حضر ت ابوقتا دہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے : ” لو گو ں میں بد تر ین چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرے۔ “ عرض کی گئی:
” یارَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! نماز میں چوری کیسے ہوتی ہے؟“ فرمایا: ”(اس طرح کہ) رُکوع اور سجدے پورے نہ کرے۔“ (مسند امام احمد بن حنبل ،8/386،حدیث:22705)
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فر ما تے ہیں : معلو م ہوا ما ل کے چور سے نماز کا چور بدتر(یعنی زیادہ بُرا) ہے،کیوں کہ مال کا چور اگر سزا بھی پاتا ہے تو (چوری کے مال سے) کچھ نہ کچھ نفع بھی اٹھا لیتا ہے مگر نماز کا چور سزا پوری پائے گا، اس کے لئے نفع کی کوئی صورت نہیں ۔ مال کاچور بندے کا حق مارتا ہے جبکہ نماز کا چور اللہ پاک کاحق۔یہ حالت اُن کی ہے جو نماز کو ناقص (خامیوں بھری) پڑھتے ہیں ۔اس سے وہ لوگ درسِ عبر ت حاصِل کریں جو سِرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں ۔ (مراۃ المناجیح ، 2/78ملخصا)
حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوجہاں کے سردار، مکے مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا: ہر نمازی کے دائیں بائیں (رائٹ لیفٹ۔ Right and left) ایک ایک فرشتہ ہوتا ہے، اگر نمازی پورے طور پر نماز ادا کرتا ہے تو وہ دونوں فرشتے اُس کی نماز اوپر لے جاتے ہیں اور اگر ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کرتا تو وہ اس کی نماز اُس کے منہ پر مار دیتے ہیں ۔ (الترغیب والترہیب ، 1/241 ، حدیث:724)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دن میں اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے صحابہ سے (ایک ستون کی طرف اشارہ کرکے) ارشاد فرمایا: ”اگر تم میں سے کسی کا یہ ستون ہوتا تووہ اِس کے عیب دار ہونے کو ضَرور ناپسند کرتا، پھر کیسے تم میں سے کوئی جان بو جھ کر اللہ پاک کے لیے پڑھی جانے والی نماز ناقِص (یعنی عیب دار )پڑھتا ہے! نماز پوری کیا کرو کیو نکہ اللہ پاک کامل (یعنی پوری) نماز ہی قبول فرماتا ہے۔“ (معجم اوسط ،4/374، حدیث :6296)
شیخ الحدیث حضرتِ علاَّمہ مولانا عبدُ المُصطفٰے اَعْظَمی رحمۃُ اللہِ علیہ”بَہِشْت کی کُنجیاں“ صفحہ 72 پر فرماتے ہیں : نماز کو نہایت ہی اِخلاص و اطمینان اور حضورِ قَلْب(یعنی دلی توجُّہ) کے ساتھ ادا کرنا چاہیے، نمازمیں جلدبازی، غفلت اور بے توجہی سے دنیاو آخِرت دونوں کا عظیم نقصان ہے۔ چُنانچِہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کے دادا اُستاد حضرت ابراہیم نخعی رحمۃُ اللہِ علیہ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو تم دیکھو کہ رکوع اور سجدوں کوپورے طور پر ادا نہیں کرتا ہے تو اس کے اہل و عِیال(یعنی بال بچّوں ) پر رحم کرو !کیونکہ ان کی روزی تنگ ہو جانے اور فاقہ کَشی (یعنی کھانے پینے کو نہ ملنے )کا خطرہ ہے۔ (روح البیان ،1/33) ایک حدیث میں ہے کہ حضرتِ حذیفہ رضی اللہُ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ رُکوع وسُجود(یعنی رکوع اور سجدوں ) کو پورے طورپرادانہیں کرتا تھا تو آپ نے فرمایا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی اور اگر تو اِسی حالت میں مرجاتا تو حضرت محمَّدِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنَّت پر تیری موت نہ ہوتی۔
(بخاری ،1/154،حدیث:389)(بہشت کی کنجیاں ، ص72)
حضرت اَنس رضی اللہُ عنہ سے منقول ہے کہ اَنصار کا ایک نوجوان جو پانچ وقت کی نماز باجماعت سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ پڑھتا تھا مگر اُس کی عملی حالت اچھی نہ تھی، تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ” اِس شخص کی نَماز کبھی نہ کبھی ضرور اِسے گناہوں سے باز رکھے (یعنی دور کر دے) گی۔“ چنانچہ ایسا ہی ہوا، تھوڑے ہی دنوں کے بعد اُس نے تمام بری باتوں سے توبہ کرلی اور اُس کی حالت اچھی ہوگئی۔ (تفسیر خازن ،3/452)
سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا گیا کہ فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے اور صبح کو چوری کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: عنقریب نماز اُسے بُرے عمل سے روک دے گی۔ (مسند امام احمد بن حنبل ،3/457، حدیث :9785)
کہا جاتا ہے: ایک مرتبہ ڈاکوؤں کی ایک ٹیم کسی ما ل دار آدمی کے مکان میں ڈاکہ ڈالنے کی غرض سے جا گھسی، اِتفاقاً ما ل دار آدمی کی آنکھ کھل گئی، اُس نے شور مچا دیا، اَہل ِ محلہ جاگ پڑے اور ڈاکو گھبرا کر بھاگ پڑے، محلے والوں نے اُن کا پیچھا کیا، ڈاکوآگے آگے بھاگ رہے تھے اور پیچھے پیچھے لوگ آرہے تھے۔ راستے میں ڈاکوؤں کو ایک مسجِدنظر آئی، فوراً مسجد میں داخل ہوگئے اورجھوٹ مُوٹ نماز پڑھنے لگے،لوگ بھی اُن کو تلاش کرتے ہوئے مسجد تک آئے، دیکھا کہ چند آدمی نماز میں مصروف ہیں ، اِن کے علاوہ مسجد میں کوئی نہیں ، کہنے لگے کہ اَفسوس! ڈاکو کہیں نکل گئے۔ چنانچہ وہ لوگ ناکام واپس لوٹ گئے۔ یہ دیکھ کر ڈاکوؤں کا سردار اپنے ڈاکو ساتھیوں سے بولا: اگر آج ہم جھوٹ موٹ نماز کی صورت نہ بناتے تو ضرور پکڑ لیے جاتے ، صرف جھوٹ موٹ نماز کی صورت اِختیار کرنے کی یہ بَرَکت ہے کہ ہم ذِلَّت و رُسوائی سے بچ گئے، اگر ہم حقیقت میں نماز کو دُرُست طور پر اپنا لیں تو اللہ ربُّ الْعِزّت ہمیں دوزخ کی مصیبت سے بھی بچالے گا، اِس لیے میں تو آج سے لوٹ مار سے توبہ کرتا ہوں اور اللہ پاک کی نافرمانی کی عادَت چھوڑتا ہوں ۔ اُس کے ساتھی کہنے لگے: اے ہمارے سَردار ! جب آپ نے توبہ کرلی تو پھر ہم بھی کیوں پیچھے رہیں ! ہم بھی آپ کے ساتھ توبہ میں شریک ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ تمام ڈاکوؤں نے سچّے دِل سے توبہ کی اور اُن کا شمارپرہیزگارلوگوں میں ہونے لگا۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
”نماز بُرائیوں سے بچاتی ہے“ کے بارے میں حضرت عبدالرحمٰن صَفَّوری رحمۃُ اللہِ علیہ نے ”نُزہۃالْمَجالِس“ میں ایک عجیب وغریب حِکایت بیان فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص کسی عورت پر عاشق ہوگیاآخِر کار ہِمَّت کرکے اُس نے ایک چِٹّھی میں اس عورت پر اپنے عشق کا اِظہار کر دیا۔ وہ خاتون نہایت شریف خاندان سے تعلق رکھتی تھی، چِٹّھی پا کر پریشان ہوگئی چونکہ شادی شدہ بھی تھی، کچھ سوچ سمجھ کر وہ چٹھی اپنے شوہرِ نامدار کی خدمت میں پیش کردی۔ اُس کا شوہر ایک مسجد کا امام تھا اور نہایت پرہیزگار ہونے کے ساتھ سا تھ کافی سمجھدار بھی تھا، اُسے اپنی زَوجہ پر پورا اِعتماد (یعنی بھروسا) تھا۔ لہٰذا اُس چِٹّھی کے جواب میں اپنی زوجہ ہی کی معرفت اُس نے یہ جواب دِلوایا کہ” فلاں مسجد میں فلاں اِمام کے پیچھے بِلاناغہ چالیس (40)دن پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرو پھر آگے دیکھا جائے گا۔“ اُس ” عاشق“ نے پابندی سے نمازِ باجماعت شروع کردی۔ جوں جوں دِن گزرتے گئے نماز کی برکتیں اُ س پر ظاہر ہوتی چلی گئیں ۔ جب چالیس(40) دن گزر گئے تو اُس کے دل کی دُنیا ہی بدل چکی تھی چنانچہ اس نے یہ پیغام بھیج دیا:( محترمہ! نماز کی بَرَکت سے میری آنکھ کھل گئی ہے، میں مَعاذَ اللہ حرام کاری کے خواب دیکھتا تھا لیکن اللہ کریم کا کروڑ ہا کروڑ شکر کہ اُس نے مجھے تیری محبت سے چُھٹکارا عنایت فرمادیا ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ)میں نے اپنی بدنیتی سے توبہ کرلی ہے اور تجھ سے بھی معافی کا طلب گار ہوں ۔ جب اُس نیک خاتون نے اپنے شوہر کو یہ پیغام سنایا تو اُس کی زبان سے بے ساختہ (یعنی ایک دم)یہ جاری ہوگیا: صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ فِیْ قَوْلِہٖ (یعنی ربِّ عظیم نے اپنے اس ارشاد میں بالکل سچ فرمایا):( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ )
(پ 21، العنکبوت:45)”ترجَمۂ کنزالایمان :بے شک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بُری بات سے ۔“ (نزہۃ المجالس،1/140ملخصا)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
اے نماز کی برکتوں کے طلب گارو! دیکھاآپ نے! نماز کی بَرکت سے ایک ” عاشقِ مجازی“راہِ راست پر آگیا اور اُس کے دل میں مالِکِ حقیقی کا عشق موجیں مارنے لگا اور اُسے سکونِ قلب حاصِل ہوگیا۔ اور واقعی اللہ پاک اور اُس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت ہی ایسی ہے کہ جس خوش نصیب کو نصیب ہوجائے وہ پھر کسی اور سے دل لگا ہی نہیں سکتا۔
محبت میں اپنی گُما یاالٰہی! نہ پاؤں میں اپنا پتا یاالٰہی
رہوں مست وبے خود میں تیری وِلا میں پلا جام ایسا پلا یاالٰہی
(وسائل بخشش ،ص105)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
… یعنی جس سال نامُراد ونا ہنجار اَبرہہ بادشاہ ہاتھیوں کے لشکرکے ہمراہ کعبۂ مشرَّفہ پر حملہ آور ہوا تھا۔ اِس واقعہ کی تفصیل جاننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ” عجائبُ القرآن مع غرائِبُ القرآن“ کا مطالعہ کیجئے۔