30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : ’’ نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ ‘‘ مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
(معجم کبیر طبرانی،۶/۱۸۵، الحدیث۵۹۴۲، داراحیاء التراث العربی بیروت)
مَدَنی پھول:
جتنی اچھی نیتیں زیادہ، اُتنا ثواب بھی زیادہ۔
’’ ریاضِ نعیم‘‘ کے 8 حُروف کی نسبت سے کتاب پڑھنے کی آٹھ نیتیں
* ہربارحَمدو * صلوٰۃ اور * تعوُّذو * تَسمِیہ سے کتاب کا آغاز کروں گا (اسی صَفْحہ پر اُوپر دی ہوئی عَرَبی عبارت پڑھ لینے سے چاروں نیتوں پر عمل ہوجائے گا) * اللہ عَزَّوَجَلَّ و * رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کے لیے اس کتاب کامطالَعہ کروں گا * دوسروں کویہ کتاب خریدنے کی ترغیب دلائوں گا۔ * اس کتاب کے مطالعے کا ساری امت کو ایصالِ ثواب کروں گا۔
’’تصورِمَدینہ کیجئے‘‘کے 14 حُروف کی نسبت سے نعت پڑھنے کی چودہ نیّتیں
* اللہ عَزَّوَجَلَّ اور * رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کے لیے * حتَّی الْوَسْع باوُضُو * قبلہ رُو * آنکھیں بند کئی * سر جھکائے * گنبد خضرا * بلکہ مکینِ گنبد خضرا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا تصورباندھ کر نعت شریف پڑھوں * سنوں گا * کسی کی آواز بھلی نہ لگی تو اس کو حقیر جاننے سے بچوںگا * مذاقاً کسی کم سُریلی آواز والے کی نقل نہیں اُ تا ر و ںگا * نعت خواں زیادہ اور وقت کم ہوا تو مختصر کلام پڑھوں گا * دوسرا صلوٰۃ و سلام پڑھ رہا ہوگا تو بیچ میں پڑھنے کی جلدی مچا کر خود شروع نہ کر کے اس کی اِیذارَسانی سے بچوں گا * انفرادی کوشش یا مائیک کے ذریعے دعوت اسلامی کے سنّتوں بھرے اجتماعات ، مدنی قافلے،مدنی انعامات وغیرہ کی ترغیب دوںگا۔
اچھی اچھی نیتوں سے متعلق رَہنمائی کیلئے ا میر ِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا سنّتوں بھرا بیان ’’ نیّت کا پھل ‘‘ اور نیتوں سے متعلق آپکے مُرتّب کردہ کارڈ اور پمفلٹ مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے خرید فرمائیں۔
’’ نعت ِرسولِ پاک‘‘ کے 10 حُروف کی نسبت سے نعت سننے کی د س نیّتیں
* اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کے لیے * حتَّی الْوَسْع باوُضُو * قبلہ رُو * آنکھیں بند کئی * سر جھکائے * دوزانو بیٹھ کر * گنبدخضرا * بلکہ مکینِ گنبد خضرا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا تصور باندھ کر نعت شریف سنوں گا * رونا آیا اور رِیا کاری کا خدشہ محسوس ہوا تو رونا بند کرنے کے بجائے رِیاکاری سے بچنے کی کوشش کروں گا * کسی کو روتاتڑپتا دیکھ کربدگُمانی نہیں کروں گا۔
’’ نعت خوانی‘‘
نعت خوانی حضور پُرنور ،شافِعِ یومُ النُّشور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ثنا خوانی اور محبت کی نشانی ہے اور حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ثنا خوانی اور محبت اعلیٰ درجے کی عبادت اور ایمان کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے لہٰذا جب بھی اجتماعِ ذکر و نعت میں حاضری ہو تو با اَدب رہنا چاہئے ۔
المد ینۃ العلمیۃ
از شیخ ِ طریقت، امیراہل سنت ،بانیء دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَۃ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ وَبِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ نیکی کی دعوت، اِحیائے سنت اور اشاعت علم شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعد د مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس ’’ المد ینۃ العلمیۃ ‘‘ بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے علماء و مفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللہ تَعَالٰی پر مشتمل ہے جس نے خالص علمی، تحقیقی اور اشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں:
{ 1}شعبۂ کتب اعلیٰ حضرت{ 2}شعبۂ درسی کتب { 3}شعبۂ اصلاحی کتب { 4}شعبۂ ترا جم کتب{ 5}شعبۂ تفتیش کتب{ 6}شعبۂ تخریج(1)
’’المدینۃ العلمیۃ ‘‘ کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنّت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمع رِسالت، مجدددین وملت، حامی سنت، ماحی بدعت، عالم شریعت، پیر طریقت، باعث خیر و برکت، حضرتِ علامہ مولانا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گراں مایہ تصانیف کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْع سہل اُسلوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس علمی، تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اور مجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کتب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دلائیں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بشمول ’’المدینۃ العلمیۃ ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عمل خیر کو زیورِ اِخلاص سے آراستہ فرما کر دونوں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ ہمیں زیر گنبد خضرا شہادت، جنت البقیع میں مدفن اور جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ
پیش لفظ
خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ مختلف علوم و فنون میں ید طولیٰ اور کامل دسترس رکھنے کے ساتھ شعر و سخن میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے آپ نے موقع بموقع کئی کلام تحریر فرمائے لیکن آپ کے لکھے ہوئے کلام باقاعدہ طور پر جمع نہیں کیے جاسکے، حیاتِ صدر الافاضل میں مولف مولانا غلام معین الدین نعیمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے جو کلام جمع فرمائے ہیں وہ ریاضِ نعیم سے موسوم ہیں ،اس مجموعے کو دعوتِ اسلامی کا شعبۂ تصنیف و تالیف ’’المدینۃ العلمیۃ ‘‘ دور ِ جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شائع کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے ، اس کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں:کمپیوٹر کمپوزنگ، ڈیزائننگ، دو نسخوں سے تقابل،فہرست، جا بجاالفاظ پر اعراب،ہر کلام کی ابتدا نئے صفحہ سے اور پہلے مصرعہ کوہیڈنگ کے طور پر لکھا گیا ہے۔ اللہ پاک د عوتِ ِاسلامی کی مجلس ’’المدینۃ العلمیۃ ‘‘ اور دیگر مجالس کو دن دونی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہِ وَسَلَّم
مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ
فخر الاماثل ، صَدرُ الافاضِل حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کی ولادت با سعادت پیر ۲۱صفر المظفر ۱۳۰۰ھ/ یکم جنوری ۱۸۸۳ء مراد آباد )یو۔پی۔ہند(میں ہوئی۔والد محترم کا نام حضرت علامہ مولانا معین الدین تخلص نزہتؔ اور دادا جان کا اسم گرامی حضرت علامہ مولانا سید امین الدین اور تخلص راسخؔتھا رَحِمَہُمَا اللہ ۔چار سال کی عمر میں رسمِ ’’ بِسْمِ اللہ ‘‘ خوانی ہوئی، چندہی مہینوں میں ناظرہ قرآنِ پاک کے بعد حفظ شروع کردیا اور آٹھ سال کی عمر میں حفظِ قرآن کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اُردو اَدَب اور اُردوئے مُعلّٰی )دہلی کے قلعہ معلی میں بولی جانے والی فصیح و بلیغ اردو(میں بھی اچھی خاصی قابلیت حاصل کرلی۔ ابتدائی تعلیم کے ساتھ عربی اور فارسی کی تعلیم والدِ گرامی سے حاصل کی، متوسطات تک علومِ درسیہ کی تکمیل حضرت مولانا حکیم فضل احمد صاحب سے کی اور بقیہ علوم کی تکمیل کے لیے زُبدۃُ العلما ، استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا سید محمد گل صاحب کابلی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ مُہْتَمِم مدرسہ امدادیہ مراد آباد کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور یہاں سے منطق، فلسفہ، ریاضی، اُقلیدس، توقیت وہیئت، جفر، عربی بحروف غیرمنقوطہ ) بغیر نقطوں کے حرفوں والی عربی (، تفسیر، حدیث اور فقہ وغیرہ بہت سے مروجہ درسِ نظامی اور غیرِدرسِ نظامی علوم وفنون کی اَسناد حاصل کیںاور بہت سے سلاسلِ اَحادیث وعلومِ اسلامیہ کی سندیں بھی آپ کو عطا کی گئیں۔ ۱۳۲۰ھ/ ۱۹۰۳ء میں آپ کی رسمِ دستار ِفضیلت ہوئی، استادِ محترم نے سند فراغت عطا فرمائی اور مسند تدریس پر فائز فرمادیا چنانچہ آپ مختلف دینی وملی سر گرمیوں کے باوجودتا حیات تدریس سے وابستہ رہے اور کبھی بھی اس کی تنخواہ نہیں لی ۔ آپ اپنے استاذ گرامی حضرت مولانا سید محمد گل صاحب رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت سے نوازے گئے ۔ پھر حضرت سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ نے بھی آپ کو خلافت عطا فرمائی۔
حضور صدر الافاضل رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کی ذات ُگونا گوں صفات و خصوصیات کی حامل تھی زمانہ طالب علمی ہی سے آپ مختلف علمی سرگرمیوں مباحث، مذاکروں اور مناظروں میں حصہ لیتے ،مضامین تحریر فرماتے جو کلکتہ کے الہلال اور البلاغ میں شائع ہوتے،اسی زمانہ میں علم غیب رسول پر کتاب ’’ اَلْکَلِمَۃُ الْعُلْیَۃُ لِاِعْلَائِ عِلْمِ الِمُصْطَفٰی ‘‘کی ابتداء کی اور بیس سال کی عمر میں فراغت تعلیم کے ساتھ مکمل کی جسے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ نے بہت پسند فرمایا اور نو عمری میں اس بڑے کارنامے پر تعریف و تحسین فرمائی پھر بارگاہِ اعلی حضرت سے ایک خاص تعلق ہوگیا اور آپ اس خانوادے کی ایک معتمد شخصیت بن گئے ۔
حضرت صدر الافاضل رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ خدا داد صلاحیتوں اور علمی جاہ و حشمت کے مالک تھے آپ کی پوری زندگی دین کی خدمت اور اسلامی تعلیمات کی اشاعت وترویج میں گزری۔ اس زمانے میں تبلیغ کے لیے جتنے ذرائع درکار تھے آپ نے وہ تمام اختیار فرمائے، کتابیں تصنیف فرمائیں، ’’ السواد الاعظم ‘‘ رسالہ جاری فرمایا، ملک بھر میں اہل سنت کے بڑے بڑے جلسوں میں تقریریں فرمائیں، مبلغین کی بڑی جماعت تیار کی، دارالعلوم قائم فرمایا، دشمنان دین سے کثیر مناظرے کیے ، شدھی تحریک کی مدافعت میں کار ہائے نمایاں انجام دیئے، تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دن رات اس کے لیے انتھک محنت کی، ۱۹۴۶ء میں آپ ہی کی کوششوں سے بنارس میں آل انڈیا سنی کانفرنس کے چار روزہ تاریخی اجلاس ہوئے۔آپ کی تصانیف میں سے چند یہ ہیں: تفسیر خزائن العرفان ، نعیم البیان فی تفسیر القرآن ، ا لکلمۃ ا لعلیا لاعلاء علم المصطفیٰ ، اَطیب البیان دَر َردِ تقویۃ الایمان، اَسواط العذاب علی قوامع القباب ،آدابُ الاخیار، سو انح کربلا ،سیرتِ صحابہ، ارشاد الانام فی محفل المولود والقیام،کتاب العقائد، زاد الحرمین ،الموالات ،گلبن غریب نواز، شرح شرح مائتہ عامل، پراچین کال، ریاضِ نعیم ،کشف الحجاب عن مسائل ایصال ثواب ، فرائد النور فی جرائد القبور، ا لتحقیقات لدفع التلبیسات ۔
۱۸ ذوالحجہ ۱۳۶۷ھ / ۲۳اکتوبر ۱۹۴۸ء بروز جمعۃ المبارک کو آپ رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ نے داعی اجل کو لبیک کہا،جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں تدفین ہوئی۔ اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِین ِبجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَم۔
(ماخوذ از: حیات صدر الافاضل،فتاویٰ صدرالافاضل )
منقبت: صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ
از:مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ
نعیمِ دِین و ملت ناصرِ شرعِ مبیں تم ہو
معینِ اَہلِ سنت ناشرِ اَحکامِ دِیں تم ہو
منور آپ سے ہے بزمِ اِیمانی و اِیقانی
سراجِ بزمِ عرفاں صاحبِ علم الیقیں تم ہو
گزاری عمر ساری خدمتِ دینِ محمد میں
دِل و جاں سے ُمعینِ دِینِ ختم المرسلیں تم ہو
مٹایا ُکفر کو تم نے بجایا دین کا ڈَنکا
پناہِ اَہلِ دِیں اور قامِعِ ُکفرِ مہیں تم ہو
نہ کیوں اہل زباں فخر الاماثل آپ کو مانیں
اَماثل خاتمِ دیں اور خاتم کے نگیں تم ہو
لقب صدر الافاضل آپ نے پایا زمانہ میں
امامِ اَہلِ سنت دین کے حبلِ متیں تم ہو
تمہاری دِید ہم سب خادِموں کی عید ہے آقا
قرارِ بیقراراں اور راحتِ قلبِ حزیں تم ہو
َہوا گو ہے مخالف اور ہیں اَعدائے دِیں دَرپے
مگر کیا خوف ہو سالکؔ کو جب اس کے ُمعیںتم ہو
سب کا پیدا کرنے والا میرا مولٰی میرا مولٰی
سب کا پیدا کرنے والا میرا مولیٰ میرا مولیٰ
سب سے افضل سب سے اعلیٰ میرا مولیٰ میرا مولیٰ
جگ کا خالق سب کا مالک وہ ہی باقی باقی ہالک
سچا مالک سچا آقا میرا مولیٰ میرا مولیٰ
سب کو وہ ہی دے ہے روزی نعمت اسکی دولت اسکی
رازِق داتا پالن ہارا میرا مولیٰ میرا مولیٰ
ہم سب اسکے عاجز بندے وہ ہی پالے وہ ہی مارے
خوبی والا سب سے نیارا میرا مولیٰ میرا مولیٰ
اوّل آخر غائب حاضر اس کو روشن اس پہ ظاہر
عالم دانا واقف ُکل کا میرا مولیٰ میرا مولیٰ
عزت والا حکمت والا نعمت والا رحمت والا
میرا پیارا میرا آقا میرا مولیٰ میرا مولیٰ
طاعت سجدہ اسکا حق ہے اسکو پوجو وہ ہی رب ہے
اللہ اللہ اللہ اللہ میرا مولیٰ میرا مولیٰ
اے بہارِ زندگی بخشِ مدینہ مرحبا
اے بہارِ زندگی بخشِ مَدینہ مرحبا
اے فضائے جانفزائے باغِ طیبہ مرحبا
غنچۂ پژمردۂ دِل کو شگفتہ کردیا
مرحبا اے بادِ صحرائے مَدینہ مرحبا
سُرمۂ نورِ بصر ہو آکے میری آنکھ میں
مرحبا صد مرحبا اے خاکِ بطحا مرحبا
تو نے ان آنکھوں کو دِکھلائی مَدینہ کی بہار
مرحبا جود و نوالِ شاہِ طیبہ مرحبا
دِل نثارِ ُقبۂ َخضرائے شاہنشاہِ دِیں
جاں فدائے آستانِ عرش پایہ مرحبا
آستانِ پاک پر اُمیدوَاروں کے ہجوم
رحمتِ عالم سے کہتے ہیں کریما مرحبا
یہ نعیم ؔالدین اور طیبہ کے جلوے یا عجب
مرحبا فضل و عطائے شاہِ طیبہ مرحبا
منقبت اعلٰی حضرت شبیہِ غوث الثقلین
سید شاہ علی حسین الاشرفی الجیلانی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ( بوقتِ طوافِ کعبہ تحریر نمود)
شد قبلۂ دِلم چو بہ کعبہ طواف را
پُرنور کرد از رُخِ روشن مَطاف را
بارِید دُر ز نرگس و سیراب تر نمود
گل را و چاہ را و صراحیِ صاف را
اے مہر جلوئہ چو رُخِ مہر ما بکن
ورنہ خجل نشیں کہ چہ حاجت گزاف را
افشاند گل ز لعل و زاں گل بساعتے
بخشید نور آئینہ کوہِ قاف را
دل پارہ پارہ کرد خدنگِ نگاہِ یار
ہم تیرِ او بدوخت لبِ ہر شگاف را
آوُردہ ایم کاسۂ سر را بخدمتش
زاں آرزو کہ بشکند آں مہِ صحاف را
اے دست گیر دستِ نعیمِؔ حزیں بگیر
آنجا کہ ُحزن نیست مر اہلِ عفاف را
خمسہ برغزل حضرت مولانا جامی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ
اَحْسَنَ اللہ اِلَیْنَا حُسْنًا
بَارَکَ اللہ تَعَالٰی فِیْنَا
نَحْنُ فِیْ سِکَّۃِ بَلْدِکَ طُفْنَا
شرفِ کعبہ بود ُکوئے ترا
زَادَھَا اللہ تَعَالٰی شَرَفًا
زانکہ ُبد اَز مئے عشقش سرمست
دلق اندر بغل و کاسہ بدست
دلق اَنداختہ و کاسہ شکست
زائر کوئے تو اَز کعبہ گزشت
سرِ ُکوئے تو ُکجا کعبہ ُکجا
کرد فرمانِ خداوندِ قدیر
خاکِ ما اَز مئے الفت تخمیر
عشقِ اَبروئے تو اے مہرِ منیر
ساخت ہمچوں مہ تو ما شدہ پیر
میلِ اَبروئے تو اَم پشتِ دوتا
عشق را طرفہ مگر بنیاد اَست
بر لبِ دوست ازو فریاد اَست
کہ تنم ہمچو دِلم برباد اَست
سرِ من غرقہ بخوں اُفتاد اَست
تافتاد ست ز تیغِ تو جدا
مے بہ مینا ست مگر ساقی نیست
رقیہ موجود مگر راقی نیست
جزِ تو اَز دردِ مرا واقی نیست
بے تو با جاں دِگرم باقی نیست
جاں اگر رفت ترا یادِ بقا
نروَد نزدِ اَطباء نروَد
فکر دارد و مَداوا نکند
منتِ نازِ طَبِیْباں مَکَشَد
ہر ُکجا درد دوا نیز بود
چو تو بے درد فتادی چہ دوا
یَلْحَقُ الضَّیْرُ بِاَصْحَابِ وَلَا
مَا بِہِ الْحَظُّ لِاَھْلِ الْاَھْوَا
چوں نعیم ست گرفتارِ بلا
داشت در بیتِ حزنِ جامی جا
جَآئَ ہٗ مِنْکَ بَشِیْرٌ فَنَجَا
منقبت درشانِ شہزادۂ عالی جاہ حضرت امام علی اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ
نورِ نگاہِ فاطمۂ آسماں جناب
صبرِ دلِ خدیجۂ پاکِ اِرَم ِقباب
لختِ دلِ اِمامِ حسین اِبنِ بوتراب
شیرِ خدا کا شیر وہ شیروں میں اِنتخاب
صورت تھی انتخاب تو قامت تھا لاجواب
گیسو تھے مشک ناب تو چہرہ تھا آفتاب
چہرہ سے شاہزادہ کے اُٹھا ہی(2)تھا نقاب
مہرِ سپہر ہوگیا خجلت سے آب آب
کا ُکل کی شام رُخ کی سحر موسمِ شباب
سنبل نثارِ شام فدائے سحر گلاب
شہزادۂ جلیلِ علی اکبرِ جمیل
بستانِ ُحسن میں گلِ خوش منظرِ شباب
پالا تھا اہل بیت نے آغوشِ ناز میں
شرمندہ اس کی نازُکی سے شیشۂ َحباب
صحرائے کوفہ عالمِ اَنوار بن گیا
چمکا جو رَن میں فاطمہ زَہرا کا ماہتاب
خورشید جلوہ گر ہوا پشتِ سمند پر
یا ہاشمی جوان کے رُخ سے اُٹھا نقاب
صولت نے مرحبا کہا شوکت تھی رَجز خواں
جرأت نے باگ تھامی شجاعت نے لی رِکاب
چہرہ کو اس کے دیکھ کے آنکھیں جھپک گئیں
دل کانپ اُٹھے ہوگیا اَعدا کو اِضطراب
سینوں میں آگ لگ گئی اَعدائے دِین کے
غیظ و غضب کے شعلوں سے دِل ہوگئے کباب
نیزہ جگر شگاف تھا اس ُگل کے ہاتھ میں
یا اَژدَھا تھا موت کا یا اَ سْوَئُ الْعِقاب
چمکا کے تیغ مردوں کو نامرد کر دیا
اس سے نظر مِلاتا یہ تھی کس کے دل میں تاب
کہتے تھے آج تک نہیں دیکھا کوئی جواں
ایسا شُجاع ہوتا جو اس شیر کا جواب
مردانِ(3)کار لرزہ براَندام ہوگئے
شیر َافگنوں کی حالتیں ہونے لگیں خراب
کوہ (4)پیکروں کو تیغ سے دوپارہ کردیا
کی ضرب َخود پر تو اُڑا ڈالا تا رِکاب
تلوار تھی کہ صاعقۂ برق بار تھا
یا اَزبرائے رَجمِ شیاطین تھا شہاب
چہرہ میں آفتابِ نبوت کا نور تھا
آنکھوں میں شانِ صولتِ سرکارِ بوتراب
پیاسا رکھا جنہوں نے انہیں سیر کردیا
اس ُجود پر ہے آج تری تیغِ زہر آب
میداں میں اس کے ُحسن و ہنر(5)دیکھ کر نعیمؔ
حیرت سے بدحواس تھے جتنے تھے شیخ و شاب
ترکِ عصیاں کن اعتذار چہ سود
ترکِ عصیاں کن اِعتذار چہ سود
توبہ کن توبہ اِنتظار چہ سود
ہوش کن ہوش فکرِ عقبیٰ کن
مستیٔ بادئہ خمار چہ سود
راہ در دل بجوئی سوئے حبیب
سجدئہ خاکِ رہ گزار چہ سود
رُوحِ اَعمالِ بندہ اِخلاص اَست
زاہدا صومِ اِفتخار چہ سود
چوں نماند ست اِلتفات بغیر
پس نظر سوئے گلعذار چہ سود
ترک کن اِیں و آن و مَا و من
قصدِ مقصد ُکن اَز غبار چہ سود
گوشہ گیر چوں نعیمؔ الدین
صوفیا گردشِ دِیار چہ سود
اے دل از انتظار چہ سود
اے دل اَز اِنتظار چہ سود
و زِ غمِ ہجرِ بے قرار چہ سود
گر نباشد مکانِ دوست بدِل
نالہ و آہ و چشمِ زار چہ سود
ور تو در دل بہارہا داری
پس ترا سیرِ لالہ زار چہ سود
چوں نباشد بہار در باطن
فصلِ ُگل موسمِ بہار چہ سود
داغ در سینہ یار اندر دل
سیرِ گلزار و لالہ زار چہ سود
خانہ دِل زِ غیر خالی ُکن
بر رخِ آئینہ غبار چہ سود
دل کہ اسرار گاہِ دِلدار ست
غیر را اِذْنِ دَخلِ یار چہ سود
فکرِ دنیا خس اَست آتش زَن
خار و خس دَر مقامِ یار چہ سود
ہمچو ویرانۂ نعیمؔ الدین
خانۂ دل خراب و خار چہ سود
خمسہ برغزل حضرت مولانا جامی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ
یہ ہجراں و حرماں کے صدمے اَشد
یہ دُوری کے رَنج و اَلم بے عدد
ہمارے غموں کی نہیں کوئی حد
نہ پیکے کہ از ما پیامش برد
نہ بادے کہ روزے سلامش برد
بے چینی میں کچھ کمی ہے نہ کاست
نہ دِل را قرارے نہ غم را دواست
ہو کس طرح سے کوئی تدبیر راست
مرا طاقتِ دِیدنِ اُو کجاست
کہ بے خود شوَد ہر کہ نامَش برد
بہت فکر کی ہم نے شام و پگاہ
بہت روئے راتوں بہت کھینچی آہ
نظر آئی تدبیر یہ صبح گاہ
بود ُسرمۂ دِیدہ آں خاکِ راہ
کہ َمردُم بصد اِہتمامش برد
بہت فکر میں تھا دِلِ چارہ جو
یہ کرتا تھا خود آپ سے گفتگو
میں دیکھوں انہیں اور وہ ہوں روبرو
چہ نیکو ست بودَنِ گرفتارِ اُو
خوشا دل کہ راہے بدامش برد
وہ سیمائے اَنور وہ نورِ اَنام
وہ رُخ کی تجلی وہ حسنِ تمام
خجل مہر ہو ایسی روشن ہو شام
چو آں می کند جلوہ اَز طرفِ بام
فلک رشک اَز طرفِ بامش برد
مجھے دیکھ کر ایسا وَحشت زَدہ
نسیمِ سحر کو بھی رحم آگیا
براہِ عنایت بشانِ سخا
مرا سوئے سروسہی چوں صبا
ہوائے قدِ خوش خرامش برد
نعیمِ سیہ کار بے حد ہے بد
مگر لطف کی ان کے گر ہو مَدد
تو حاصل ہو بے شک نعیمِ اَبد
بہ میخانہ جامی بخود چوں روَد
مگر ہمتِ شیخ جامش برد
کبھی توآمرے دِل میں قرارِ دِل ہو کر
کبھی تو آ مرے دل میں قرارِ دل ہو کر
کبھی ہو آتشِ غم سرد مشتعل ہو کر
پھر ایسا جلوہ دکھا حسنِ بے مثالی کا
ہرے ہوں زخمِ دلِ زار مندمل ہو کر
مٹا دے مجھ کو کہ جلوہ نما ہو ہستیِ حق
مرے وُجود کا پندار ُمضمحل ہو کر
عروجِ عالمِ رُوحانیت کہاں وہ کہاں
جو پھنس گیا ہو عناصر میں پابگل ہو کر
یہ عشقِ مادیت راہزن ہے مہلک ہے
پہنچنے دے گا نہ منزل پہ جاں گسل ہو کر
عجب مقام ہے تدبیرہائے عالم سے
خلل فراغ میں آئے نہ مشتغل ہو کر
نعیمِؔ مست خدا جانے کہہ گیا کیا کیا
خرد سے دُور حماقت میں مشتمل ہو کر
گفت دانا و عارفِ اسرار
گفت دانا و عارفِ اَسرار
لَیْسَ فِی الدَّارِ غَیْرَہٗ دَیَّار
سرِِ منصور بر سرِ دارے
سرِ ما زیر پائے توسن یار
اِیں قدر فرق لازمی آمد
درمیانِ اراذل و سردار
پئے ما جرعہ بود کافی
بہرِ اُو اَندکے عیون و بحار
ما نداریم ظرفِ یک قطرہ
اُو نیارد محیط را بہ شمار
دلِ ما تنگ و تیرہ ہست نعیمؔ
دل اُو ہست مشرقِ اَنوار
خمسہ.
چھپ کے پردہ میں آنکھ کے وہ حَسِیْں
دل کے پردہ میں ہوگیا ہے مَکِیں
لاکھ پردہ ہے اور پردہ نہیں
جلوہ گر گشت یار پردہ نشیں
غمزہ زَن گشت ُحسن دَر بازار
منعمِ خستہ و جگر اَفگار
اَز پئے زخمہائے قلبِ نگار
مرہمے می بہ ُجست اَز بازار
کیں صدا آمد اَز در و دیوار
لَیْسَ فِی الدَّارِ غَیْرَہٗ دَیَّار
دلِ اَفگار کا خدا حافظ
دِلِ اَفگار کا خدا حافظ
تنِ بیمار کا خدا حافظ
گریۂ غم رَفیقِ ہر دَم ہے
چشمِ خوںبار کا خدا حافظ
بے زَری بے کسی میں عزمِ حرم
ایسے ناچار کا خدا حافظ
دشمنوں کے بُرے اِرادے ہیں
مسلمِ زار کا خدا حافظ
آندھیاں چل رہی ہیں آفت کی
گلِ بے خار کا خدا حافظ
آہ کرتی ہے آہ ِکش کو ذلیل
دِل کے اَسرار کا خدا حافظ
چل دیئے باغ سے چمن پیرا
گل و ُگلزار کا خدا حافظ
کیا ظالم نے آشیاں وِیراں
بلبلِ زار کا خدا حافظ
جس کو لینا ہے ِعشق کا سودا
اس خریدار کا خدا حافظ
بندہ تنہا مصیبتیں بے حد
منعمِؔ(6) زَار کا خدا حافظ
خمسہ برغزل حضرت مولانا جامی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ
مَرِیْضُ الْحُبِّ یَامَوْلَایَ یَھْوَاکَ
وَ لَا یَغْشِیْہٖ شَیْئٌ غَیْرَ لُقْیَاکَ
کرم کن بر غریباں طاب جمشاک(7)
ز ہجراں بر لب آمد جانِ غمناک
اَلا یَا لَیْتَ شِعْرِیْ اَیْنَ اَلْقَاکَ
رہے غیر اَز رہِ عشقت نہ پویم
حدیثے جزِ ثنائے تو نہ گویم
ز لوحِ قلب نقشِ غیر شویم
بہرِ جمعتے وصلِ تو جویم
لَعَلَّ اللہ یَجْمَعُنِیْ وَ اِیَّاکَ
بدیدارِ تو باشد کَیْ برابر
نظر کردَن بخلدِ پاک منظر
نہ بردارَم زِ خاکِ پائے تو سر
نعیم خلد اگر گردد میسر
لَعَمْرِیْ لَا یَطِیْبُ الْعَیْشُ لَولَاک
زِ خود رَفتم کہ یابم اَز تو ہستی
چو سایہ ہمرہت باشم دوامی
مرا حاضرِ حضورِ خویش یابی
عنانِ عزم ہر سوئے کہ تابی
سِوَی الْقَلْبِ الْمُتَیَّم لَیْسَ مَاوَاک
فغان و آہ شیون ہا شنیدی
بچشمِ لطف سوئے من نہ دیدی
چرا اے جانِ من اَز من رَمیدی
شدم خاکِ رہ دامن کشیدی
زمن چوں شاخِ گل حاشاک حاشاک
اگر بر گردنِ عاشق نہی تیغ
فدائے تیغ گردم سیدی تیغ
برائے جانِ منعم می بری تیغ
بقصدِ قتلِ جامی می بری تیغ
کرم ہائے کنی اللہ اَبْقَاکَ
کیجئے کس سے بیانِ دردِ دل
کیجئے کس سے بیانِ دَردِ دِل
کس سے کہیے داستانِ دَردِ دِل
غیر کی منت اُٹھانا کیا ضرور
حال کہہ دے گی زبانِ دَردِ دِل
سوزشِ غم کا بیاں ہے آہِ گرم
چشمِ تر ہے ِقصہ خوانِ دَردِ دِل
عاشقِ شوریدہ سے کیا پوچھنا
زَرد رُخ ہے ترجمانِ دَردِ دِل
دیکھ کر ان کو شگفتہ ہوگیا
کیا دِکھاتا میں نشانِ دَردِ دِل
تابشِ رُخ سے سحر کر دیجئے
ہے شبِ تیرہ جہانِ دَردِ دِل
زخم ہائے دل کے غنچے ِکھل گئے
رَنگ پر ہے بوستانِ دَردِ دِل
دَرد سچا ہے تو ہوگی چشمِ لطف
ہے یہی بس امتحانِ دَردِ دِل
اے صبا جا کر مَدینہ میں سنا
حالِ زارِ ِنیم جانِ دَردِ دِل
لطف ہو منعمؔ سے فرمائیں حضور
ہے مزے کی داستانِ دَردِ دِل
1 اب ان شعبوں کی تعداد 15ہو چکی ہے:{7 } فیضانِ قراٰن {8} فیضانِ حدیث {9}فیضانِ صحابہ واہل بیت {10} فیضانِ صحابیات و صالحات {11}شعبہ امیراہلسنّت {12}فیضانِ مَدَنی مذاکرہ {13}فیضانِ اولیا و علما {14}بیاناتِ دعوتِ اسلامی {15}رسائلِ دعوتِ اسلامی۔ (مجلس المدینۃ العلمیۃ)
2 مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کی کتاب سوانح کربلا میں یہ مصرع یوں ہے:چہرہ سے شاہزادہ کے اُٹھا جبھی نقاب۔واللّٰہ تعالٰی اعلم
3 مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کی کتاب سوانح کربلا میں یہ مصرع یوں ہے:میدانِ کار لرزہ براَندام ہوگئے۔واللّٰہ تعالٰی اعلم
4 مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کی کتاب سوانح کربلا میں یہ مصرع یوں ہے:کہنہ پیکروں کو تیغ سے دوپارہ کر دیا۔واللّٰہ تعالٰی اعلم
5 مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کی کتاب سوانح کربلا میں یہ مصرع یوں ہے:میداں میں اس کے ُحسن عمل دیکھ کر نعیم۔واللّٰہ تعالٰی اعلم
6 شاعر کا وہ مختصر نام جسے وہ اپنے اشعار میں استعمال کرتا ہے،تخلص کہلاتا ہے۔ حضرت صدرالافاضل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے اپنا تخلص کبھی’’ نعیم الدین‘‘ کبھی ’’ نعیم ‘‘اور کبھی ’’ منعم ‘‘ استعمال فرمایا ہے۔
7 ریاضِ نعیم کے نسخوں میں یہاں ’’ ہمشاک ‘‘ لکھا ہے ، لغات وغیرہ میں ہمیں یہ لفظ نہیں ملا اگر اس کی جگہ ’’ جمشاک ‘‘ لکھا جائے تو معنوی اعتبار سے مصرعہ درست ہو سکتا ہے لہٰذا ہم نے یہاں ’’ جمشاک ‘‘ لکھا ہے ۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع