30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط صابر بوڑھا دُعائے عطار : یاربَّ المصطفےٰ!جو کوئی 17صفحات کا رسالہ “ صابر بوڑھا “ پڑھ یا سن لے اسے مصیبتوں پر صبر کرنے کاحوصلہ عطافرما ، اس کو پل صراط سےسلامتی کے ساتھ گزار اور اس کی بے حساب مغفرت فرما۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمدُرُود شریف کی فضیلت
اللہ پاک کےآخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ عالیشان ہے : جس نے یہ کہا : “ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘‘اُس کیلئے میری شَفاعت واجب ہو گئی۔ ( مُعجَم کبیر ، ج ۵ ص ۲۵ حدیث ۴۴۸۰) فرمائیں گے جس وَقت غلاموں کی شفاعت میں بھی ہوں غلام آپ کا مجھ کو نہ بُھلانا فرما کے شَفاعت مِری اے شافِعِ محشر! دوزخ سے بچا کر مجھے جنت میں بسانا (وسائل بخشش ، ۳۵۴) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدصابر وشاکر بوڑھا
عظیم تابعی بُزرگ حضرت سیِّدُناامام ابو عمرو عبد الرحمٰن بن عَمرو اَوزاعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : مجھے ایک بزرگ نے یہ واقعہ سنایا کہ میں اولیاء کرام رَحِمَہُمُ اللہ کی تلاش میں صحراؤں ، پہاڑوں اور جنگلوں میں پھرتا تا کہ اُن کی صحبت سے فیض یاب ہوسکوں ۔ ایک مرتبہ میں اِسی مقصد کے لئے مصر گیا ، جب میں مصر کےقریب پہنچاتوویران سی جگہ میں ایک خیمہ(Camp)دیکھا ، جس میں ایک ایسا شخص تھاجس کے ہاتھ ، پاؤں اور آنکھیں (جُذام کی وجہ سے) ضائع ہوچکی تھیں لیکن اس حالت میں بھی وہ اللہ پاک کانیک بندہ اِن الفاظ کے ساتھ اپنے رب کی حمد وثناکررہا تھا : اے میرے پاک پروردگار!میں تیری وہ تعریف کرتا ہوں جو تیری تمام مخلوق کی تعریف کے برابر ہو۔ اے میرےپاک پروردگار!بے شک تُو تمام مخلوق کا خالق(یعنی پیدا کرنے والا)ہےاورتو سب پرفضیلت رکھتا ہے ، میں اس انعام پر تیری حمد(یعنی تعریف) کرتا ہوں کہ تُو نے مجھے اپنی مخلوق میں کئی لوگوں سے افضل بنایا۔ وہ بُزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اُس شخص کی یہ حالت دیکھی تو میں نے کہا : خدا پاک کی قسم! میں اس شخص سے یہ ضرور پوچھوں گا کہ کیا حمد(یعنی اللہ پاک کی تعریف) کے یہ مبارک الفاظ تمہیں سکھائے گئے ہیں یا اللہ پاک کی طرف سے تمہارے دِل میں ڈالے گئے ہیں ؟چنانچہ اِسی ارادے سے میں اس کے پاس گیا اور اُسے سلام کیا ، اُس نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے کہا : اے نیک بندے!میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں کیا تم مجھے جواب دو گے ؟ وہ کہنے لگا : اگر مجھے معلوم ہوا تو اِنْ شَاء اللہ ضرور جواب دو ں گا۔ میں نے کہا : وہ کونسی نعمت ہے جس پر تُم اللہ پاک کی حمد کررہے ہواور وہ کونسی فضیلت ہے جس پر تُم شکر ادا کر رہے ہو؟(حالانکہ تمہارے ہاتھ ، پاؤں اور آنکھیں وغیرہ سب ضائع ہوچکی ہیں ۔ ) وہ شخص کہنے لگا : کیا تُو دیکھتا نہیں کہ میرے رَب نے میرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ، میں سب دیکھ چکاہوں ۔ پھر وہ کہنے لگا : دیکھو!اگر اللہ پاک چاہتا تو مجھ پر آسمان سے آگ بَر سادیتا جو مجھے جلاکر راکھ بنا دیتی ، اگر وہ چاہتا تو پہاڑوں کو حکم دیتا اور وہ مجھے تباہ وبر باد کر ڈالتے ، اگر اللہ پاک چاہتا تو سمندر کو حکم فرماتا جو مجھے غرق کردیتا یا پھر زمین کو حکم فرماتا تو وہ مجھے اپنے اندر دھنسا دیتی لیکن دیکھو ، اللہ پاک نے مجھے ان تمام مصیبتوں سے محفوظ رکھا پھر میں اپنے رَبِّ کریم کا شکر کیوں نہ ادا کروں ، اُس کی حمد کیوں نہ کروں اوراُس پاک پرور دگار سے محبت کیوں نہ کروں؟پھر مجھ سے کہنے لگا : مجھے تم سے ایک کام ہے ، اگر کر دو گے تو تمہارا احسان ہو گا ، چنانچہ وہ کہنے لگا : میرا ایک بیٹا ہے جو نماز کے اَوقات میں آتا ہے اور میری ضروریات پوری کرتا ہے اور اسی طرح افطاری کے وقت بھی آتا ہے لیکن کل سے وہ میرے پاس نہیں آیا ، اگر تم اس کے بارے میں معلومات فراہم کردو تو تمہارا احسان ہوگا ۔ میں نے کہا : میں تمہارے بیٹے کو ضرور تلاش کرو ں گا اور پھر میں یہ سوچتے ہوئے وہاں سے چل پڑا کہ اگر میں نے اس نیک بندےکی ضرورت پوری کردی تو شاید اِسی نیکی کی وجہ سے میری مغفرت ہوجائے ۔ چنانچہ میں اُس کے بیٹے کی تلاش میں ایک طر ف چل دیا ، چلتے چلتے جب ریت کے دو ٹیلوں کے درمیان پہنچا تو وہاں کا منظر دیکھ کر میں اچانک ُرک گیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک دَرندہ ایک لڑکے کو چیر پھاڑ کر اُس کا گو شت کھارہاہے ، میں سمجھ گیا کہ یہ اُسی شخص کا بیٹا ہے ، مجھےاُس لڑکےکے فوت ہونے پر بہت افسوس ہوا اور میں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا اور واپس اسی شخص کی طر ف یہ سوچتے ہوئے چل پڑ ا کہ اگر میں نے اس پریشان حال شخص کو اُس کے بیٹے کی موت کی خبر فوراً ہی سنادی توسُن کر کہیں وہ بھی فوت نہ ہوجائے ، آخرکس طرح اسے یہ غمناک خبر سناؤں کہ اُسے صبر نصیب ہوجائے چنانچہ میں اُس کے پاس پہنچااور اُسے سلام کیا۔ اُس نے جواب دیا ، پھر میں نے اس سے پوچھا : میں تم سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کیا تم جواب دو گے ؟یہ سُن کرو ہ کہنے لگا کہ اگر مجھے معلوم ہوا تو اِنْ شَاءَ اللہ ضرور جواب دو ں گا۔ میں نے کہا : تم یہ بتاؤ کہ اللہ پا ک کے ہاں حضرت سَیّدُنا ایوب عَلَیْہِ السَّلَام کا مقام ومرتبہ زیادہ ہے یا آپ کا؟یہ سن کر وہ کہنے لگا : یقینا ًحضرت سَیّدُنا ایوب عَلَیْہِ السَّلَام کا مرتبہ ومقام ہی زیادہ ہے ۔ پھر میں نے کہا : جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو مصیبتیں پہنچیں تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اُن بڑ ی بڑی مصیبتوں پر صبر کیا یا نہیں؟ وہ کہنے لگا : حضرت سَیّدُنا ایوب عَلَیْہِ السَّلَام نے کما حقُّہ(یعنی جیسا حق تھا ویسا)مصیبتوں پر صبر کیا۔ یہ سُن کر میں نے اُن سے کہا : پھر تم بھی صبر سے کام لو ، سُنو!اپنے جس بیٹے کاتم نے ذکرکیا تھا اُس کو درندہ کھا گیا ہے۔ یہ سن کر اُس شخص نے کہا : اللہ پاک کے لئے تمام تعریفیں ہیں جس نے میرے دِل میں دُنیا کی حسرت ڈالی۔ پھر وہ شخص رو نے لگا اور رو تے روتےاُس نے جان دے دی۔ میں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہااو رسوچنے لگا کہ میں اِس جنگل میں اکیلے اِس کے کفن دفن کا کیسےانتظام کرو ں گا ، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے دس بارہ سواروں کا ایک قافلہ نظر آیا۔ میں نے اُنہیں اشارے سے اپنی طر ف بُلایا تو وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے پوچھا : تم کون ہو اور یہ فوت شدہ شخص کون ہے؟ میں نے سارا واقعہ سُنایا تو وہ وہیں رُک گئے اور اس شخص کو سمندر کے پانی سے غسل دیااور اُسے وہ کفن پہنایا جو ان کے پاس تھا پھر مجھے اُس کی نماز ِجنازہ پڑھانے کو کہا تو میں نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائی ، پھر ہم نے اس نیک شخص کو اسی خیمے(Camp) میں دفن کر دیا۔ ان نورانی چہروں والے بزرگو ں کا قافلہ روانہ ہوگیا ، میں وہیں اکیلا رہ گیا ، رات ہوچکی تھی لیکن میرا وہاں سے جانے کو دِل نہیں چاہ رہا تھا ، مجھے اُس صابر وشاکر بُزرگ سے محبت ہوگئی تھی ، میں اُن کی قبر کے پاس ہی بیٹھ گیا ، کچھ دیر بعد نیندآگئی تو میں نے خواب میں ایک نورانی منظر دیکھا کہ میں اور وہ شخص ایک سبز قبے میں موجود ہیں او روہ سبز لباس پہنے کھڑے ہوکر قرآنِ کریم کی تلاوت کر رہا ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا : کیا تُومیراوہی دوست نہیں جس پر مصیبتیں ٹو ٹ پڑی تھیں اور وہ اِنتقال کرگیا تھا ؟اُس نے مسکراتے ہوئے کہا : ہاں!میں وہی ہوں ۔ پھر میں نے پوچھا : تمہیں یہ عظیم الشان مرتبہ کیسے ملا اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟یہ سُن کر وہ کہنے لگا : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ! مجھے میرے رب نے ان لوگو ں کے ساتھ جنت میں مقام عطا فرمایا ہے جو مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں اور جب انہیں کوئی خوشی پہنچتی ہے تو شکر ادا کرتے ہیں ۔ حضرت سَیّدُنا امام اَوزاعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے جب سے اُس بزرگ سے یہ واقعہ سنا ہے تب سے میں مصیبت والوں سے بہت زیادہ محبت کرنے لگا ہوں۔ (عیون الحکایات ، 1 / 149) اللہ کریم کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم زباں پر شکوۂ رَنج و اَلم لایا نہیں کرتے نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک کی طرف سے آئی ہوئی آزمائشوں پر شروع ہی سے صبرکرنا بہت بڑی عبادت ہےاوراِس کی توفیق خوش نصیبوں ہی کو مِلا کرتی ہے ، ہم اللہ پاک کے کمزور بندے ہیں ، ہم اُس سے آزمائشوں کا نہیں بلکہ ہر معاملے میں عافیت ، عافیت اوربس عافیت ہی کا سوال کرتےہیں ، مصیبت میں کپڑے پھاڑنا ، سر اور منہ پر ہاتھ مارنا ، سینہ پیٹنا ، چیخنا چلّانا یہ تمام باتیں حرام ہیں۔ (فیضانِ ریاض الصالحین ص۳۲۱ مکتبۃ المدینہ) مُشکلوں میں مرے خدا میری ہر قدم پر مُعاوَنت فرما سرفراز اور سُرخرو مولیٰ مجھ کو تُو روزِ آخِرت فرما صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدصبرکے تین حُروف کی نسبت سے 3فرامینِ
مصطفٰی صَلَّی اللہ ُعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (1)تمہارے ناپسندیدہ بات پر صَبْر کرنے میں خیرِکثیر(یعنی بڑی بھلائی)ہے۔ ( المسند للامام احمد بن حنبل ، ۱ / ۶۵۹ ، حدیث : ۲۸۰۴) (2) جب میں اپنے کسی بندے کو اُس کےجسم ، مال یا اَولاد کے ذریعے آزمائش میں مبتلا کروں ، پھر وہ صبرِ جمیل کے ساتھ اُس کا استقبال کرے تو قیامت کے دِن مجھے حیا آئے گی کہ اُس کے لیے میزان قائم کروں یا اُس کا نامۂ اعمال کھولوں ۔ ( نوادر الاصول ، الاصل الخامس والثمانون والمائۃ ، ج ۲ ، ص ۷۰۰ ، حدیث : ۹۶۳) (3) ’’ اللہ پاک فرماتا ہے ، جب میں اپنے مومن بندے سے اُس کی کوئی دنیوی پسندیدہ چیز لے لوں ، پھر وہ صبر کرے تو میرے پاس اُس کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔ ‘‘ (بُخاری ، 4 / 225 ، حدیث : 6424) حضرت علامہ مولانا مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کےتحت فرماتے ہیں : یہ حدیث ہر پیاری چیز کو عام ہے ، ماں باپ بیوی اولاد حتّی کہ فوت شُدہ تندرستی وغیرہ جس پر بھی صَبْر کرے گا اِنْ شَآءَ اللہ جنَّت پائے گا۔ لہذا یہ حدیث بڑی بشارت کی ہے۔ (مِراۃ ، 2 / 505) مُشکِلوں میں دے صبر کی توفیق اپنے غم میں فَقَط گُھلا یارب (وسائلِ بخشش ، ۸۰) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدصَبْر و نَماز سے مدد چاہو
اےعاشقانِ رسول! اللہ پاک قرآن ِ کریم میں 70سے زائد مرتبہ ’’صبر‘‘کا ذکر فرمایا ہے دعوتِ اسلامیکے مکتبۃُ المدینہ کےترجمےوالےقراٰن’’ کنزالایمان مع خزائن العرفان ‘‘ صَفْحَہ 17پرپارہ1 سُوْرَۃُ الْبَقْرَہ کی آیت 45میں اِرشادہوتاہے : وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ(۴۵) ترجمۂ کنزالایمان : اورصبراور نماز سے مدد چاہو اور بے شک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔ صدرُالافاضل حضرتِ علامہ مولانا سیِّدمحمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اِس آیت کے تحت لکھتے ہیں : یعنی اپنی حاجتوں میں صبراورنمازسے مدد چاہو (مزید فرماتے ہیں : )اِس آیت میں مصیبت کے وقت نما ز کے ساتھ استعانت (یعنی مدد چاہنے) کی تعلیم بھی فرمائی ، کیونکہ وہ عبادتِ بدنیہ ونفسانیہ کی جامع ہے اور اس میں قربِ الٰہی حاصل ہو تا ہے۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اہم امور کے پیش آنے پر مشغولِ نماز ہو جاتے تھے ، اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ مومنینِ صادِقین (یعنی سچے مسلمانوں )کے سوا اوروں پرنماز گرا ں (یعنی بھاری)ہے ۔ (خزائن العرفان ص ۱۷)صبر کی تعریف
پیارے پیارے اِسلامی بھائیو!صبرکے معنیٰ ہیں’’ روکنا ‘‘۔ اِصطلاح میں کامیابی کی اُمید سے مصیبت پر بےقرار نہ ہونےکو صبرکہتے ہیں۔ (تفسیرِ نعیمی جلد ۱ص ۲۹۹) اور صبرِ جميل يہ ہے کہ مصيبت والا دوسروں میں پہچانا نہ جائے اور اِس تک لمبےعرصے تک بہت زیادہ عبادت و ریاضت کرکے پہنچا جاسکتاہے۔ (لُباب الاحیاء ، ص308مکتبۃ المدینہ )صَبر پیداکرنے کا طریقہ
حجۃ الاسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اِبتدائے مصیبت کی شروعات میں صَبْر و تحمل ایک مُشکل کام ہے اور پہلے صدمے کے وقت نَفْس پر قابو رکھنا بہت مشکل ہے ، ایسے وقت میں اپنے نَفْس سے یوں کہو : اے نَفْس! یہ مصیبت تو سر پر پڑچکی ہے اِسے دور کرنے کی اَب صورت اور تدبیر نہیں اور اللہ پاک اِس سے بھی بڑی بڑی مُصیبتوں سے تجھے نجات دے چکا ہے کیونکہ آفتیں اوربَلائیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ اِس مصیبت اور تکلیف کو بھی اللہ پاک دور فرمادے گا تو اے نَفْس!تھوڑی دیر صَبْرکے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھ ، تجھے اس کے بدلے ہمیشہ کی خوشی اور بہت بڑاثواب عطا ہوگا۔ اورحقیقت یہ ہے کہ صبر وتحمل کے ساتھ کوئی مصیبت مصیبت نہیں رہتی پس تم اپنی زبان کو “ اِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ “ کہنے اور دل کواُس شے کی یاد میں لگادو جس کی بدولت تمہیں بارگاہِ الٰہی سے اجر حاصل ہو اور مضبوط ارادے والے حضرات انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور اولیائے عظام رَحِمَہُمُ اللہ السَّلَام کابڑےبڑے مصائب پر صبر کرنا یاد رکھو ۔ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کچھ آگےچل کرمزیدفرماتے ہیں : جب تم دیکھو کہ اللہ پاک تم سے دنیاروک رہا ہے یا پھر تم پر مصائب وآلام بڑھا رہا ہے تو یقین کرلو کہ تم اللہ پاک کے ہاں عزت اور بلند مقام والے ہو اور وہ تمہیں اپنے دوستوں کےطریقے پرچلا رہا ہے ، بے شک تم اُس کی نظر رحمت میں ہو۔ (منہاج العابدین ، ص 302مکتبۃ المدینہ) بنادو صبر و رِضا کا پیکر بنوں خوش اَخلاق ایسا سرور رہے سدا نَرم ہی طبیعت نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدصَبرکی اقسام اورحکم
(1)شریعت نے جن کاموں سے منع کیا ہے اُن سے صبر(یعنی رُکنا) فرض ہے۔ (2)ناپسندیدہ کام (جو شرعاً گناہ نہ ہو اُس) سے صبرمستحب ہے۔ * تکلیف دِہ کام جو شرعاً منع ہے اُس پر صبر(یعنی خاموشی)منعہے۔ مثلاً کسی شخص یا اُس کے بیٹے کا ہاتھ ناحق کاٹا جائے تو اس شخص کا خاموش رہنا اور صبر کرنامنع ہے ، ایسے ہی جب کوئی شخص بُرے اِرادے سے اُس کے گھروالوں کی طرف بڑھے تو اُس کی غیرت بھڑک اُٹھےلیکن غیرت کا اِظہار نہ کرے اور گھروالوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اِس پرصبرکرے اور قدرت کے باوجود نہ روکے تو شریعت نے اِس صبر کو حرام قرار دیا ہے۔ (اِحیاء العلوم ، ۴ / ۲۰۶)900دَرجارت
اللہ پاک کے آخری رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : صبر تین قسم کا ہوتا ہے۔ (1) مصیبت پر صبر (2)طاعت(نیک کام )پر صبر(3) اللہ پاک کی نافرمانی سے صبر۔ پس جس نے مصیبت پر صبر کیا اللہ پاک اُس کے لئے تین سو دَرجات لکھے گااور ہر درجہ کے درمیان زمین و آسمان کے درمیان کی مَسافت(یعنی فاصلہ)ہے اور جس نے نیکیوں پر صبر کیا اللہ پاک اُس کے لئے سات سو درجات لکھے گااور ہر درجے کے درمیان ساتویں زمین سے لے کر مُنْتَھَائے عَرْش (عرش کی انتہا تک)کا فاصلہ ہے اور جس نے گناہ سے صبر کیا اللہ پاک اُس کے لئے نو سو درجات لکھے گا اور ہر درجے کے درمیان ساتویں زمین سے لے کر مُنْتَہَائے عَرْش کا دُگنا فاصلہ ہے۔ (فیضانِ ریاض الصالحین ، ص418مکتبۃ المدینہ) کوئی دُھتکارے یا جھاڑے بلکہ مارے صَبر کر مت جھگڑ ، مت بُڑبُڑا ، پا اَجْر رب سے صبر کر صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع