Khandan Ko Deen e Islam Ki Dawat
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Mukhtasar Seerat e Rasool | مختصر سیرت رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم

Khandan Ko Deen e Islam Ki Dawat

book_icon
مختصر سیرت رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم

سوال : حضور نے اپنے خاندان کو دینِ اسلام کی دعوت کس انداز میں دی ؟ 

جواب: جب آپ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   نے اعلانِ نبوت فرمایا تو اللہ پاک کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے لوگوں کو بتوں کی پوجا کی بجائے   ایک خدا کی عبادت کی دعوت دینے لگے ، لیکن  شروع میں آپ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے اس دعوت کو خفیہ رکھا  اور آپ  قریش کی عام مجالس میں اعلانیہ دعوت نہیں دیتے تھے۔جب یہ آیتِ مبارکہ  ( وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ(۲۱۴))(پ19،الشعراء: 214 ) ترجَمۂ کنز الایمان:   اور اے محبوب اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ۔   “نازل ہوئی تو   آپ نے اعلانیہ طور پر دعوت دینا شروع کیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم    نے کوہِ صفا پر چڑھ کر قریش کی مختلف شاخوں کو پکارنا شروع کیا:   اے بنی فہر!   اے بنی عدی !   یہاں تک کہ لوگ جمع ہوگئے اور جو نہ آسکا اس نے اپنا نمائندہ بھیجا کہ جاکر دیکھے آخر بات کیا ہے۔ جب لوگ جمع ہوگئے تو  آپ نے اُن سے فرمایا:   اگر میں یہ کہوں کہ وادی کے اُس طرف ایک لشکرِ جرّار ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو  کیا تم لوگ  مجھے سچا مانو گے ؟  سب نے کہا :   جی ہاں !  ہم آپ کی تصدیق کریں گے کیونکہ ہم نے تو ہمیشہ آپ کو سچ بولتے ہی سُنا ہے ۔   فرمایا:   تو پھر میں تمہیں قیامت کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو سب کے سامنے ہے۔( بخاری،  3 / 294، حدیث: 7470 )
سوال : وہ کونسا موقع تھا جب پہاڑوں پر مقرر فرشتہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ؟ 
جواب: اعلانِ نبوت کے دسویں سال جب حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم طائف والوں کو دعوت اسلام دینے کے لیے تشریف لے گئے تو بجائے اسلام قبول کرنے کے انہوں نے آپ کو اس قدر اذیت و تکالیف دیں کہ آپ کے نعلین مبارک  خون سے بھر گئے۔جب آپ وہاں سے واپس تشریف لا رہے تھے توپہاڑوں کے فرشتے نے حاضرخدمت ہو کر عرض کی: اے اللہ کے رسول !  آپ جو چاہیں حکم دیں اگر اجازت ہو تو اَخْشَبَیْن (طائف کے دو مضبوط اور اُونچے پہاڑ) کو ان پر اُلٹ دوں ۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ ہلاک ہو جائیں بلکہ مجھے امید ہے کہاللہ پاک ان کی پشتوں سے ایسے بندے پیدا کرے گا جو صرف خدا کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا ئیں گے۔ 
(بخاری،2/386،حدیث:3231 ۔ سیرتِ رسولِ عربی، ص 294)
سوال : کس موقع پر جنات حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ؟  
جواب: طائف کے سفر سے واپسی پر ”نخلہ“   نامی گاؤں میں رات کونمازِ تہجد میں آپ قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ جنوں کی ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور قرآن سن کر یہ سب کے سب مسلمان ہو گئے ۔پھر انہوں نے واپس جا کر اپنی قوم کو بتایا تو مکہ مکرمہ میں جنوں کی جماعت نے فوج در فوج آ کر اسلام قبول کیا۔ قرآنِ مجید میں سورهٔ جن کی ابتدائی آیات اور سورۂ احقاف میں اس کا ذکر موجود ہے ۔(سیرتِ مصطفےٰ ،  ص 145،146)
سوال:پیارے آقا  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   نے مکہ سے مدینہ کی طرف کب ہجرت فرمائی ؟  
جواب: ‏‫مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کی بڑھتی  ہوئی  تعداد  کفار کے لئے ناقابل برداشت تھی ،  چنانچہ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاء کر دی اس صورت حال میں حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   نے مسلمانوں کو مدینۂ منورہ کی طرف  ہجرت کی اجازت عطا فرما ئی اور آخر میں خود بھی مدینے کی طرف ہجرت  کی ۔ کفار معاذ اللہ آپ کو شہید کرنے کا منصوبہ بناچکے تھے لیکن اس کے باوجود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایسے  امانت دار تھے کہ  ہجرت کی رات حضرت علی رضی اللہُ عنہ     کو اہلِ مکہ کی امانتیں سپرد کر کے فرمایا کہ امانتیں اُن کے اہل کے سپرد کر کے صبح مدینے چلے آنا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   کفار کے  سروں پر خاک  ڈالتے ہوئے ان کی نظروں کے سامنے سے صاف نکل گئے اور ان کو اس کی خبر تک  نہ ہوئی ۔ ادھر مدینے کے مسلمان شدت سے حضور کی آمد کے انتظار میں تھے کہ اچانک ایک روز کسی نے پکارا: ”اے مدینے والو! تمہیں جس  کا انتظار تھا وہ کاروانِ رحمت آپہنچا ہے ! “  یہ سنتے ہی تمام انصار نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے استقبال کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے اور پورا شہر اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھا ۔‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬
(سیرت مصطفےٰ،ص 155 تا171 ملخصاً)‬
سوال :جنگ بدر کا حال بیان فرمائیں ۔
 جواب: جنگ ِ بدر کفرو اسلام کا پہلا اور  مشہور ترین معرکہ ہے  جو 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقامِ ”بدر “ میں ہوا۔مسلمانوں کے پاس جنگی سازو سامان انتہائی کم تھا اور کُل افراد صرف 313 تھے جبکہ مقابلے میں جنگی  سازوسامان سے لیس ایک ہزار (1000) جنگجوؤں کا لشکر تھا ۔ اس موقع پر نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   نے یہ دعا کی : ”الٰہی ! اگر یہ چند نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے نہ رہیں گے۔“ چنانچہ اللہ پاک نے مسلمانوں کی مدد کے لیے پانچ ہزار فرشتے نازل فرمائے  اور مسلمانوں کو وہ عظیمُ الشان فتح  نصیب ہوئی  کہ اسلام کی عزت کا پرچم سر بلند ہوگیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن کا نام ”یومُ الفرقان“ رکھا۔اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح مبین کے بارے میں احسان جتاتے ہوئے اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا : (وَ  لَقَدْ  نَصَرَكُمُ  اللّٰهُ  بِبَدْرٍ  وَّ  اَنْتُمْ  اَذِلَّةٌۚ-فَاتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تَشْكُرُوْنَ(۱۲۳)) (پ4، اٰل عمران: 123)   ترجَمۂ کنز الایمان: ”اور بے شک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سرو سامان تھے ، تو اللہ سے ڈرو کہ کہیں تم شکر گزار ہو۔ “  (سیرتِ مصطفیٰ، ص 210 تا 233 ملخصاً و ملتقطاً )
سوال : صلحِ حدیبیہ کیا ہے اور قرآن نے اس کو کیا نام دیا تھا ؟ 
جواب:ذوالقعدہ  6ھ کو نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  مدینہ منورہ سے چودہ  سو صحابَۂ کرام کو ساتھ لے کر عمرہ ادا کرنے کے لیے روانہ ہوئے ۔ لیکن مکہ کے کافرنہیں چاہتے تھے کہ آپ مکہ میں داخل ہوں چنانچہ ان کی دشمنی کی وجہ سے مسلمان اس سال عمرہ ادا نہ کرسکےاور انہوں نے اگلے سال عمرہ ادا کیا ۔  اس موقع پر ایک صلح نامہ طے پایا جسے ”صلحِ حدیبیہ “ کہا جاتا ہے ۔  بظاہر یہ ایک مغلوبانہ صلح تھی مگر قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے اس کو ” فتحِ مبین“  کا لقب عطا فرمایا ہے۔ بعد کے واقعات نے بتا دیا کہ درحقیقت یہی صلح تمام فتوحات کی کنجی ثابت ہوئی اور سب نے مان لیا کہ واقعی صلح حدیبیہ ایک ایسی فتحِ مبین تھی جو مکہ میں اشاعتِ اسلام بلکہ فتح مکہ کا ذریعہ بن گئی۔(سیرتِ مصطفےٰ ، ص 346  ملخصاً وبتغیر )
سوال : فتحِ مکہ کے موقع پر نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   کا کریمانہ برتاؤ کیسا تھا ؟ 
جواب:   فتحِ مکہ کے بعد آپ کے سامنے وہ کفار موجودتھے  جنہوں نے آپ پر اور آپ کے صحابہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، راہ میں کانٹے بچھائے ، جسمِ اطہر پر نجاستیں ڈالیں ، قاتلانہ حملے کئے ، آپ کے صحابہ کو شہید کیا ، مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا ، آپ پر بہتان لگائے ، اَلْغَرَض!وہ کونسا ظلم تھا جو انہوں نے نہ کیا ہو۔ آج وہ سب کے سب مجرموں کی حیثیت سے آپ کے سامنے تھے۔   آپ چاہتے تو ان سے زبردست انتقام لیتے مگر اللہ کے آخری نبی  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   نے کوئی انتقامی کاروائی نہ فرمائی ، اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا : لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ آج تم پر کوئی الزام نہیں ہے ، جاؤ! تم سب آزاد ہو۔    طرح طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں دینے والے دشمنوں پر فتح پا کر اُن سے ایسا حسنِ سلوک کرنے کی کوئی اور مثال نہیں ملتی ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ، 3/449، ملخصاً ۔ آخری نبی کی پیاری سیرت ، ص 106 )
سوال : فتحِ مکہ کے بعد مدینہ کے انصار صحابۂ کرام کو کس بات کی فکر لاحق ہوئی ؟ 
جواب: فتحِ مکہ کے بعد مدینہ منورہ کے انصارصحابہ آپس میں کہنے لگے  کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی کو مکہ مکرمہ پر فتح عطا فرمائی ہے ، یہ شہر آپ کی ولادت وپرورش کا مقام ہے نیز آپ کا خاندان اور قبیلہ بھی یہیں آباد ہے ۔ ہوسکتا ہے اب آپ یہیں سکونت اختیار فرمالیں اور ہم کو چھوڑ دیں ۔ جب یہ خبر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  تک پہنچی تو آپ نے انصار سے فرمایا: اب تو ہماری زندگی اور وفات تمہارے ہی ساتھ ہے اور فرمایا کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک فرد ہوتا ۔(سیرتِ ابن ہشام ، ص475۔سیرتِ سید الانبیاء، (مترجم )،ص  484 )، اگر لوگ ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں جبکہ انصار دوسری وادی میں چلنا شروع کردیں تو میں انصار کی گھاٹی یا وادی میں چلوں گا ۔ (بخاری ، 3 / 116 ، حدیث : 4330)

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن