30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کامیاب ہوگئے اوراپنے مالک عبداللہ بن جدعان کے گھر میں چھپ گئے ۔ قریش کے لوگ عبداللہ کے پاس آئے اور اس کو آوازدی ، وہ باہر آیا تو اس سے ان لوگوں نے کہا : کیا تم بے دین ہوگئے ؟ اس نے کہا : مجھ جیسے شخص سے بھی ایسی بات کہی جارہی ہے اب تو محض اسکے کفارہ میں لات و عزی کے لئے ۱۰۰اونٹنیاں قربان کروں گا۔ قریش کے لوگوں نے کہا : تمھارے کالے (بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)نے یہ یہ کر ڈالا ہے ۔ اس نے ان کو بلایا۔ لوگ ان کو تلاش کرکے عبداللہ کے پاس لائے یہ ان کو پہچانتا نہ تھا۔ اس نے خولیہ کو بلا کر پوچھا یہ کون ہے کیا میں نے تم کو یہ حکم نہ دے رکھاتھا کہ مکہ کے غلاموں میں سے کسی کو یہاں نہ رہنے دینا۔ خولیہ نے کہا یہ تمھاری بکریاں چراتا تھا اور اس کے علاوہ اَور کوئی ان کو پہچانتا نہ تھا اس طرح میں نے اسے چھوڑدیا تھا۔
اس کے بعد عبداللہ نے ابو جہل اور امیہ بن خلف سے کہا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تمھارے حوالے ہے ، تم لوگ اس کے ساتھ جو چاہو کرو۔ یہ دونوں ان کو بطحا کے تپتے ہوئے حصہ پر کھینچتے ہوئے لاتے ہیں او ر ان کے دونوں بازوؤں پر چکی رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیںاکفرمحمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ) ! محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا انکار کرو۔ یہ کہتے ہیں یہ نہیں ہوسکتاکہ دامن مصطفے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم چھوڑوں اور پھر اللہ عزوجل کی تو حید کا اعلان کرتے ہیں ۔
اس عذاب کا سلسلہ ٹوٹا نہ تھا کہ وہاں سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا گزر ہو ا انھوں نے فرمایا : اس اسود(کالے) کو کیا کرنا چاہتے ہو خدا عزوجل کی قسم! تم اس سے انتقام لے ہی نہیں سکتے۔
امیہ بن خلف نے اپنے آدمیوں سے کہا دیکھو! میں ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ ایک ایسا کھیل کھیلتا ہوں کہ ابھی تک ان کے ساتھ یہ کھیل کھیلا نہ گیا ہوگا۔ پھر وہ ہنس کر بولاابوبکر !(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) تمھارا میرے اوپر قرض ہے تم مجھ سے بلال (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) کو خرید لو۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا : ہاں (کیا لوگے) اس نے کہا تمھارے غلام نسطاس کو ۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا اگر میں اسے دیدوں تو تم بلال کو مجھے دے د وگے اس نے کہا ہاں ! حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا میں نے یہ کر لیا۔ پھر وہ ہنس کر بولا نہیں آپ کو اس کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی دینا ہوگا۔ حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا چلو یہی سہی۔
پھر اس نے وہی شرارت کی کہ نہیں آپ کو اس کی بیوی کے ساتھ اس کی لڑکی کو بھی دینا ہوگا۔ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا چلو یہ بھی سہی۔ پھر وہ ہنس کر بولا اتنے میں بھی نہیں ہوسکتا جب تک آپ ان کے ساتھ دوسو دینار نہ دیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا تمھیں جھوٹ سے کچھ شرم نہیں ۔ اس نے لات و عزیٰ کی قسم کھا کر کہا اگر آپ یہ دو سو دینار بھی دید یں تو ضرور اپنی بات پوری کروں گا حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا یہ بھی سہی ۔
اب جا کر یہ سودا مکمل ہوتا ہے حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاتنی بھاری قیمت پر حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو خرید کر رضائے الٰہی عزوجل کے لئے آزاد کردیتے ہیں ۔ حضرت بلال ر ضی اللہ عنہ کو جا نگسل مصائب و آلام سے چھٹکار ا ملتا ہے۔
سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے کمسن جانباز : غابہ مدینہ طیبہ سے چا ر پانچ میل پر ایک آبادی ہے وہاں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے کچھ اونٹ چرا کرتے تھے۔ کافروں کے ایک مجمع کے ساتھ عبدالرحمن فزاری نے ان کو لوٹ لیا جو صاحب چراتے ان کو قتل کردیا اور اونٹوں کو لیکر چل دئیے۔ یہ لٹیرے گھوڑے پر سوار تھے اور ہتھیار لگائے ہوئے تھے اتفاقاً حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُصبح کے وقت پیدل تیر کمان لئے ہوئے غابہ کی طرف چلے جارہے تھے کہ اچانک ان لٹیروں پر نظر پڑی۔ بچے تھے وہ دوڑتے بہت تھے کہتے ہیں کہ ان کی دوڑ ضرب المثل اور مشہور تھی یہ اپنی دوڑ میں گھوڑے کو پکڑ لیتے تھے اور گھوڑا ان کو پکڑ نہیں سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی تیر اندازی میں بہت مشہور تھے۔
حضر ت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے مدینہ منورہ کی طرف منھ کر کے ایک پہاڑی پرچڑھ کر لُو ٹ کا اعلان کیا اور خود ا ن لٹیروں کے پیچھے دوڑے تیر کمان ساتھ ہی تھی یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچ گئے اور تیر مارنے شروع کئے اور اس پھرتی سے دما دم تیر برسائے کہ وہ لوگ بڑا مجمع سمجھے اور چونکہ خود تنہا تھے اور پیدل بھی تھے اس لئے جب کوئی گھوڑا لوٹا کر پیچھا کرتا تو کسی درخت کی آڑ میں چھپ جاتے اور آڑ میں سے اس گھوڑے کو تیر مارتے جس سے وہ زخمی ہوجاتا اور وہ اس خیال سے واپس جاتا کہ گھوڑا گر گیا تو میں پکڑا جاؤں گا۔
حضرت سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں کہ غرض وہ بھاگتے رہے اور میں پیچھا کرتا رہا حتی کہ جتنے اونٹ انہوں نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے لوٹے تھے وہ میرے پیچھے ہوگئے اور تیس برچھے اور تیس چادریں وہ اپنی چھوڑ گئے اتنے میں عیینہ بن حصن کی ایک جماعت مد د کے طور پر ان کے پاس پہنچ گئی۔ اور ان لٹیروں کو قوت حاصل ہوگئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ میں اکیلا ہوں۔ ان کے کئی آدمیوں نے مل کر میرا پیچھا کیا میں ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہ بھی چڑھ گئے۔ جب میرے قریب ہوگئے تو میں نے کہا کہ ذرا ٹھہرو! پہلے میری ایک با ت سنو ! تم مجھے جانتے بھی ہو کہ میں کون ہوں انھوں نے کہا کہ بتاؤ تم کون ہو میں نے کہا کہ میں ابن الاکوع ہوں اس ذات پاک کی قسم! جس نے محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو عزت دی تم میں سے کوئی مجھے پکڑنا چاہے تو نہیں پکڑ سکتا اور میں تم میں سے جسکو پکڑنا چاہوں وہ مجھ سے ہر گز نہیں چھوٹ سکتا۔ ان کے متعلق چونکہ عام طور سے یہ شہرت تھی کہ بہت زیادہ دوڑتے ہیں حتی کہ عربی گھوڑا بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہ دعوی کچھ عجیب نہیں تھا۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع