30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
بابُ الْحَدِیْد کے پاس موجود تھا، اس وقت ہمارے ساتھ حضرت کا ایک اور مرید بھی موجود تھا جو ہم تمام پیر بھائیوں میں سب سے زیادہ حضرت کی خدمت کیا کرتا۔ حضرت نے اس سے دریافت فرمایا : کیا تم مجھ سے صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے حصول کے لیے محبت کرتے ہو؟ اس نے عرض کی : جی ہاں! میری محبت صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے ہے اور اس میں نہ تو کسی قسم کی ریاکاری شامل ہے اور نہ ہی مجھے شہرت کا حصول مقصود ہے ۔حضرت سیدنا احمد بن مبارک مالکی سِجِلماسی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی یہ بات سن کر بہت غصہ آیا مگر میں حضرت کے اَدَب کی وجہ سے خاموش رہا۔ پھر حضرت نے اس سے دریافت فرمایا : اگر تمہیں پتہ چلے کہ میرے اندر موجود تمام اسرار خَتم ہو گئے ہیں تو کیا پھر بھی تمہاری محبت باقی رہے گی؟ اس نے عرض کی : جی ہاں! آپ نے فرمایا : اگر لوگ تم سے یہ کہیں کہ میں ایک عام شخص کی طرح ہوں تو کیا تب بھی یہ محبت باقی رہے گی؟ اس نے پھر اقرار کیا تو آپ نے فرمایا : اگر لوگ تمہیں بتائیں کہ میں نے گناہوں کا ارتکاب شروع کر دیا ہے کیا پھر بھی تمہاری محبت باقی رہے گی؟ اس نے عرض کی : جی ہاں! آپ نے دریافت کیا : اگر میں کئی برس تک مثلاً 20 برس تک گناہوں کی دلدل میں غرق رہوں تو پھر؟ اس نے عرض کی : پھر بھی میرے دل میں کوئی شک و شبہ داخل نہیں ہو گا۔ تو پیر صاحب نے فرمایا : عنقریب میں تمہارا امتحان لوں گا۔
حضرت سیدنا احمد بن مبارک مالکی سِجِلماسی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے مزید صبر نہ ہو سکا اور میں بول ہی پڑا اور اپنے اُس پیر بھائی سے کہا کہ ایسا مت کہو! تم سے ہر گز ایسا نہ ہو سکے گا۔ بلکہ مجھے یہ ڈر لگ رہا ہے کہیں تم راہِ راست سے بھٹک نہ جاؤ کیونکہ ایک اندھا شخص کسی دانا و بینا کو کیسے امتحان دے سکتا ہے ؟ لہٰذا تم پیر صاحب سے معافی مانگ لو اور اپنی عاجزی اور کمزوری کا اعتراف کر لو، چلو میں بھی تمہارے ساتھ معافی مانگتا ہوں۔ پھر ہم دونوں نے حضرت سے معافی مانگی لیکن تقدیر کا لکھا پورا ہو کر رہا۔ کچھ عرصہ بعد شیخ نے اُسی مرید کو ایک کام کہا جو بظاہر اسے پسند نہ تھا لیکن حقیقت میں اس کے لیے فائدہ مند تھا۔ مگر وہ اس کی حکمت نہ جان سکا اور اس نے ناپسند جانتے ہوئے وہ کام نہ کیا یہاں تک کہ وہ حضرت کے متعلق بدگمانی کا شکار ہوکر بالآخرصحبتِ شیخ سے محروم ہو گیا۔
مزید فرماتے ہیں کہ اسرارِ الٰہی کو وہی شخص برداشت کر سکتا ہے جو پرہیز گار ہو، اس کا عقیدہ درست اور عزم پختہ ہو۔ اپنے پیر کے علاوہ کسی کی بات پر یقین نہ کرے بلکہ دیگر تمام لوگوں کی حیثیت اس کی نظر میں مردوں کی مانند ہو۔ (الابریز، الباب الخامس فی ذکر التشایخ و الارادۃ، الجزء الثانی، ص ۷۸)
بعض اوقات کوئی مرید اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اولیائے کاملین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِین بالخصوص اپنے پیر و مرشِد کی خدمت گزاری و رضا کے سبب کسی منصب پر فائز ہو جاتا ہے تو اسے پیر کا احسان ماننے کے بجائے اپنی محنت و خدمت کا صلہ سمجھتے ہوئے فخر و غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب اسے مزید خدمت بجا لانے کی ضرورت نہیں اس کا مقصود حاصل ہو چکا ہے ۔پس یوں اپنے پیر کی بے اَدَبی یاگستاخی کا خیال اس کے دل میں جڑ پکڑنے لگتا ہے اور وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ آج جس مقام پر فائز ہے وہ سب پیر و مرشِد کی نگاہِ فیضِ اَثر کا صدقہ ہے اور اس کا شیخ اس کے دل کی بدلتی ہر کیفیت سے آگاہ ہے ۔ جیسا کہ حضرت سَیِّدنا علی بن وفا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (متوفی ۸۰۱ھ) فرماتے ہیں کہ جس مرید نے یہ گمان کیا کہ اس کا شَیخ اس کے دل کی بدلتی کیفیات اور اسرار سے واقف نہیں۔تو وہ اپنے شَیخ کے فیض سے محروم ہو جاتا ہے خواہ رات دن مرشِد کے ساتھ ہی رہے ۔ (الانوار القدسیۃ فی معرفۃ قوائد الصوفیۃ، الجزء الثانی، ص۳۳)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا ہمیں کبھی اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہئے اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے پیر کی بارگاہ میں آنے سے پہلے ہم سر سے پاؤں تک گناہوں میں غرق تھے ، مرشِد کی نظر نے ہمیں گناہوں کے اس ریگستان سے نکال کر نیکیوں کے گلستان میں پہنچایا ہے ۔ ہماری نیکیوں کے چراغ گناہوں کی تیز آندھیوں میں بجھ چکے تھے مگر مرشِد کے روحانی تصرف نے ان بجھے ہوئے چراغوں کو پھر سے روشن کر دیا ۔ لہٰذا یاد رکھئے کہ جب مرید اپنا ماضی بھلا دے تو اس کا عروج اور کمال زوال میں بدل جاتا ہے ۔ چنانچہ،
حضرت داتا گنج بخش سید علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی کا ایک مرید کچھ بد اعتقاد ہو گیا اور سمجھا کہ اسے بھی مَقامِ معرِفت حاصل ہوگیا ہے اب اسے مرشِد کی ضَرورت نہیں رہی۔ لہٰذا وہ خاموشی سے حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی کی بارگاہ سے منہ موڑ کر چلا گیا۔ پھر ایک دن یہ دیکھنے و آزمانے آیا کہ کیا حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی اس کے دل کے خیالات سے آگاہ ہیں یا نہیں؟ ادھر حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی نے بھی اپنے نورِ فراست سے اس کی حالت ملاحظہ فرما لی۔ چنانچہ جب وہ مرید آیا اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ سے ایک سوال پوچھا تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا : کیسا جواب چاہتا ہے ، لفظوں میں یا معنوں میں؟ بولا : دونوں طرح۔ تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے فرمایا : اگر لفظوں میں جواب چاہتا ہے تو سن! اگر مجھے آزمانے سے پہلے خود کو آزما اور پرکھ لیتا تو تجھے مجھے آزمانے کی ضرورت پیش نہ آتی اور نہ ہی تو یہاں مجھے آزمانے و پرکھنے آتا۔ اور معنوی جواب یہ ہے کہ میں نے تجھے منصبِ ولایت سے معزول کیا۔ یہ فرمانا تھا کہ اس مرید کا چہرہ سیاہ ہو گیا تو آہ و زاری کرنے لگااور عرض گزار ہوا : حضور یقین کی راحت میرے دل سے جاتی رہی ہے ۔ پھر توبہ کی اور فضول باتوں پر بھی ندامت کا اظہار کیا تو حضرت جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی نے ارشاد فرمایا : تو نہیں جانتا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ولی والیانِ اسرارِ الٰہی ہوتے ہیں، تجھ میں ان کی ضرب کی برداشت نہیں۔ ( کشف المحجوب، ص ۱۳۷)
معلوم ہوا مرید کو پیر کا امتحان لینے کے متعلق کبھی نہیں سوچنا چاہئے ورنہ رحمت خداوندی سے محروم ہونا پڑے گا۔ نیز کسی مقام و منصب کے حصول پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب میرے پیر کی عطا ہے ، کیونکہ جو مرید کسی نعمت کو اپنے پیر کی عطا نہیں سمجھتے اکثر شیطان کے ہاتھوں ان کا انجام برا ہوتا ہے ۔ چنانچہ،
حضرت جُنید بَغْدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی کے ایک مرید کو یہ سوجھی کہ میں کامل ہوگیا ہوں اور اب مجھے پیر کی صحبت و خدمت میں رہنے کی کوئی حاجت نہیں رہی بلکہ میرے لیے اکیلا
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع