30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
مُعافی نہیں ملے گی ؟
حضرتِ اَبُودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تم نیکی کا حکم دیتے رہنا اور بُرائی سے روکتے رہناورنہ تم پر ظالِم بادشاہ مُسَلَّط کردیا جائےگا جو تمہارے چھوٹے پر رَحم نہیں کرے گا اور تمہارے نیک لوگ دُعا کریں گے مگر اُن کی دُعائیں قَبول نہیں ہوں گی،وہ مُعافی مانگیں گے مگر اُن کو مُعافی نہیں ملے گی۔
( احیاء العلوم ،2/383)
بُری باتوں سے روکو ورنہ۔۔۔!
مسلمانوں کےپہلے خلیفہ،حضرتِ ابوبکر صدِّیق رضی اللہ عنہ نے اِرشاد فرمایا:اے لوگو ! تم اس آیت کو پڑھتے ہو:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْؕ-
(پ7، المائد ۃ:105)
ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو! تم اپنی فِکر رکھّو،تمہارا کچھ نہ بِگاڑے گا جو گمراہ ہوا جبکہ تم راہ پر ہو۔
)یعنی تم اِس آیت سے یہ سمجھتے ہوگے کہ جب ہم خود ہِدایت پر ہیں تو گُمراہ کی گمراہی ہمارے لیے مُضِر(یعنی نقصان دِہ)نہیں،ہم کو کسی گُمراہ کو گُمراہی سے مَنع کرنے کی ضَرورت نہیں)میں نےمکّی مَدَنی آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے سُنا ہے کہ لوگ اگر بُری بات دیکھیں اور اُس کو نہ بدلیں تو قریب ہے کہ اللہ پاک اُن سب کو اپنے عذاب میں مُبتلا فرما دے۔
(ابن ماجہ ،4/359، حدیث :4005)
اس حدیث پاک کے تحت ” مراٰۃ المناجیح “میں ہے:قرآنِ کریم کی اس آیت:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْؕ-
(پ7، المائد ۃ:105)
ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو! تم اپنی فِکر رکھّو،تمہارا کچھ نہ بِگاڑے گا جو گمراہ ہوا جبکہ تم راہ پر ہو۔
کے حوالے سے بعض لوگ سمجھتے تھے کہ اَمْرٌ بِا لمَعرُوْفِ وَ نَهْیٌ عَنِِ الْمُنْکَر (نیکی کا حکم کرنے اور بُرائی سے منع کرنے)کی ضَرورت نہیں بلکہ آدَمی کو اپنی اِصلاح کرنی چاہیے دوسروں کے گناہ یا کوتاہیاں اِس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں،حضرتِ ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ نے اِس مُغالَطے ( مُغا۔لَ۔طے )کو دُورکرتے ہوئے رسولُ اللہ ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )کےاِس ارشاد گِرامی کے حوالے سے بتایا کہ جب لوگ بُرائی کو دیکھ کر اُسے بدلنے کی کوشِش نہ کریں تو وہ سب عذاب میں مُبْتَلا ہوتے ہیں۔دوسری رِوایات سے یہ بات واضِح ہوتی ہے کہ اِس تبدیلی کا تعلُّق طاقت سے ہے یعنی بُرائی کو بدلنے والے لوگ اِس بات کی طاقت رکھنے کے باوُجُود نہ بدلیں تو وہ بھی عذاب کے مستحق ہوں گے۔
( مراٰۃ المناجیح ، 6/507)
مذکورہ آیتِ مقدّ َسہ کے تَحت حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مسلم ان کُفّار کی مَحرومی پر افسوس کرتے تھے اور انہیں رنج ہوتا تھا کہ کُفّارعِناد(یعنی عداوت)میں مبتلا ہوکر دولتِ اسلام سے محروم رہے اللہ پاک نے ان( مسلمانوں)کی تسلّی فرمادی کہ اس میں تمہارا کچھ ضَرَر(یعنی نقصان)نہیں اَمْرٌ بِالْمعْرُوْف وَ نَهْیٌ عَنِ الْمُنْکَر (یعنی بھلائی کا حکم دینے اور بُرائی سے منع کرنے)کا فَرض ادا کرکے تم بَرِیُّ ال ذِّمّہ ہوچکے تُم اپنی نیکی کی جزا پاؤ گے۔عبد اللہ بن مبارَک( رحمۃُ اللہ علیہ ) نے فرمایا:اس آیت میں اَمْرٌ بِالْمعْرُوْف وَ نَهْیٌ عَنِ الْمُنْکَر کے وُجُوب کی بہت تاکید کی ہے کیونکہ اپنی فکر رکھنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ ایک دوسرے کی خبر گیری کرے،نیکیوں کی رغبت دلائے،بَدیوں سے روکے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع