30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، وھب بن قابس ، ج۶ ، ص۴۹۲)
حضرت امِ عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا : یہ جنگ احدمیں اپنے شوہر حضرت زیدبن عاصم اور اپنے دو بیٹوں حضرت عمارہ اور حضرت عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکوساتھ لیکر میدان میں کود پڑیں۔ اور جب کفار نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر حملہ کردیا تو یہ ایک خنجر لیکر کفار کے مقابلہ میں کھڑی ہوگئیں اور کفار کے تیرو تلوار کے ہر ایک وارکو روکتی رہیں۔ یہاں تک کہ جب ابن قمیئہ ملعون نے رحمت عالمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر تلوار چلادی تو حضرت ام عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس تلوار کو اپنی پیٹھ پر روک لیا۔ چنانچہ ان کے کندھے پر اتنا گہرا زخم لگا کہ غار پڑگیا۔ پھر خود بڑھ کرابن قمیئہ کے کندھے پر اس زور سے تلوار ماری کہ وہ دو ٹکڑے ہوجاتا مگر وہ ملعون دوہری زرہ پہنے ہوئے تھااس لئے بچ گیا۔ اس جنگ میں بی بی ام عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے سروگردن پرتیرہ زخم لگے تھے۔
حضرت بی بی ام عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے فرزندحضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا بیان ہے کہ مجھے ایک کافر نے جنگ احد میں زخمی کردیا اور میرے زخم سے خون بند نہیں ہوتا تھا۔ میری والدہ ام عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فوراً اپنا کپڑا پھاڑ کر زخم کوباندھ دیا اور کہا بیٹا اٹھو۔ کھڑے ہوجاؤ اور پھرجہادمیں مشغول ہوجاؤ۔ اتفاق سے وہی کافر سامنے آگیا۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اے ام عمارہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہا! دیکھ تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا یہی ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت ام عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُانے جھپٹ کر اس کافر کی ٹانگ میں تلوارکا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ وہ کافر گرپڑا ، اور پھر چل نہ سکابلکہ سرین کے بل گھسٹتا ہوا بھاگا۔ یہ منظردیکھ کررسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم مسکرائے اور فرمایا کہ اے ام عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ! تو خداعزوجل کاشکر ادا کرکہ اس نے تجھ کو اتنی طاقت اور ہمت عطا فرمائی کہ تونے خدا عزوجل کی راہ میں جہاد کیا۔
حضرت ام عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عرض کیا کہ یارسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ! آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو جنت میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت گزاری کا شرف عطا فرمائے ، اس وقت آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ان کے لئے اور ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کے لئے اس طرح دعا فرمائی کہ :
اللھم اجعلھم رفقا ئی فی الجنۃ. یااللہ عزوجل!ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے۔ حضرت بی بی ام عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُازندگی بھر علانیہ یہ کہتی رہیں کہ رسول اللہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اس دعاکے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت مجھ پر آجائے تو مجھ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد ، ام عمارۃ ، ج۸ ، ص۴۰۳)
پیامِ سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ : اسی احد کی لڑائی میں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے دریافت فرمایا کہ سعد بن ربیعرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا حال معلوم نہیں ہوا کہ کیا گزری ۔ ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکوتلاش کے لئے بھیجا وہ شہداء کی جماعت میں تلاش کررہے تھے آوازیں بھی دے رہے تھے کہ شاید وہ زندہ ہوں پھر پکار کر کہا کہ مجھے حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے بھیجا ہے کہ سعد بن ربیعرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خبر لاؤں تو ایک جگہ سے بہت ہی ضعیف آواز آئی یہ اس طرف بڑھے جاکر دیکھا کہ سات مقتولین کے درمیان پڑے ہیں اور ایک آدھ سانس باقی ہے۔ جب یہ قریب پہنچے تو حضرت سعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے میرا سلام کہہ دینا اور کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ میری جانب سے آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اس سے افضل اور بہتربدلہ عطا فرمائے جو کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو اس کے امتی کی طرف سے بہتر سے بہتر عطاکیا ہو اور مسلمانوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ اگر کافر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تک پہنچ گئے اور تم میں سے کوئی ایک آنکھ بھی چمکتی ہوئی رہے یعنی وہ زندہ رہا تو اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی عذر بھی تمہارا نہ چلے گا اور یہ کہہ کر جاں بحق ہوئے ۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ ، ج۳ ، ص۴۹)
حضرتِ جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا شوق و وارفتگی : احد کی لڑائی سے فراغت پرمسلمان مدینہ طیبہ پہنچے۔ جنگ کی تکان تھی۔ مگر مدینہ منورہ پہنچتے ہی یہ اطلاع ملی کہ ابو سفیان نے لڑائی سے واپسی پر حمراء الاسد (ایک جگہ کا نام ہے) پہنچ کر ساتھیوں سے مشورہ کیا اور یہ رائے قائم کی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کو شکست ہوئی ہے ایسے موقع کو غنیمت سمجھنا چاہئے تھا کہ نہ معلوم پھرایسا وقت آئے نہ آئے ، اس لئے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو (نعوذ باللہ ) قتل کرکے لوٹنا چاہئے تھا اس ارادہ سے اس نے واپسی کا مشورہ کیا۔
حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اعلان کردیا کہ جو لوگ احدمیں ساتھ تھے وہی صر ف ساتھ ہوں اور دوبارہ حملہ کے لئے چلنا چاہئے ۔ اگرچہ مسلمان اس وقت تھکے ہوئے تھے مگراس کے باوجود سب کے سب تیار ہوگئے چونکہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اعلان فرمادیا تھا کہ صرف وہی لوگ ساتھ چلیں جو احد میں ساتھ تھے اس لئے حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا : یا رسول اللہ!عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میری تمنا احدمیں بھی شرکت کی تھی مگر والد نے یہ کہہ کر اجازت نہ دی کہ میری سات بہنیں ہیں کوئی مرد اور ہے نہیں انہوں نے فرمایا تھا کہ ہم دونوں میں سے ایک کا رہنا ضروری ہے اور خود جانے کاارادہ فرماچکے تھے اس لئے مجھے اجازت نہ دی تھی۔ احد کی لڑائی میں ان کی شہادت ہوگئی ، ا ب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم مجھے اجازت مرحمت فرمادیں کہ میں بھی ہمر کاب چلوں حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اجازت مرحمت فرمادی انکے علاوہ اورکوئی ایسا شخص نہیں گیا جو احد میں شریک نہ ہوا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، خروج الرسول فی اثر العدو...الخ ، ج۲ ، ص۸۷)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع