30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
دہریت
دہریت کی تعریف
دہر عربی لفظ ہے جس کا معنیٰ ”زمانہ“ ہے۔ دہریہ اس شخص کو کہتے ہیں جو زمانے کو تو مانتا ہے لیکن اس کے خالق کو نہیں مانتا۔ دہر یت کوئی جدید ایجاد نہیں بلکہ کئی صدیوں سے اس طرح کے عقائد رکھنے والے لوگ آتے رہے ہیں اور نزولِ قرآن کے وقت بھی یہ طبقہ موجود تھا جیساکہ قرآنِ مجید میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَا هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا یُهْلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهْرُۚ-وَ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍۚ-اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ(۲۴) (پ۲۵،الجاثیۃ:۲۴)
ترجَمۂ کنز العرفان: زندگی تو صرف ہماری دنیاوی زندگی ہی ہے ، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے اور انہیں اس کا کچھ علم نہیں ، وہ صرف گمان دوڑاتے ہیں ۔
موجودہ دور کی طرح پہلے ادوار میں بھی علمائے اسلام نے دہریوں کے باطل نظریات کے زبردست جوابات دئیے اور بالخصوص عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ وجودِ باری تعالیٰ کو ثابت کیا۔
وجہ تسمیہ
اس کی وجہ تسمیہ کچھ یوں ہے کہ کُفّار دن رات کے گزرنے ہی کو مؤثر اعتقاد کرتے، ملک الموت کے بحکمِ الٰہی روحیں قبض کرنے کا انکار کرتے اور ہر حادثہ کو دہر کی طرف منسوب کرتے تھے۔اس لفظِ”دہر“ سے اخذ کر کے دہریہ مستعمل ہے۔
دہریت کے فرقے
فلسفی فرقہ
اس فرقے کی مزید کئی شاخیں ہیں:
(1) بنیادی دہریہ فرقہ
یہ خالق کے وجود کا منکر ہے اور کہتا ہے کہ دنیا کا نظام ہمیشہ سے اسی طرح چلا آ رہا ہے اور ہمیشہ چلتا رہے گا۔
(2) طبیعیہ فرقہ
اس فرقے نے انسان کے وجود اور اس کے اعضا کی ساخت نیز جانوروں اور پودوں کے عجائبات پر غور کیا تو ان چیزوں کے خالق کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا لیکن اس فرقے کے نزدیک کسی چیز کے معدوم ہو جانے کے بعد اس کا
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع