30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اور آپ کے عقدِنکاح میں یکے بعد دیگرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دو بیٹیاں (حضرت رُقیہ اور حضرت اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہما ) آئیں اس لئے آپ کو ”ذُوالنُّورین“ بھی کہا جاتا ہے۔(1)
حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بعد آپ ہی کے حکم پر ایک شوریٰ خلیفۃُ المسلمین نامزد کرنے کے لئے مقرر کی گئی پھر شوریٰ کے تمام اراکین نے حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو اتفاقِ رائے سے منظور کرتے ہوئے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی یعنی آپ کو خلیفۃُ المسلمین مقرر کیا گیا۔سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں شام، مصر اور ایران فتح کرلیا تھا نیز ملکی نظم و نسق اور طریقۂ حکمرانی کا ایک مستقل دستورُ العمل بنادیا تھا،اس لئے حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے لئے میدان صاف تھا۔آپ نے صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی نرمی وملاطفت اور فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی سیاست کو اپنا شعار بنایا اور ایک سال تک قدیم طریقِ نظم و نسق میں کسی قسم کا تغیر نہیں کیا البتہ خلیفۂ سابق کی وصیت کے مطابق حضرتِ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کو حضرتِ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی جگہ کوفہ کا والی بناکر بھیجا۔یہ پہلی تقرری تھی جو حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے عمل میں آئی۔
عہدِعثمانی میں فتوحات کا سلسلہ نہایت وسیع ہوا۔افریقہ میں طرابلس، الجزائر، رقہ، مراکش اور سپین مفتوح ہوئے، ایران کی فتح تکمیل کوپہنچی،ایران کے متصلہ ملکوں میں افغانستان، خراسان اور ترکستان کا ایک حصہ زیرِ نگین ہوا، دوسری سمت میں آرمینیا اور آذربائیجان کی فتح کے بعد اسلامی سرحد کوہِ قاف تک پھیل گئی،اسی طرح ایشیائے کوچک کا ایک وسیع خطہ فتح ہوا۔
بحری فتوحات کا آغاز حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے ہوا۔ایک عَظیمُ الشان بیڑا تیار کرکے جزیرۂ قبرص (سائپرس) پر 28 ہجری میں اسلامی علَم بلند کیا اور بحری جنگ میں 31 ھ میں قیصرِ روم کے بیڑے کو جس میں پانچ سو جنگی جہاز شامل تھے ایسی شکست دی کہ پھر رومیوں کو کبھی بحری حملے کی ہمت نہ ہوئی۔آپ کے زمانے میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں قرآنِ کریم کو ایک ہی روایت کے مطابق مرتب (جمع) کیا گیا۔(2) اسی وجہ سے آپ کو جامع القرآن کہاجاتاہے۔آپ رضی اللہ عنہ کو عبد اللہ بن سبا یہودی کے ایما پر بصرہ، کوفہ اور مصر کے کچھ باغیوں کی طرف
1…… تہذیب الاسماء، 1/297
2…… تاریخ طبری،8/442- 470 ملخصاً۔تاریخ الخلفاء،ص125 ملخصاً
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع