30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
موت کی فکر سے اونٹ کی مَسْتِیاں جاتی رہیں
حضرتِ عیسیٰ رُوحُ اللہ علیہ السّلام ایک بار اُونٹوں کے ریوڑ کے پاس سے گزرے تو آپ علیہ السّلام نے دیکھا کہ اُن میں سے ایک اونٹ بڑی مستیاں کر رہا ہے ،کبھی کسی اونٹ کو اپنا سَر دے مارتا ہے اور کبھی کسی اونٹ کو کاٹنے کے لیے دوڑتا اور اس پر جھپٹتا ہے۔ آپ علیہ السّلام اس اونٹ کے قریب گئےاور اس کے کان میں فرمایا:اِنَّکَ مَیِّتٌ یعنی تجھے مرنا ہے۔یہ فرما کر حضرتِ عیسیٰ رُوح ُ اللہ علیہ السّلام آگے تشریف لے گئے،اب اس اونٹ پر موت کی ایسی فِکر سُوار ہوئی کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ، اس کی ساری مستیاں جاتی رہیں اور وہ دُبلا پتلا ہو گیا۔چند دِن بعد حضرتِ عیسیٰ رُوحُ اللہ علیہ السّلام جب دوبارہ وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ وہی اُونٹ دُبلا پتلا ہو چکا ہے اور تمام اُونٹوں سے الگ تَھلگ ایک جگہ کھڑا ہے۔آپ علیہ السّلام نے چَرواہے سے اس اونٹ کی حالتِ زار کے بارے میں پوچھا تو چرواہے نے عرض کی:میں صِرف اتنا جانتا ہوں کہ اس اونٹ کے پاس سے ایک شخص گزرا تھا، جس نے اس کے کان میں کوئی ایسی بات کہی کہ اس کے بعد سے اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور اَب یہ سب اونٹوں سے الگ تھلگ ہو کر ایک جگہ سُست کھڑا رہتا ہے ۔
( نزہۃ المجالس ،1/85 بتغير قليل)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے! اونٹ جو ایک جانور ہے اسے جب موت کے بارے میں پتا چلا تو اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور اس کی ساری مستیاں جاتی رہیں حالانکہ اس کے لیے نہ نَزْع کی سختیاں ہیں اور نہ ہی قبر کا عذاب اور جہنّم کی ہولناکیاں ہیں، البتّہ بعض جانور جہنّم میں بھیجے جائیں گے لیکن عذاب پانے کے لیے نہیں بلکہ عذاب دینے کے لیے اور انہیں وہاں کوئی تکلیف نہ ہو گی۔(تفسیرکبیر،پ30،النباء،تحت الآيۃ:11،40/27 ملخصاً) ایک طرف تو موت کے خوف سے جانوروں کی یہ حالت ہے جبکہ دوسری طرف ہم انسانوں اور مسلمانوں کی یہ صورتِ حال ہے کہ اس بات کا یقین ہونے کے باوجود غفلت کا شکار ہیں کہ ہمیں موت آئے گی، قبر میں پہنچائے گی اور اچھے بُرے اَعمال کا بدلہ دلائے گی۔اگرچہ کبھی کبھار سُنَّتوں بھرے اِجتماعات میں رِقّت اَنگیز بیانات سُن کر ہمیں اپنی موت کا احساس ہوتا ہے مگر وہ جلد ہی ختم ہو جاتا ہے۔بعض لوگ سر جھکا کر توجّہ سے بیان سنتے اور اپنے گناہوں کو یاد کر کے کُڑھتے ہیں مگر بیان ختم ہوئے ابھی تھوڑا سا وقت گزرتا ہے تو وہ حسبِ معمول اپنے دوستوں کے ساتھ خوب ہنسی مذاق کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ عام طور پر اگلے دِن نماز ِفجر بھی نہیں پڑھتے،اگر جوش میں آ کر نمازِ فجر پڑھ لیتے ہیں تو ظہر نہیں پڑھتے اور اگر اگلے دِن ساری نمازیں پڑھ لیتے ہیں تو دوسرے دِن نمازِ فجر کے لیے نہیں اٹھتے، یوں وہ دوبارہ غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
قبریں اندر سے ایک جیسی نہیں ہوتیں
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!ہم جب قبرستان جاتے ہیں تو ہمیں سب قبریں اُوپر سے بظاہر ایک جیسی معلوم ہوتی ہیں کہ سب ایک ہی طرح کے مٹی کے تَودے ہوتے ہیں لیکن یاد رکھیے !یہ اَندر سے ایک جیسی نہیں ہوتیں، کیونکہ اَندر سے کسی کی قبر باغ وبہار اور کسی کی آگ ہی آگ ہوتی ہے ، کوئی اپنی قبر میں اللہ پاک کی نعمتوں کے مزے لُوٹ رہا ہوتا ہے اور کوئی عذاب کا شکار ہوتا ہے، چنانچہ حضرتِ محمد بِن سَمّاک رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک بار قبرستان کو دیکھ کر فرمایا:اے لوگو! ان قبروں کی خاموشی سے دھوکا مت کھانا کہ یہ چُپ چاپ ہیں، نہ! نہ! ان کے اَندر بسیرا کرنے والے سب ایک جیسے نہیں، ان میں سے بعض بہت تکلیف میں ہیں اور بعض راحت میں ہیں۔(اھوال القبور ،ص226ملخصاً) ہرعقلمند کو چاہیے کہ قبر میں داخل ہونے سے پہلے اسے بہت زیادہ یاد کرتا رہے،حضرتِ سُفیان ثوری رحمۃُ اللہِ علیہ کا اِرشاد ہے: جو شخص قبر کو بہت یاد کرے گا تو وہ اسے جنت کے ایک باغ کی مانند پائے گا اور جو اس سے غافل ہو گیا وہ اسے جہنّم کا گڑھا پائے گا۔(احیاء العلوم،5/238)
آہ !ہم غافلین کا کیا بنے گا! ہمیں تو موت کا ذِکر سُننا ہی پسند نہیں ہے، آپ کو بہت سے لوگ ایسے بھی ملیں گے جو یہ کہہ کر سُنَّتوں بھرے اِجتماعات میں نہیں آتے کہ دعوتِ اسلامی والے موت،موت کر کے ہمارا موڈ خراب کر دیتے ہیں۔ایسوں کے لیے عرض ہے کہ ہمارے اَسلاف بھی اپنے خطبوں میں لوگوں کو موت کی یاد دِلایا کرتے تھے، چنانچہ
اے اللہ کے بندو! موت کو یاد رکھو!
امیرُ المُومِنین مولا مشکل کُشا،حضرتِ علیّ المُرتضیٰ شیرِ خُدا رضی اللہُ عنہ نے ایک بار کچھ
اس طرح خطبہ اِرشاد فرمایا:اے اللہ کے بندو! موت کو یاد رکھو اور اس کے لیے تیاری کرو کہ اس سے بچنا ناممکن ہے ، اگر تم اس سے مقابلہ کرو گے تو یہ تمہیں دَبوچ لے گی اور بھاگنا چاہو گے تو پکڑ لے گی۔ موت تمہاری پیشانی میں پیوست کر دی گئی ہےلہٰذا عذابِ موت سے نجات کا کوئی ذریعہ تلاش کرو۔موت کی طرف پیش قدمی کروکہ قبر تمہاری مُنْتَظِر ہے اور وہ تمہیں جلد سے جلد اپنے پاس بُلا رہی ہے۔یاد رکھو!قبر یا تو جنت کا ایک باغ ہے یا جہنّم کا ایک گڑھا۔( المستطرف ،1/107ملخصاً)
یاد رکھیے! اگر ہم آج موت سے ڈر کر نمازی بن گئے اور ہم نے گناہوں سے کنارا کَشی اِختیار کر لی تو یہ ہمارے لیے اچھا ہے کہ کل ہمیں قبر میں راحت ملے گی ورنہ اگر آج ہم موت سے بے فِکر ہو کر گناہوں بھری زندگی گزارنے لگے تو مرنے کے بعدقبر میں ہمارے لیے خوف ہی خوف ہو گا۔ دیکھیے! مَرنے کے بعد کی زندگی مرنے سے پہلے کی زندگی سے زیادہ پاور فُل ہوتی ہے، مرنے کے بعد سُننے اور دیکھنے کا عمل بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ مرنے سے پہلے اگر ہم قبر میں اُتر کر دیکھیں تو ہمیں قبر کے باہر کا مَنظر نظر نہیں آئے گا جبکہ مرنے کے بعد قبر بند ہونےکے باوجود مُردے کو باہر کا مَنظر نظر آتا ہے اور کونسے لوگ آ جا رہے ہیں وہ سب دیکھتا ہے اور اُن کی آواز بھی سُنتا ہے جبھی تو ہم قبرستان جا کر مُردوں کو سلام کرتے اور یہ کہتے ہیں: ”اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا اَهْلَ الْقُبُوْر، يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ، اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرْ یعنی اے قبر والو! تم پر سلام ہو اللہ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے،تم لوگ ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔“یاد رکھیے! سلام اُسے کیا جاتا ہے جو سُنتا ہو اور جواب بھی دیتا ہو، جیساکہ حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: قبرستان میں جا کر پہلے سلام کرنا پھر یہ عرض کرنا (اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللهُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ)سُنّت ہے، اس کے بعد اہلِ قُبُور کو اِیصالِ ثواب کیا جائے۔اس سے معلوم ہوا کہ مُردے باہر والوں کو دیکھتے پہچانتے ہیں اور ان کا کلام سُنتے ہیں ورنہ انہیں سلام جائز نہ ہوتا کیونکہ جو سُنتا نہ ہو یا سلام کا جواب نہ دے سکتا ہو اُسے سلام کرنا جائز نہیں، دیکھو سونے والے اور نماز پڑھنے والے کو سلام نہیں کر سکتے۔ ( مراٰۃالمناجیح ،2/524) پتا چلا قبروں والے ہمارا سَلام سُنتے بھی ہیں اور اس کا جواب بھی دیتے ہیں۔ (شعب الایمان، 7/17،حدیث:9296ملخصاً)یادرہے! صِرف مسلمان ہی نہیں بلکہ کُفّار بھی مرنے کے بعد سُنتے اور دیکھتے ہیں ۔ نیز عام مُردوں کےمقابلے میں بُزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم اپنی قبروں میں زیادہ دُور سے سُنتے اور دیکھتے ہیں مثلاً اگر ہم یہاں سے بغداد والے مُرشد، حضورِ غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہکو پکاریں تو وہ ہماری آواز سُن لیں گے کیونکہ وہ اللہ کے ولیوں کے سردار ہیں۔دیکھیے!اب ٹیلی کَمْیُونیکیشن اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ ہم سات سمندر پار اپنے دوست سے بات چیت کر لیتے ہیں اور وہ ہماری آواز سُن لیتا ہے حالانکہ بیچ میں تاریں وغیرہ نہیں ہوتیں تو جب سائنسی کنکشن اتنا پاور فُل ہے تو روحانی کنکشن کا عالَم کیا ہو گا!
مرنے کے بعد سب کی سُننے اور دیکھنے کی طاقت بڑھ جاتی ہے اور مرنے والا اپنی قبر پر آنے والوں کو دیکھ بھی رہا ہوتا ہے اور اُن کی آواز بھی سُن رہا ہوتا ہے ۔ دیکھیے! اگر ہمیں قبر میں نہ عذاب دیا جائے اور نہ ہماری قبر میں سانپ بچھو آئیں صِرف ہمیں قبر میں بند کر دیا جائے تو قیامت قائم ہونے تک ہزاروں سال کا عرصہ ہم اندھیری قبر میں کیسے گزاریں گے!ہم قبر میں نہ کسی دوست کے پاس جا سکیں گے اور نہ کسی کو اپنے پاس بُلا سکیں گے، نہ ہماری ماں آئے گی اور نہ ہمارا باپ آئے گا،اگر باپ آئے گا بھی تو بے چارہ فاتحہ پڑھ کر اور اِدھر اُدھر قبروں کو دیکھ کر واپس چلا جائے گا اور ہم اسے اپنی قبر میں حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہ جائیں گے۔ ذرا غور تو کیجئے ! اگر ہمیں کسی عالی شان بنگلے میں قید کر دیا جائے اور وہاں ہمیں زندگی کی ضرورت کی ہر چیز دے دی جائے، مثلاً بتیاں، پنکھے، ایئرکنڈیشن روم، نرم نرم گدیلے، کھانے پینے کی اشیا وغیرہ سب سہولیات مُیَسَّرہوں مگر اس بنگلے میں ہم اکیلے ہوں اورہمارے پاس کسی کے آنے جانے پر پابندی ہو تو یقین مانیے! ہم اس میں ایک دو یا تین دِن ٹھہر پائیں گے بلکہ ہم میں سے بعض تو ایسے بھی ہوں گے جو ایک دِن بھی تنہا رہنا برداشت نہ کر سکیں گے۔دیکھیے! جب ایسے آسائش والے بنگلے میں ہم اکیلے ایک دِن گزارنے کے لیے تیار نہیں تو پھر قبر میں سینکڑوں سال اکیلے کیسےرہ پائیں گے!یاد رکھیے! آج ہم دنیا کی رنگینیوں میں پھنس کر قبر کو بُھولے بیٹھے ہیں جبکہ کہا جاتا ہے کہ قبر روزانہ پانچ مرتبہ پکار کر کہتی ہے: اے آدمی! تُو میری پیٹھ پر چلتا ہے جبکہ میرا پیٹ تیرا ٹھکا نا ہے۔ اے آدمی! تُو میری پیٹھ پر ہنستا ہے جلد ہی میرے اَندر آکرروئے گا۔اے آدمی! تُو مجھ پر حرام کھاتا ہے عنقریب میرے پیٹ میں تجھے کیڑے کھائیں گے۔اے آدمی! تُو میری پیٹھ پر خوشیاں مناتا ہے عنقریب مجھ میں غمگین ہو گا۔(تنبیہ الغافلین ،ص23ملخصاً)
خُدا کی قسم! اس قبر کی پکار میں عبرت ہی عبرت ہے، اے کاش! ہمیں عبرت نصیب ہو جائے اور اس سے پہلے کہ یہ شور مچے فلاں کا انتقال ہو گیا ہے، جلدی جلدی غَسَّال کو بُلا لاؤ، جلدی جلدی کفن لے آؤ اور جلدی جلدی قبر کھودنے کا انتظام کرو۔ پھر غَسَّال تختہ اُٹھائے چلا آ رہا ہو، ہمیں غُسل دیا جا رہا ہو، کفن پہنایا جا رہا ہو، ہمارےلیے قبر کھودنے کا انتظام کیا جا رہا ہو اور پھر ہمیں اندھیری قبر میں اُتار دیا جائےتو اس سے پہلے ہی موت کی یاد کو پیشِ نظر رکھیے اور جلدی جلدی اپنے گناہوں سے سچّی توبہ کر لیجئے۔
کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی
موت کو یاد رکھنے کے طریقے
پیارے پیارےاسلامی بھائیو! موت کی یاد کو پیشِ نظر رکھنے کے چند طریقےپیشِ خدمت ہیں، غور سے پڑھئے اور اپنے لیے موت کی یاد کا سامان کیجئے: ﴿1﴾جنازوں میں شرکت کیجئے ﴿2﴾قبرستان جانے کی عادت بنائیے ﴿3﴾موت کے موضوع پر ہونے والے بیانات سنئے ﴿4﴾عبرتناک واقعات کا مطالعہ کیجئے ﴿5﴾عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلوں میں سفر کو اپنا معمول بنا لیجئے، مَدَنی قافلوں میں موت کی تیاری کے حوالے سے وَعظ و نصیحت کا سِلسلہ بھی ہوتا ہے تو یوں آپ کو موت یاد رہے گی اور جب موت یاد رہے گی تو آپ کا گناہوں سے بچنے کا ذہن بھی بنے گا کہ حدیثِ پاک میں ہے:”کَفٰی بِالْمَوْتِ وَاعِظًا یعنی موت نصیحت کےلئے کافی ہے۔“(شعب الایمان، 7/353، حدیث:10556)لہٰذا ہر مہینے کم اَز کم تین دِن سنَّتوں کی تربیت کے لیے مدنی قافلوں میں سفر اختیار کرنے کی نیت کر لیجئے، اپنا نمازوں کا بھی ذہن بنا لیجئے اور سچّی نیت کیجئے کہ آج کے بعد اِن شاءَ اللہ ہماری کوئی نماز قضا نہیں ہو گی، ہمارا ماہِ رَمضان کا کوئی روزہ قضا نہیں ہوگا، ہم فلمیں ڈرامے دیکھنے اور گانے باجے سُننے سے بچیں گے، ہم والِدین کو نہیں ستائیں گے، مسلمانوں کی چغلیاں نہیں کھائیں گے، مسلمانوں کی غیبتوں، تہمّتوں اور اِلزام تراشیوں سے بچیں گے، مسلمانوں کی آبروریزی نہیں کریں گے اور اُن کے عیب چھپا ئیں گے۔ نیز یہ بھی نیّت کر لیجئے کہ ہم دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماعات میں پابندی سے شرکت کریں گے۔
اللہ پاک ہمیں خوب خوب نیکیاں کرنے، گناہوں سے بچنے اور مَرنے سے پہلے قبر وحشر کی تیّاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّیْن صَلّی اللہُ عَلْیَهِ واٰلهٖ وسلّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع