے حضرت ابو ایوب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبرابر اس بات پر مصر رہے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اوپر کی منزل میں رہیں اورخود نچلی منزل میں رہیں۔
بولے کہ جس چھت کے نیچے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہوں ہم اس پر نہیں چڑھ سکتے ، لہذا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے بالا خانہ پر قیام فرمایا۔
(مدارج النبوت ، قسم دوم ، باب چہارم ، بیان قضیۂ ہجرت آنحضرت ، ج۲ ، ص۶۵)
بعض صحابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے سن میں بڑے تھے ، لیکن ان کو فرط ادب سے یہ گوارانہ تھا کہ ان کو آپ سے بڑا کہا جائے۔
ایک بار حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا آپ بڑے ہیں یارسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ؟ بولے بڑے تو رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہیں ، البتہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے پہلے پیدا ہوا۔ (سنن الترمذی ، کتاب المناقب ، باب ماجاء فی میلاد النبی ، الحدیث : ۳۶۳۹ ، ج۵ ، ص۳۵۶)
اگر نادانستگی میں بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی شان میں کوئی نامناسب بات نکل جاتی تو اسکی معافی چاہتے ۔
ایک صحابیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا بچہ مرگیا ، اور وہ اس پر رورہی تھیں۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا گزر ہوا ، تو فرمایا : خدا سے ڈرو اور صبر کرو ، بولیں تمہیں میری مصیبت کی کیا پرواہ ہے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم چلے گئے تو لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تھے ، دوڑی ہوئی آئیں اور عرض کی کہ میں نے حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو نہیں پہچانا تھا۔ $&'); container.innerHTML = innerHTML; }
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع